ڈان لیکس پر متفقہ رپورٹ میں ردوبدل سوالیہ نشان ۔۔!!
شیئر کریں
رپورٹ وزیراعظم کو پیش کیے جانے سے پہلے ہی اس کے کچھ مندرجات لیک ہو کر میڈیا تک کیسے پہنچنا شروع ہو گئے، ناقدین
اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ من وعن پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر جاری کرکے عوام کے روبرو پیش کردی جائے
جمال احمد
وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں گزشتہ روز ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سمیت اہم امور پر تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، حمزہ شہباز اورفواد حسن فواد نے شرکت کی۔ اجلاس میں ڈان لیکس پر حکومت کی انکوائری رپورٹ اور پاک فوج کی جانب سے رپورٹ مسترد کیے جانے سمیت ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ اجلاس میں ڈان لیکس رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو خوش اسلوبی سے حل کرنے پر بھی غورکیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں ڈان لیکس کے معاملے پر پاک فوج کے تحفظات دور کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
ڈھائی گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں عمران خان کی جانب سے 10ارب روپے کی آفر کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے عدالت جانے کے حوالے سے بھی معاملات زیر غور آئے جب کہ اجلاس میں ملک بھر میں سی پیک کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں، نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خاتمے پر بھی غور کیا گیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے پرسنل سیکرٹری فواد حسن فواد کی جانب سے ڈان لیکس کے حکومتی نوٹی فکیشن کو پاک فوج نے ٹویٹر پیغام کے ذریعے مسترد کر دیا تھا جب کہ وزیر داخلہ نے ٹویٹر کے ذریعے اداروں کے درمیان روابط کو جمہوریت کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد پیداہونے والی صورتحال پر اپنے رفقا سے تفصیلی صلاح ومشورے کے بعداس حوالے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کوافہام وتفہیم کے ساتھ دور کرنے اور متفقہ رپورٹ پر پوری طرح عملدرآمد کرنے کافیصلہ کیا ہے ،تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ عمران خان کی جانب سے 10ارب روپے رشوت کی پیشکش کے جواب میںکیا منصوبہ بندی کی گئی، عمران خان کو عدالت میں بلانے کے حوالے سے اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے کے بارے میں ابھی تک کچھ سامنے نہیں آسکاہے ۔واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے ڈان لیکس سے متعلق رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اس کی سفارشات کی روشنی میں اپنے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی کو ان کے منصب سے برطرف اور پرنسپل انفارمیشن افسر راﺅ تحسین کیخلاف ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن رولز مجریہ 1973ءکے تحت محکمانہ کارروائی کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم کے ایما پر ان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے گزشتہ روزباقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا جس میں بتایاگیا تھا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے پیرا 18 میں موجود سفارشات کی منظوری دی ہے اور اس کے تحت روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر مظہرعباس اور رپورٹر سرل المائڈہ کیخلاف انضباطی کارروائی کا معاملہ اے پی این ایس کو بھجوایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اے پی این ایس سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی سے متعلقہ مواد کی تشہیر ادارتی و صحافتی اخلاقیات سے ہم آہنگ کی جائے اور اس بارے میں پرنٹ میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے۔ سید طارق فاطمی سے امور خارجہ کی ذمہ داری واپس لینے کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی جانب سے متذکرہ نوٹیفکیشن کے اجرا کے کچھ ہی لمحے بعد پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنا ایک میسج ٹویٹ کیا تھا جس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ نوٹیفکیشن انکوائری کمیٹی کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے اور نامکمل ہے اس لیے پاک فوج اس نوٹیفکیشن کو مسترد کرتی ہے۔ انگریزی اخبار ڈان میں شائع کی گئی سرل المائڈہ کی خصوصی رپورٹ میں وزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی سے متعلق منعقد ہونیوالے ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی اندرونی کہانی افشا کی گئی تھی ‘ ڈان میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں اس اجلاس، جس میں وفاقی کابینہ کے ارکان اور معاونین خصوصی کے علاوہ آرمی چیف اور عسکری اداروں کے دوسرے سربراہان بھی شریک تھے‘ دہشت گردوں کیخلاف جاری سیکورٹی فورسز کے آپریشن سے متعلق سول اور عسکری قیادتوں کے مابین مبینہ طور پر ہونیوالی تلخ گفتگو کے مندرجات دیے گئے تھے جس کا اس وقت کی عسکری قیادت کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا تھا،جس پر وزیراعظم نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیاتھاکہ اعلیٰ سطح کے خفیہ اجلاس میں ہونیوالی گفتگو کیسے لیک ہو گئی‘ جسٹس (ر) عامر رضا اے خان کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور اطلاعات کے مطابق اس میں پاک فوج کے اداروں کو بھی مو¿ثر نمائندگی دی گئی جبکہ وزیراعظم نے اس انکوائری کمیٹی کی کارروائی کے آغاز ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو ان کے منصب سے ہٹا دیا تھا۔ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پیر 24 اپریل کو وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے وزیراعظم کو پیش کی گئی جو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کے بقول انکوائری کمیٹی کے تمام ارکان کے اتفاق رائے سے مرتب کی گئی تھی۔
