میٹھی عید اورکڑوی ،کسیلی سیاست
شیئر کریں
ہماری پچھلی چار عیدیں کورونا وبا کے خوف ناک سائے میں تین فٹ کا سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی شرط کو پورا کرتے کرتے، ایک دوسرے سے دُور دُور اور کھنچے کھنچے رہنے میں گزر گئی تھیں ۔اَب جبکہ کورونا وائرس کا زور ٹوٹ چکا ہے اور ایک دوسرے سے سماجی رابطہ برقرار کرنے کی حکومتی پابندیاں بھی معطل ہوچکی ہیں ۔ لہٰذا ہمارا وہی روایتی ’’میٹھی عید ‘‘ کا تہوار واپس آچکا ہے ،جس میں ہمیں دوست احباب کے ساتھ مصافحے اور معانقے کرنے کی مکمل آزادی ہی نہیں بلکہ من پسند تفریح گاہوں اور میلے ٹھیلوں میں جانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی وطن عزیز پاکستان میں کسی کو بھی کہیں بھی میٹھی عید آنے کی فیلنگ محسوس نہیں ہورہی ہے کیونکہ من حیث القوم گزشتہ ایک ماہ سے ہم جس طرح کے سیاسی خوف اور اندیشوں میں مبتلا ہیں ،وہ ماضی کی مہلک عالمگیر کورونا وبا کے ڈر سے بھی ہزار گنا زیادہ ہے اور وہ جاں لیوا خوف یہ ہے کہ نہ جانے عید الفطر یا عید کے فوراً بعد ہمارے ملک کے سیاسی حالات کیا سے کیا ہوجائیں ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اِس بار ملک بھر میں سیاسی کشیدگی ہی نہیں بلکہ سماجی کشیدگی بھی انتہائی عروج پر ہے اور پاکستانی سیاست کے جھگڑے ایوانِ اقتدار سے نکل کر گلی ،محلے اور عام لوگوں کے گھروں تک جاپہنچے ہیں ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل ہماری ہر نجی محفل کا موضوع سخن صرف اور صرف سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور نئی امپورٹڈ حکومت کا قیام بن کر رہ گیا ہے۔ بات اگر صرف زبانی کلامی، بحث و مباحثہ تک ہی محدود رہتی تو پھر بھی ٹھیک تھا ،لیکن یہاں تو سیاسی اختلافات قریبی دوستوں اور رشتہ داروں میں رنجش اور جھگڑے کا باعث بننے لگے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے معاملہ مسجد نبوی ﷺ اور خانہ خدا میں وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کے وزراء کے خلاف ’’چور چور‘‘کے نعروں سے شروع ہوا تھا تو اس سنگین معاملہ کا اختتام کہسار اسلام آباد میں سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر جان لیوا حملے پر ہوا۔ یعنی سیاست دان اَب چاہے اُن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو، عوامی مقامات پر اپنی عوام کے درمیان سخت خطرے میں ہیں ۔
بلاشبہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و ناموس کے معاملے میں ادھر ادھر،یہاں وہاں اور اگر مگر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وزیراعظم شہباز شریف اور اُن وزراء کے خلاف ’’چور چور ‘‘ کے نعرے مسجد نبوی کے اندر لگے یا باہراس عمل کی تحسین تو کسی بھی صورت کی ہی نہیں جاسکتی البتہ جو لوگ مذمت کر رہے ہیں اُن کی خدمت میں دو سوال ہیں۔ اول: اگر یہ نعرے ’’شہباز شریف چور چور ‘‘کے بجائے ’’شہباز شریف زندہ باد‘‘کے ہوتے تو کیا پھر بھی آپ کا ردعمل یہی ہوتا؟۔ یاد رہے کہ بے ادب کا تعلق مسجد نبوی ﷺ اور خانہ خدا میں اونچی آواز سے ہے نعروں کی نوعیت سے نہیں۔دوم ، اگر یہ نعرے شہباز شریف کے بجائے انکے کسی سیاسی مخالف عمران خان کے خلاف لگتے تو کیا تب بھی آپ کاردعمل یہی ہوتا؟۔