سندھ کا ہیرو سندھ کا بیٹا کون؟ فیصلہ آپ کا
شیئر کریں
پاکستان میں ایک طویل عرصہ سے نظریہ پاکستان اور اسلامی ہیروز کے تشخص کو بگاڑنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بالخصوص سندھ میں آج کل ایک خلط مبحث کھڑا کردیا گیا ہے کہ راجہ داہر سندھ کا ہیرو ہے اور محمد بن قاسم بیرونی لٹیرا تھا۔ اس ضمن میں بہت سی من گھڑت و بے بنیاد باتیں گھڑ کر ایک Controversy پیدا کردی گئی ہے اور جب کسی بات کے بارے میں Controversy پیدا ہوجائے تو بات خواہ کتنی ہی سچی ہو تو اس پہ یقین کرنے میں ضعف پیدا ہوجاتا ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹھنڈے دل سے غور و فکر کے ساتھ تجزیہ کیا جائے کہ حقیقت کیا ہے۔ اس کے لیے تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا خصوصی طور پر راجہ داہر کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے دیے گئے دلائل کو معقولہ و منقولہ بنیاد پہ جانچنا ہوگا۔ سندھی نیشنلسٹ حضرات کا کہنا ہے کہ راجہ داہر نے اہل بیت کے خاندان کو سندھ میں پناہ دی جس کے تعاقب میں خلیفہ بنی امیہ نے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا جبکہ حقیقت تو یہ ہے حضرت عمرؓ کے دور میں ہی سندھ پر حملے کا تذکرہ شروع ہوگیا تھا اور حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں تو باقاعدہ مہمات بھیجی گئیں، اس کے علاوہ قرآن پاک میں ہے کہ ”یہود و مشرکین اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں” اس حساب سے بھی یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوتا ہے کہ برہمن تو آل رسولؐ کی محبت میں دیوانہ وار واری تھے اگر ایسا ہوتا تو وہ ایمان لے آتے، جیسا کہ آر ایس ایس کے کرتا دھرتا مہاراشٹر برہمن ہیں اور یہی لوگ ہندوتوا نظریہ کے خالق ہیں۔ ان کی اسلام دشمنی کا آج بھی یہ عالم ہے کہ بھارت میں کسی سڑک، عمارت، پارک وغیرہ کے اسلامی نام تک کو یہ ہندوتوائی برہمن برداشت نہیں کررہے، بھلا وہ لوگ آل محمدؐ کی محبت میں قربان ہونگے؟ سلام ہے ان بھائیوں پر جو اس بے بنیاد بات پہ یقین کرچلے ہیں جسے اب آکر آر ایس ایس کی شاخ راشٹریہ سندھو سماج کے رکن نے شیعہ سنی اختلاف کو دیکھتے ہوے گھڑ لی ہے کہ راجہ داہر نے اہل بیت کے خاندان کو پناہ دی جن کی دشمنی میں اموی خلیفہ نے سندھ پر حملہ کیا۔ ذرا سوچئے کہ یہ دعویٰ جس کا ریفرنس کسی تاریخ میں نہیں ملتا وہ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ محمد بن قاسم اہل بیت کی دشمنی میں سندھ پر حملہ آور ہوئے۔
اگر سندھ پر اس لیے حملہ آور ہوئے تو سندھی نیشنلسٹ بتائیں کہ اسپین میں کونسا اہل بیت کا خاندان گیا تھا جو طارق بن زیاد نے وہاں پہنچتے ہی اپنی کشتیاں جلا ڈالیں اور مٹھی بھر سپاہ کے ساتھ لاکھوں کے ٹڈی دل لشکر سے جا ٹکرایا، شمالی افریقا میں موسیٰ بن نصیر کس اہل بیت کے خاندان کے تعاقب میں گئے؟ قتیبہ بن مسلم جیسے عظیم جرنیل پر بھی کیا یہی تہمت لگائی جائے؟ یہ سب اسی دور کے اہم جرنیل ہیں جنہوں نے اسلامی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے فتوحات کیں۔