اب یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کیے جانے سے پہلے ہی اس کے کچھ مندرجات لیک ہو کر میڈیا تک کیسے پہنچنا شروع ہو گئے اور یہ بات سامنے آچکی تھی کہ پہلے ہی طارق فاطمی اور راﺅ تحسین کو قربانی کابکرا بنا کر ان کے مناصب سے فارغ کرنے کی باتیں منظرعام پر آنا شروع ہو گئی تھیں جس پر اس وقت پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے کسی قسم کا کوئی پیغام ٹویٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیںکی گئی جبکہ اب وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے وزیراعظم کے ایما پر نوٹیفکیشن کے اجرا کے ایک گھنٹے بعد ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے تین سطور پر مبنی ایک ٹویٹر میسج بریکنگ نیوز کے انداز میں سوشل میڈیا پر جاری کیا گیاہے۔ اس پیغام میں جس سخت لب و لہجے کے ساتھ انکوائری رپورٹ پر وزیراعظم کی جانب سے کی گئی کارروائی کو انکوائری رپورٹ کے مطابق نہ ہونے کا کہہ کر مسترد کرنے کی بات کی گئی‘ وفاقی حکومت کے کسی ماتحت ادارے کی جانب سے وزیر اعظم کی منظوری سے جاری کی جانے والی رپورٹ پراس طرح عدم اعتماد کا اظہار اور اسے مسترد کیاجانا وزیر اعظم کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہے ۔
حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیاجاتارہاہے کہ ڈان لیکس کے ایشو پر وزیراعظم کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی میں عسکری قیادتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ہی پاک فوج کے اداروں کو مو¿ثر نمائندگی دی گئی تھی تاکہ اس ایشو پر صحیح معنوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ انکوائری کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے جو رپورٹ مرتب کی اس کے بارے میں وفاقی وزیر داخلہ نے خود اعلان کیا کہ یہ کمیٹی کے تمام ارکان کے اتفاق رائے سے مرتب ہوئی ہے اور پاک فوج کے ترجمان کے ٹویٹر پیغام سے بھی بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ پاک فوج کو متذکرہ رپورٹ پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اس رپورٹ میں درج سفارشات کی روشنی میں ہی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔اس صورت میں اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے متعلقہ نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تو اس سے یقیناً یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ رپورٹ کے مندرجات کچھ اور ہیں جس سے خود نواز شریف کی جانب سے اپنے بعض رفقا کوبچانے کے لیے رپورٹ میں ردوبدل کیے جانے کاتاثر پیداہوتاہے اور کسی منتخب وزیر اعظم کے بارے میں اس طرح کاتاثر کسی بھی حال میں مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
اب یہاں یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ اگر عسکری قیادتوں کو متذکرہ نوٹیفکیشن پر کسی قسم کا اعتراض تھا تو ان کی جانب سے متعلقہ حکومتی اداروں سے رابطہ کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جا ناچاہیے تھا مگر ٹویٹ میں نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کا اعلان کر نا یا نوٹی فیکشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیے جانے سے حکومت کے ایک اہم ادارے کے درمیان موجود عدم اعتماد کی سنگین صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ۔اس صورت حال کا تقاضہ ہے کہ وزیر اعظم اگر خود انکوائری رپورٹ میں ردوبدل میں ملوث نہیں ہیں تو اس میں ردوبدل کرکے حکومت کے دو اہم ستونوں کے درمیان عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرنے والے افسران اور عناصر کا پتہ چلا کرمتعلقہ شخصیت کو فوری طورپربرطرف کردیں یا اپنے آئینی اختیارات کے استعمال میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے خود اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ من وعن جاری کرکے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور پارلیمنٹ کے ذریعے پبلک کے روبرو پیش کردی جائے تاکہ قوم کو علم ہوسکے کہ آیا انکوائری رپورٹ اور اس کی روشنی میں جاری کیے گئے حکومتی نوٹیفکیشن میں کسی قسم کا تضاد ہے یا نہیں۔ جہاں تک حکومتی نوٹیفکیشن میں ڈان لیکس کے حوالے سے اس اخبار کے ایڈیٹر اور رپورٹر کیخلاف انضباطی کارروائی کا معاملہ اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس کو بھجوانے اور اس ادارے سے قومی سلامتی سے متعلق مواد کی تشہیر ایک ضابطہ اخلاق کے ذریعے ادارتی و صحافتی اخلاقیات سے ہم آہنگ کرنے کے تقاضے کا تعلق ہے تو اس بارے میں حکومت کو علم و ادراک ہونا چاہیے کہ اے پی این ایس کی حیثیت محض ایک کلیئرنگ باڈی کی ہے جبکہ خبر یا کسی دوسرے مواد کی اشاعت کے معاملہ میں ہر اخبار کا اپنا اپنا ضابطہ اخلاق ہے جس کے مطابق اس کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور آزادی صحافت کے تقاضوں کے تحت کوئی حکومتی فیصلہ کسی اخباری ادارے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ طے شدہ امر ہے کہ ہمارا قومی میڈیا ملکی اور قومی مفادات کے معاملہ میں اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ ہے اس لیے ضابطہ اخلاق کے معاملہ میں کسی کی جانب سے میڈیا کو ڈکٹیشن دینے کی قطعاً ضرورت نہیں۔