واضح رہے کہ ماضی میں ایک سیاسی خاتون ایسے عمل کی خوب دل کھول کر تحسین بھی کرچکی ہیں۔اگرآپ صرف ایک منٹ کے لیے اپنی تمام تر سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ان دو سوالوں کے جوابات خود سے پوچھیں ۔اگر تو آپ کا دل ’’ ہاں ‘‘ میں جواب دے تو آپ کو ایمان کی سلامتی مبارک ہو۔اور اگر ان سوالوں کے جواب میں دل اگر مگر یا حیلے بہانے تلاش کرے تو پھر معذرت کے ساتھ اپنے ایمان کی فکر کیجئے کیونکہ آپ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت سے ذیادہ اپنے نام نہاد سیاسی رہنماؤں کی حرمت زیادہ عزیز ہے اور اسی طرزِ عمل کو شخصیت پرستی کے سوا اورکہا بھی کیاجاسکتاہے۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ پاکستانی سیاست پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ’’شخصیت پرستی ‘‘ کا ملمع چڑھتا جارہا ہے ۔جس طرح ماضی میں بھٹو ازم یا’’ زندہ ہے بھٹو ‘‘سیاسی شخصیت پرستی کا بڑا سیاسی استعارا تھا تو آج کل عمران خان کی شخصیت مرجع خلائق کے عظیم الشان درجہ پر فائز ہوچکی ہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں عمران خان کی مقبولیت اُس بلند مقام تک پہنچ چکی ہے کہ جہاں ملک کی دیگر تمام جماعتوں کے رہنما مل کر بھی پہنچنے سے قاصر ہیں ۔ حالانکہ چند ماہ پہلے تک معاملہ بالکل اُلٹ تھا اور عمران خان وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی تیزی سے اپنی عوامی مقبولیت کھوتے جارہے تھے ۔ لیکن پھر امریکا سے آنے والے دھمکی آمیز مراسلے کی’’سیاسی برکت‘‘ سے متحدہ اپوزیشن نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم پیش کرکے اُن کی حکومت کو گرادیا۔ عجلت پسندی میں کیے گئے اِس ایک قدام نے پاکستانی عوام کی نظر میں رات بھر میں متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو’’زیرو‘‘ اور عمران خان کو ’’ہیرو‘‘ بنادیا ہے۔ یہاں کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے اپنی فطری سادہ لوحی کے باعث عمران خان کو دیوتا یا ہیرو کا درجہ دے دیا ہے ۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا پاکستانی سیاست میں ہیرو کا یہ غیر معمولی منصب عمران خان نے اپنی ذاتی سیاست یا صلاحیت سے حاصل کیا ہے یا پھر متحدہ اپوزیشن کے بے وقوفی کے باعث ؟۔ یقینا اپوزیشن جماعتیں اگر عمران خان کی حکومت کو مزید ایک سال تک چلنے دیتیں اور اُسے تھوڑے عرصہ مزید صبر و تحمل سے برداشت کرلیتیں تو اگلے انتخابات میں اُن کے لیے راستہ بالکل صاف تھا اور پاکستان تحریک انصاف کو 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں شاید آدھی نشستیں بھی نہ ملتیں ۔ مگر اَب عوام کی ساری محبت کا مرکز و محور عمران خان بن چکے ہیں جبکہ خلق خدا کی تمام تر نفرت کا سزاوار اپوزیشن رہنماقرار پاچکے ہیں ۔ اس مخدوش سیاسی صورت حال سے نکلنے کا واحد حل عیدالفطر کے فوراً بعد تحریک انصاف اور امپورٹڈ حکومت کے درمیان محاذ آرائی کو ہوا دینا نہیں بلکہ ملک میں فوری انتخابات کا اعلان ہے ۔ کیونکہ نئے قومی انتخابات میں جتنی تاخیر ہوتی جائے گی ،اُتنا ہی سیاست پر نفرت کا سیاہ رنگ غالب آتا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