میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خوشحالی۔۔۔ خودکشی

خوشحالی۔۔۔ خودکشی

ویب ڈیسک
جمعه, ۲ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

گزشتہ ایک ہفتہ کے اخبارات کا جائز ہ لیا جائے تو بھوک،بدحالی اور افلاس کے مارے خودکشی کرنے والوں کی تعداد دو درجن سے زائد ہے جن میں مردوخواتین سب ہی شامل ہیں ان خودکشی کرنے والوں میں واضح اکثریت کا تعلق اسلام سے تھا۔ اسلام نے خودکشی کو حرام اور دائمی عذاب کا سبب بیان کیا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اللہ کے اس واضح حکم کے باوجود لوگ خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومتی بقراط ملکی ترقی کا ڈھول پیٹتے اور خوشحالی کے ترانے سناتے نہیں تھک رہے۔ سالانہ ترقی کا اشاریہ ان کے مطابق 6 فیصد کے قریب ہے لیکن یہ کیسی ترقی ہے جس کے ثمرات عوام تک منتقل نہیں ہو رہے۔ ملکی 40 فیصد سے زائد آبادی قلت غذائیت کا شکار ہے غذائیت کی یہ قلت انسانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور یوں کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی 40 فیصد آبادی ملکی ترقی میں اپنا وہ کردار ادا کرنے کی قابل نہیں ہے جو اسے کرناچاہیے اور اس کا بنیادی سبب اس کی نااہلی نہیں غذائی قلت کے نتیجہ میں جسمانی صلاحیتوں کا متاثر ہونا ہے ۔
خودکشی کرنے والوں کی خودکشی کی بنیادی وجہ بھوک خصوصاً بچوں کی بھوک ان کی بیماری اور علاج نہ کراسکنے کی شرمندگی اور احساس ندامت، پھر تعلیم اور شعور کی کمی انسان کو ان مشکلات سے نجات کا ایک ہی راستہ دکھاتی ہے اور وہ ہوتا ہے خودکشی کرلینا۔خودکشی کرنے والا تو اپنی جان سے جا کر دنیا اورآخرت کوخراب کرتا ہے لیکن وہ معاشرے کے لیے ایک ایسا سوال چھوڑ جاتا ہے کہ جس کا جواب تلاش کرنا ہر انسان پر لازم ہے کہ انسان ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ایک کا معاملہ دوسرے سے وابستہ ہے ۔
حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ترقی کے جال بچھادیے ہیں اب پاکستان میں ہر طرف ترقی اور خوشحالی ہے ،دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور عوام کے لیے دستیاب وسائل کو استعمال کرنا ایک مسئلہ بن گیا ہے اس کے ساتھ ہی ان حکمرانوں میں امیرالمو¿منین بننے کی خواہش بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ خصوصاً وزیراعظم اپنی تقاریر میں خلفاءراشدین کے دور کا موازانہ اپنے دور سے کرتے ہیں لیکن شاید ان کی تقریر لکھنے والے یا تو تاریخ سے نابلد ہیں یا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور کے تین واقعات میں یہاں بیان کر کے بات آگے بڑھاؤ ں گا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک بدو نے قاضی وقت کی عدالت میں خلیفہ وقت کے خلاف ایک مقدمہ درج کرایا۔ قاضی وقت نے مدعی کے دعویٰ کے بعد خلیفہ وقت کو طلب کیا ۔خلیفہ کسی قانونی اور دستوری سہارے کے قاضی وقت کی عدالت میں پیش ہوئے اور جا کر مدعی کے برابر بیٹھ گئے، خلیفہ وقت اپنے ساتھ اپنے کاتب احکامات کو بھی لے کر گئے تھے جو پچھلی نشستوں پر بیٹھ گیا ۔مدعی نے اپنا معاملہ پیش کیا اور خلیفہ وقت نے معاملے کی وضاحت کی۔ مدعی کا دعویٰ ثابت نہ ہو سکا یوں خلیفہ وقت کے خلاف کارروائی نہ ہوئی ۔جب معاملے کی کارروائی اختتام کو پہنچی تو قاضی وقت نے پوچھا کہ امیرالمو¿منین یہاں آتے وقت اپنے ساتھ کاتب احکامات کو کیوں لائے ہیں تو حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ اگر تم میرے ساتھ مدعی کے برابری والا رویہ برقرار نہ رکھتے تو تمہاری برطرفی کے احکامات لکھوانے تھے کہ جو قاضی خلیفہ وقت کے خلاف فیصلہ نہ کر سکے وہ قاضی وقت رہنے کا مستحق نہیں ۔قاضی وقت بھی صحابی رسول ﷺتھے انہوں نے بھی اپنی مسند کے نیچے سے ایک ڈنڈا نکالا اور کہا کہ اگر آپ مجھ سے کچھ رعایت مانگتے تو وہ رعایت اس ڈنڈے کے ذریعے دی جاتی کہ میرے لیے مدعی اور خلیفہ وقت برابر ہیں یہ ہے انصاف کا وہ معیار جس کے بعد خودکشی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