ستم ظریفی تو دیکھیں کہ راجہ داہر کے دفاع میں تاریخ کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ سندھ کے ہیرو راجہ داہر پر تہمت لگائی جاتی ہے کہ اقتدار بچانے کے لیے بہن سے شادی کی اور دلیل دیتے ہیں کہ برہمن تو کزن سے بھی شادی نہیں کرتے پاکستانی کتب پر کیچڑ اچھالتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ راجہ داہر اور چچ سلطنت وہ واحد ہے جسے بھارت میں اس لیے پڑھایا نہیں جاتا کہ راجہ چچ سے لیکر راجہ داہر تک سب اخلاق و اقدار میں گرے ہوے تھے، بابا صاحب امبیڈکر کا کہنا ہے کہ ”History Of India is Nothing But Conflict between Buddhism & Brahmanism” اور اس حساب سے چچ وہ واحد برہمن ہے جس نے اقتدار کی لالچ میں رائے سہاسی کی بیوہ رانی سومن دیوی سے شادی کی حالانکہ برہمن سماج میں بیوہ سے شادی نہیں کی جاتی اور غیرمذہب سے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن چچ صاحب نے تمام ہندو روایات کو پس پشت ڈال کر ایک بدھ مت رانی سے شادی کی اور اقتدار پہ قبضہ کرلیا، رائے سہاسی کے بھائی رانا مہرت کو دھوکے سے قتل کروا کر اپنی سلطنت کی داغ بیل ڈالی اور سندھ میں ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا جس کی وجہ سے سندھ کے بہت سے قبائل برہمن سلطنت سے بیزار تھے اور محمد بن قاسم کی آمد پر راجہ داہر کے خلاف عربوں کا ساتھ دیا جن قبائل نے عربوں کا ساتھ دیا U.T Thaakur کے مطابق بھٹو، جت، میڈ (موہانے وغیرہ) اور بدھ مت شامل تھے، عربوں نے پہلے راجہ داہر کے بیٹے جے سریا کو شکست دی پھر اروڑ موجودہ نواب شاہ کے مقام پر راجہ داہر کو شکست فاش دیکر چور دروازے سے قابض ہونے والے برہمن راج کا خاتمہ کردیا، یہ محمد بن قاسم کا حسن سلوک ہی تھا کہ بدھ مت، بھٹو، موہانے، جت جوک در جوک اسلام میں داخل ہوے اور جو اپنے دین پہ قائم رہے وہ نجات دہندہ محمد بن قاسم کی مورتی بناکر پوجا کرتے تھے۔ سندھی نیشنلسٹ محمد بن قاسم کو عرب ہونے کی وجہ سے بیشک ہیرو تسلیم نہ کریں لیکن پھر بھی راجہ داہر کسی طور بھی سندھ کا ہیرو نہیں کہا جاسکتا، سندھ کا ہیرو اگر کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ حر تحریک کے بانی و روح رواں پیر پاگارہ خاندان کو قرار دیا جاسکتا ہے کہ جن کی چار نسلیں سندھ اور اسلام کے لیے قربان ہوگئیں۔
یہ پیر محمد راشد تھے جو شاہ ولی اللہ کے شانہ بشانہ اسلام کی روشنی پھیلانے میں مصروف رہے اور سندھ میں اسلامی تعلیمات کے لیے بیحد خدمات پیش کیں، اس کے بعد آپ کے صاحبزادے پیر صبغت اللہ شاہ اوّل گدی نشین ہوے تو پاگارا کا لقب اپنے ساتھ لگانا شروع کیا، آپ نے شاہ عبدلعزیز کی درخواست پر اپنے فالوورز کو جہادی ٹریننگ لینے کی ہدایت کی اور شاہ اسمعٰیل شہید و سید احمد شہید کے شانہ بشانہ سکھوں کے خلاف جہاد میں شرکت کی اور جنگ آزادی 1857 میں بھی پیش پیش رہے ہزاروں حر مجاہد شہید ہوے کوئی بالاکوٹ کے پہاڑوں پہ جا سویا تو کوئی پشاور کے میدانوں میں اور کوئی سندھ سے جاکر ہندوستان کے میدانوں میں قربان ہوگیا، پیر سید صبغت اللہ شاہ کے بعد پیر حزب اللہ شاہ نے حر تحریک کو مزید منظم کیا اور برطانوی تسلّط سے سندھ کو آزاد کروانے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، آپ کو جیلوں کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اذیتیں بھی دی گئیں لیکن برطانوی ظلم و جبر آپ کے حوصلوں کو پست نہ کرسکا، ہزاروں حر مجاہدین شہید ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہوئے، جیلوں میں جگہ کم پڑجانے کی وجہ پہلی بار برطانوی حکومت نے نازی اسٹائل پر ڈٹینشن کیمپ بنائے اور تپتی دھوپ میں حُر مجاہدین ان کیمپوں میں کھلے آسمان تلے رکھے جاتے، پیر حزب اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند پیر علی گوہر دوم گدی نشین ہوے اور تمام تر برطانوی آفروں کو ٹھکراتے ہوے جہاد کا اعلان کیا، دن بدن حر تحریک برطانوی راج کے لیے خطرہ بننے لگی، سانگھڑ خیرپور، نواب شاہ، میرپورخاص، تھرپارکر، حیدرآباد کے اضلاع حر تحریک کے گڑھ رہے اور پورے سندھ میں سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی اور تھرپارکر میں بچل خاصخیلی کی زیر قیادت حر جماعت نے آزاد سندھ حکومت قائم کی، آپ کی وفات کے بعد پیر صبغت اللہ شاہ دوم (سورھیہ بادشاہ) نے علم جہاد سنبھالا، یہ حُر تحریک کا چوتھا فیز تھا جس میں انگریز کو اس قدر مزاحمت و نقصان کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ سورھیہ بادشاہ اپنی زندگی کا تقریباً آدھا حصہ جیل میں رہے، سورھیہ بادشاہ نے اپنے مریدوں کو سخت تلقین کرتے ہوے کہا تھا کہ میں رہوں نہ رہوں جہاد جاری رکھا جائے اور وطن یا کفن کا نعرہ لگایا، انگریز سرکار نے سورھیہ بادشاہ کو اپنے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے متعدد بار جاگیر، دولت، عہدوں و اقتدار کی آفر کیں لیکن آپ نے ہر بار دنیاوی عیش و عشرت کو مسترد کردیا، سائیں جی ایم سیّد اور ایّوب کھوڑو متعدد بار پیر صاحب کو رازی کرنے آئے کہ وہ برطانوی راج کو تسلیم کرلیں لیکن ہر بار آپ نے مسترد کرتے ہوے آزادی تک جہاد جاری رکھنے کا پیغام دیا۔
انگریز سرکار نے حُر تحریک کو دبانے کے لیے بہت سے جاگیرداروں وڈیروں کو سر، نواب، خاں، خان صاحب کے خطابات دئیے جو حُر تحریک کے مقابلے میں انگریز سرکار کے وفادار رہے حُروں کی مخبری سے لیکر عوامی سطح پر حُر تحریک کے خلاف پروپیگنڈے کرتے دوسری طرف انگریز سرکار کی مسلح کاروائیاں اور ظلم و جبر نے تاریخ کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے حتیٰ کہ حُر مزاحمت کی شدت کی وجہ سے برطانوی سرکار کو فضائیہ تک کو استعمال کرنا پڑا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی گرفتار ہوگئے تو بجائے حُر تحریک میں کمی واقعہ ہوتی بلکہ اس میں ناقابل یقین حد تک شدّت آگئی، دیکھتے ہی دیکھتے پورا سندھ برطانوی کنٹرول سے باہر ہونے لگا کہ مجبوراً انگریز سرکار کو سندھ اسمبلی کی منظوری کے ساتھ مارشل لاء لگانا پڑا، انگریز سرکار کی وفاداری میں اور سندھ کی آزادی کے مجاہدوں کے خلاف سندھ کے بڑے بڑے نامور خاندان پیش پیش رہے جس کے بدلے انگریز سرکار نے ان کو جاگیروں و خطابات سے نوازا، بہت سے ایسے افراد جن میں اللہ بخش سومرو، علی محمد راشدی، غلام رسول شاہ (غلام حسین ہدایت اللہ) نچل داس، بھیڑو مل، لعل جان ناریجو و دیگر بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کا تذکرہ پھر کسی دن کرونگا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بغیر فیس کے سورھیہ بادشاہ کا مقدمہ لڑنے کے لیے خود کو پیش کیا لیکن انگریز سرکار پہلے سے ہی فیصلہ کرچکی تھی کہ سورھیہ بادشاہ کو راستہ سے ہٹانا ہے، یکطرفہ ٹرائل پر قائداعظم نے احتجاج کیا لیکن کسی نے ایک نہ سنی اور پیرصاحب کو سزائے موت سنادی گئی جس پر سندھ کے سارے سورما مجرمانہ طور پر خاموش رہے اور 20 مارچ 1943 کو عظیم مجاہد اسلام کو شہید کردیا گیا، اس کے بعد بھی جہادی تحریک پورے زور و شور سے جاری رہی، اس تحریک میں برطانوی ریکارڈ کے مطابق 38000 ہزار حُر شہید ہوئے اور ڈھائی لاکھ قید کیے گئے، ایک لاکھ سے زائد جلا وطن کیے گئے، انگریز کو حُر جماعت نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ L.H Lambarck کمشنر سندھ نے اپنی یادداشتوں میں پاگارہ خاندان و رفقا کو دہشتگرد لکھا، انگریز کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے جسد خاکی کو بھی لاپتہ کردیا گیا دوسری طرف خوف کے مارے حُر جماعت کا سلسلہ بند کرنے کے لیے پاگارہ خاندان کو جلا وطن کردیا گیا جسے پہلے پہل تو ڈاکٹر ضیائالدین وائس چانسلر علیگڑھ نے سنبھالا لیکن انگریز کو تسلّی نہ ہوئی اور وہ سورھیہ بادشاہ کے فرزندوں کو لندن لے گئے جسے قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے برطانیہ سے سیٹلمنٹ کرکے شاہ مردان شاہ کی واپسی کو یقینی بناکر 1952 میں پاگارہ گدی کو بحال کیا جس کے ثمرات سے ایک بار پھر حُر جماعت 1965 کی جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ وطن کی حفاظت کی۔ حُر تحریک ایک غیرسیاسی تحریک تھی جس کا مقصد اسلام کی سربلندی اور انگریز سے سندھ کی آزادی تھا لیکن افسوس ہم نے اپنے ہیروز کے ساتھ کیا کیا، 70 کی دہائی میں حُر مجاہدین کو 65 اور 71 کی جنگ میں وطن کی حفاظت کے جرم میں بدترین اذیتیں دیں اور بڑے بڑے نامور حُر مجاہدین کو شہید کیا، دوسری طرف آج تک سندھ کے لیے قربانیاں دینے والے اس خاندان تذکرہ اس سطح پر نہیں کیا گیا جوکہ اس کا حق تھا اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بہت سے ایسے خاندان اقتدار پہ قابض ہوگئے جو برطانوی وفادار تھے وہ بھلا کیونکر اپنے باپ دادا کا اصل چہرہ قوم کے سامنے لاکر اپنے لیے شرمندگی کا باب کھول سکتے تھے اور اگر پاگارہ خاندان کی قربانیوں کی حقیقت عوام تک پہنچ گئی تو بہتوں کے پول کھل جائینگے دوسری طرف سب کی چھٹی ہوجائیگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انگریز سرکار کیونکر چاہے گی کہ اس کے اصل دشمنوں کو ہیرو کے طور پر جانا جائے، ستم ظریفی دیکھیں کہ ہم مسلمان ہوکر بھی اپنے ہیروز کو تسلیم کرنے سے نظریں چراتے ہیں جبکہ بھارت میں ہندو ٹیپو سلطان و سراج الدولہ کو آج بھی اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ سندھ کا ہیرو راجہ داہر ہے یا پیر صاحب پاگارہ یہ فیصلہ سندھ کے عوام پر چھوڑتا ہوں وہ حقائق کی روشنی میں اپنا ہیرو جسے منتخب کرنا چاہیں کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