حضرت عمرفاروقؓ کے دور کا ہی ایک اور واقعہ ہے کہ آپ کے صاحبزادے تجارت کے لیے ملک شام گئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا، واپس آئے تو مال تجارت کے اونٹوں کی ایک بڑی تعداد ہمراہ تھی جب مدینہ میں داخل ہوئے اور خلیفہ وقت کو معلوم ہوا کہ تجارتی قافلہ مدینے میں داخل ہو رہا ہے تو آپ ؓ نے اس کے استقبال کا فیصلہ کیا، جب آپ ؓ قافلہ کے استقبال کو پہنچے تو دیکھا کہ سالار قافلہ ان کا بیٹا ہے، بیٹے سے پوچھا کہ یہ اسباب کس طرح سے ملا، جو اسباب لیکر تجارت کے لیے گئے تھے اس میں سے اس قدر بھاری بھرکم اسباب تجارت جمع کرنا ممکن نہیں۔ بیٹے نے بتایا کہ شام میں چچا جان گورنر ہیں ان سے بیت المال میں سے قرض لیا اور اس قرض سے وہاں تجارت کی جس کے نفع سے یہ اسباب خریدا ۔حضرت عمر فاروق ؓ نے فوراً کاتب احکامات کو طلب کیا اور شام کے گورنر کو معطل کر کے واپسی کے احکامات صادر فرمائے۔ معطل گورنر احکامات ملتے ہی مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور کچھ ہی عرصہ میں مدینہ پہنچ کر امیرالمو¿منین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معطلی کی وجہ جاننا چاہی۔ آپ نے کہا بیٹھو پھر صحابہ کو جمع کیا اور جب صحابہ جمع ہوگئے تو انتہائی درشت لہجہ میں شام کے گورنر، جو کہ بھائی بھی تھے، سے سوال کیا کہ شام کے بیت المال میں اتنی رقم ہے کہ جتنی رقم تم نے میرے بیٹے کو قرض کے طور پر دی۔ اتنی ہی رقم شام کے ہر نوجوان کو کاروبار کے لیے دی جاسکتی ہے جواب نفی میں تھا ۔آپ نے شدید برہمی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقرباپروری ہے اور قومیں اقرباپروری کے نتیجہ میں ہی تباہ ہوتی ہیں۔ جب ہر فرد کو قرض دینے کی رقم نہ تھی تو بھتیجے کو یہ رقم کیوں ادا کی گئی۔ بھائی نے ڈرتے ہوئے عرض کیا کہ اس نے قرض کی رقم بیت المال میں واپس جمع کرا دی ہے لیکن خلیفہ کا غصہ برقرار تھا کہ قرض واپس کرنا اس کا فرض تھا لیکن بلااستحقاق قرض دینا تمہاری کوتاہی ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ اب یہ اونی کرتا پہنو اور اونٹوں کی نگہبانی کرو، تم اس قابل نہیں کہ تمہیں گورنر کے منصب پر برقرار رکھا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمر فاروقؓ نے فرزند ارجمند کے تمام اسباب تجارت کو ضبط کیا اور بیت المال میں جمع کرا دیا کہ یہ سب کچھ اس بیت المال ہی کے رقم کا بدل تھا جو مسلمانوں کا حق ہے اور بیٹے کو بھی کہا کہ جاو¿ اب اسی چچا کے ساتھ اونٹ چراو¿ تاکہ تمہیں معلوم ہو سکے کہ مسلمانوں میں اقرباپروری ممکن نہیں ۔
جب حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ وقت مقرر ہوئے تو اس وقت تک آپ انتہائی نفیس طبیعت کے مالک اور نفیس لباس اور اچھی خوشبو کا شوق رکھا کرتے تھے۔ جب آپ خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ ؓ کا وظیفہ بھی مقرر کیا گیا کہ اب خلیفہ وقت اپنی تجارت نہیں کر سکتے تھے، اگر آپؓ تجارت جاری رکھتے تو خریداروں کا رجوع دیگر دکانداروں کے مقابلے میں آپ کی طرف زیادہ ہوتا کہ اس طرح خلیفہ وقت سے مراسم بڑھائے جا سکیں اور پھر کچھ فوائد بھی سمیٹے جا سکیں کہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ صاحب اقتدار واختیار کی قربت کا خواہش مند رہتا ہے۔ آپؓ نے پہلا کام ہی یہ کیا کہ اپنی تجارت کو خیرباد کہا اور وظیفہ گزر کو ترجیح دی۔ نگران بیت المال نے آپؓ کی نفاست طبع کو دیکھتے ہوئے آپؓ کاوظیفہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے وظیفہ سے بڑھا کر مقرر کرنے کا حکم نامہ آپ ؓکے دستخط کے لیے آپ ؓ کے سامنے رکھا، حضرت عمرفاروقؓ نے نگران بیت المال سے پوچھا کہ کیامدینہ کے ہر محنت کش کو یہی معاوضہ ملتا ہے، نگران بیت المال نے بتایا کہ نہیں اس کا معاوضہ اس سے کم ہے ،آپؓ نے پھر سوال کیا کہ کتنا فرق ہے؟ نگران بیت المال نے فرق بتایا تو آپؓ نے پوچھا کہ کیا بیت المال کی کیفیت محنت کشوں کے وظیفہ میں اضافہ کی اجازت دیتی ہے، بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے تو آپ ؓ نے اپنے قلم سے اپنا وظیفہ کم کرتے ہوئے وہی رقم وظیفہ کے طور پر مقرر کی جو مدینہ کے ایک محنت کش کو ملتی تھی۔
حضرت عمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر نیل کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمرفاروقؓ یوم حشر اس کا جوابدہ ہو گا اور اس وقت تک بارگاہ الہیٰ سے نہ ہٹ سکے گا جب تک اس کا جواب نہ دے لے ۔آج صورتحال یہ ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ کو اپنا آئیڈیل قرار دینے والے آپ ؓ کے نقش پا پر چلنا تو بہت دور کی بات اس کے قریب بھی نہیں پہنچنا چاہتے، بس زبانی دعویٰ ہیں اور خلیفہ بننے کا خواب ورنہ صورتحال تو یہ ہے کہ ایک جانب غریب محنت کش جو وہ موسم کی شدت برداشت کرتے ہوئے محنت کرتا ہے اور جس کا معاوضہ یہ تنخواہ ہوتی ہے وہ بھی 15 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے جس میں اس نے بیوی ،بچوں کا پالنا بھی ہے ان کی” تعلیم ،علاج معالجہ “ اور دیگر سہولیات شامل ہیں، فراہم کرنا ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ کے ارکان جو چند دن ٹھنڈے کمرو ں میں بیٹھ کر ایوان کی کارروائی کا حصہ بنتے ہیں یا پھر ایک تحریری درخواست دے کر رخصت لے لیتے ہیں جن کے علاج معالجہ ،بچوں کی تعلیم وتربیت ،آمدورفت،گیس وبجلی کے بل سب بذمہ سرکار ہوتے ہیں یا ان کی ادائیگی کی جاتی ہے، ان کی تنخواہ کم از کم ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے ہے ۔وزراء،وزراءاعلیٰ،وزیراعظم اور صدر مملکت کا کہنا ہی کیا۔ ایوان وزیراعظم کا خرچ اربوں میں ،صرف وزیراعظم کی تفریح کے لیے ایوان وزیراعظم میں موجود لان کا خرچ کروڑوں میں ہے، صدر مملکت کی تنخواہ میں صرف 6 لاکھ روپے ماہانہ کو اضافہ ہوا ہے دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں ۔صدر مملکت کی تنخواہ میں ہونے والا یومیہ اضافہ 20 ہزار روپے بنتا ہے جو ایک محنت کش کے مہینے بھر کی تنخواہ سے 33 فیصد زائد ہے محنت کش نے اس بھاری بھرکم تنخواہ میں اپنے تمام اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں اور صدر مملکت کے تمام اخراجات قوم کے ذمہ ہےں کہ وہ پوری قوم کے ماموں ہیںاور اردو زبان کی کہاوت ہے کہ ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف اور جورو کا بھائی بچوں کا ماموں ہوتا ہے اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں صدر مملکت ہمارے ماموں جو ہوئے ۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں