گستاخی کی سزاموت
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
خروشچیف جب سوویت یونین کا صدربناتوانہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں اسٹالن اوراس کی پالیسیوں پرتنقید شروع کردی۔ان کاکہناتھاکہ اسٹالن میں برداشت نہیں تھی،وہ ایک آمرتھا،ظالم تھا،اختلاف کرنیوالے ساتھیوں تک کودشمن سمجھ لیتاتھا۔اس کے خوشحالی اورمعاشی استحکام کے دعوے بھی جھوٹے تھے اورسوویت یونین کوجتنانقصان اسٹالن نے پہنچایا،اتنا ساراسرمایہ داردنیامل کرنہیں پہنچاسکی۔خروشچیف جب ان خیالات کااظہارکررہاتھاتومعززارکان میں سے کسی نے چٹ پرکچھ لکھااوران تک پہنچادیا۔ خروشچیف نے ایک لمحے کیلئے رک کرچٹ پڑھی،لکھاتھا”آپ کواسٹالن کے قریب رہنے کاموقع ملا، جب وہ سوویت یونین کونقصان پہنچارہاتھاتوآپ نے اس کوروکاکیوں نہیں”؟ خروشچیف کاچہرہ سرخ ہوگیا،اس نے وہ چٹ ایوان کی طرف لہرائی اورسخت غصے میں چیخا”یہ کس گستاخ نے لکھا”؟ایوان میں پن ڈراپ سائی لینس ہوگیا۔تمام ارکان بغلیں جھانکنے لگے،خروشچیف دوبارہ چلایا”میں پوچھ رہاہوں یہ کس گستاخ نے لکھاہے”؟ایوان میں خاموشی رہی توخروشچیف نے قہقہہ لگایا،چٹ پھاڑی اوراس کے پرزے ہوامیں اچھال کربولا”جب اسٹالن سوویت یونین کونقصان پہنچارہاتھا توہم بھی اس وقت ایسی ہی چٹیں لکھاکرتے تھے اورخاموش رہتے تھے”۔
یہ اقتدارکی ٹریجڈی ہے،شاہوں کی قربت میں بڑے سے بڑاعالم ،بڑے سے بڑا فلاسفر،بڑے سے بڑا دانشورجب حلقہ بگوش شاہ ہو جاتا ہے توپھروہ اختلاف کی طاقت کھوبیٹھتا ہے۔بادشاہوں کی صحبت میں توکلمہ حق کہنے کیلئے بھی شاہ کی اجازت درکار ہوتی ہے، لہذاب تک اقتدارکاسورج سوانیزے پررہتاہے،بڑے سے بڑاحق گوبھی فقط چٹیں لکھنے اورجلالِ شاہی کے وقت سر جھکاکرچپ چاپ بیٹھے رہنے پراکتفاکرتاہے،کیونکہ وہ جانتاہے اِس وقت سراٹھانے کی جرأت کی توجان سے جاں گا،اگرجان بچ گئی توقربت ِشاہی سے ضرور ہاتھ دھوناپڑیں گے اورظاہرہے ایوانِ اقتدارسے باہرکھڑے سیاستدانوں اوردریاکے خشک کناروں پرپڑی مچھلیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔قربت ِشاہی میں زندگی بسر کرنے والے لوگ اس ماحول اوراس ماحول کے پروٹوکول سے اتنے آشناہوتے ہیں کہ اگرکبھی بادشاہ سلامت انہیں خودبھی اختلاف کاحق عنایت کردیں توبھی وہ چٹ لکھنے تک ہی محدود رہتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اختلاف کایہ حق کسی وقت بھی گستاخی میں تبدیل ہوسکتاہے اوراقتدارکے ایوانوں میں گستاخی کی سزاموت ہوتی ہے،جسمانی یاسیاسی موت!
وہ کہتے ہیں ڈاکوں کے کسی سردارنے ڈاکے کاایک منصوبہ بنایا،اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھااورآخرمیں پوچھا،کسی کو اعتراض ہو تو کھڑا ہو جائے،میں بڑالبرل سردارہوں،میں اختلافِ رائے کوہمیشہ پسندکرتاہوں۔سردارکااعلان سن کرایک نوجوان ڈاکوکھڑاہوااورجرأت سے بولا”یہ ایک بالکل خام منصوبہ ہے”۔ سردارنے جیب سے اپناپستول نکالا، نوجوان ڈاکوکے سرکانشانہ لیااورساری گولیاں اس کے بھیجے میں اتاردیں،نوجوان پیچھے کی طرف گرا،سردارنے پستول کی نالی میں پھونک ماری اور پسینہ پونچھتے ہوئے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر بولا ”کسی اورکواعتراض ہوتووہ بھی کھڑاہوجائے”۔
یوں توجسٹس منیراورناظم الدین کے نام سنتے ہی پاکستانی عدلیہ کے موجودہ تنازع تک کاسفرقوم کیلئے کسی بھی تعجب کاباعث نہیں بلکہ مشرف جیسے ڈکٹیٹرکے ہاتھوں ڈوگرکورٹ کو ”گوبرکورٹ” قراردیکرقوم نے مستردکردیاتھا۔جسٹس افتخارکے ساتھ یکجہتی کا وکلا تنظیموں اورقوم نے جس دلیری کے ساتھ جوتاریخ سازمظاہرہ کیا،اورچوہدری افتخاراوران کے ساتھیوں نے جوقوم کو سہانے خواب دکھائے،اس کے بعدقوم اس خوش فہمی میں مبتلاہوگئی تھی کہ اگرخلفائے راشدین کانہیں تویقیناعمربن عبدالعزیزکا دور دیکھنے کو ملے گالیکن”اے بساآرزوکہ خاک شدہ”خودچوہدری افتخارکے بیٹے اوردامادکے ہاتھوں ہی قوم کی ان تمام خواہشات کابڑی دھوم دھام سے جنازہ پڑھاگیا۔رہی سہی کسرپاناماکیس میں نکل گئی اور ابھی اس ندامت سے نجات نہیں ملی تھی کہ ثاقب نثار”بابارحمتے” کا نقاب پہن کراسی عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے چلے گئے اوراپنے بھائی کے ہم آوازبن کرملک کے ایک آرٹ ہسپتال کابیڑہ غرق کرکے بیرون ملک سے وطن کی محبت میں سرشارڈاکٹروں کاراستہ ہمیشہ کیلئے مسدودکرکے چلے گئے اورآج تک کسی کوتوفیق نہ ملی کہ ان تمام ججزکوعدالت میں کٹہرے میں کھڑاکرکے ان سے ملک کی بربادی کاحساب لیاجاتابلکہ اب بھی لاکھوں روپے کی ماہانہ مراعات کے ساتھ مزے لوٹ لے رہے ہیں۔خودقاضی فائزعیسیٰ کاسارامعاملہ بھی قوم کے سامنے ہے لیکن شوکت صدیقی کی ثابت قدمی کے ساتھ بھی تویہ سلوک اسی عدالت نے کیاجس عدالت نے برسوں بعدسپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کوتسلیم کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹوکوپھانسی کی سزادینے کے فیصلے میں ججزپر دباؤ کو تسلیم کیا۔اسی طرح سابق چیف جسٹس عطابندیال اوران کے خاندان کی خواتین کابھی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ میڈیامیں جو چرچا رہا، اس سے بھی قوم واقف ہے کہ قوم کے فیصلے عدالتوں کی بجائے گھرکی خواتین کی مرضی سے انجام پانے لگے۔
پاکستان میں عدالتی امورمیں بیرونی مداخلت کی تاریخ نئی نہیں ہے۔شوکت عزیزصدیقی کی حال ہی میں بحالی کے فیصلے کو نظیر بنا کر اسلام آبادہائیکورٹ کے چھ ججزنے آئی ایس آئی کے دباؤسے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کوتفصیلی خط لکھا،جس کے ذریعے آئی ایس آئی سمیت انٹیلی جنس ایجنسیوں اورانتظامیہ کی عدالتی امورمیں مداخلت سے متعلق تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواست کرتے ہوئے جوڈیشنل کونسل کااجلاس طلب کرنے کوکہاہے۔ججوں کی جانب سے تحریرکردہ اس خط میں عدالتی امورمیں آئی ایس آئی اوردیگر انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اورججوں کوہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اس خط نے ایک ایسی بحث کوجنم دیا ہے کہ عدالتوں کے متنازع فیصلے کسی حدتک بیرونی یااسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت سنائے جاتے ہیں۔
اس خط کے منظرعام پرآنے کے بعدپاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کافل کورٹ اجلاس بھی منعقد ہوا، جس کے بعدہنگامی طورپرجمعرات کو وزیراعظم شہبازشریف اپنے وزیرقانون کے ہمراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے سپریم کورٹ میں ملاقات کیلئے پہنچ گئے جہاں اس معاملے کی مزیدتحقیقات کااعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت پر قابو پانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ اس چائے کی پیالی میں آنے والے طوفان کاانجام کیاہوتاہے۔
حالیہ تاریخ میں سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کی بیٹی اوراس وقت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے خلاف پانامہ کیس سے متعلق جسٹس ریٹائرڈشوکت عزیزصدیقی کے آئی ایس آئی پرمداخلت کے الزامات ہوں یا”واٹس ایپ”کے ذریعے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی خبریں،ٹرائل کورٹ کے جج سے ملاقات کرکے کیمروں کی نظرمیں آنے والے ایک”کرنل صاحب”ہوں یا پھرخودچیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس یہ سب وہ واقعات ہیں جن سے عدالتی امورمیں غیر ضروری مداخلت کی بحث کوجنم دیا ہے جس میں نچلی عدالتوں اوراسلام آبادہائی کورٹ کے ججزپردباؤکے بارے میں چندواقعات کاذکر شامل کیاگیاہے۔اس خط میں نچلی عدالت کے ایک جج کی شکایت کابھی قصہ شامل ہے جس نے اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے آئی ایس آئی اہلکاروں کی شکایت لگائی اورپھربعدمیں اس سیشن جج کواوسی ڈی بنادیاگیا۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیاملک کی دیگرہائیکورٹ کے ججزکوبھی اس صورتحال کا سامنا ہے۔ ججز کے کوڈآف کنڈکٹ میں رہنمائی نہیں دی گئی ہے کہ ایسی صورتحال میں ججزکاکیاردعمل ہو؟اوراس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں کہ ججزاس طرح کی مداخلت کوکیسے ثابت کریں۔
ججزکامطالبہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے ادارہ جاتی”رسپانس”کی ضرورت ہے۔گزشتہ برس10مئی2023کو بھی ہائیکورٹ ججز نے چیف جسٹس کوخط لکھاتھاکہ آئی ایس آئی والوں کی مداخلت پرتوہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔اس خط میں اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کوانٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر11اکتوبر 2018 کوعہدے سے برطرف کیے جانے کابھی حوالہ دیاگیاتھا اوراب سپریم کورٹ نے22مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کوغلط قرار دیااورانہیں ریٹائرڈجج کہتے ہوئے شوکت صدیقی پرعائدکردہ الزامات کی تحقیقات کرانے کی مکمل حمائت کااعادہ کیا۔۔خط میں پوچھاگیاکہ عدلیہ کی آزادی کو”انڈرمائن”کرنے والے کون تھے؟اوران کی معاونت کس نے کی؟سب کوجوابدہ کیاجائے تاکہ یہ عمل دہرایانہ جاسکے۔اس کے علاوہ ججزکے کوڈآف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کوکیسے رپورٹ کریں۔خط میں مطالبہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کادائرہ وسیع ہوناچاہیے کہ کہیں اب بھی تواس طرح کی مداخلت جاری نہیں؟کہیں کیسزکی سماعت کیلئے مارکنگ اوربینچزکی تشکیل میں اب بھی تومداخلت جاری نہیں؟یہ بھی انکوائری ہونی چاہیے کہ کیاسیاسی کیسزمیں عدالتی کارروائی پراثراندازہوناریاستی پالیسی تونہیں؟کہیں انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے ججزکودھمکا کر اس پالیسی کانفاذتونہیں کیاجارہاہے؟
اس خط میں کہاگیاہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوزنے پٹیشن ناقابل سماعت قراردینے والے ججزپردوستوں،رشتہ داروں کے ذریعے دباؤڈالااورجج شدیدذہنی دباؤکے باعث ہائی بلڈپریشرکاشکارہوکرہسپتال داخل ہوئے اوریہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اورچیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایاگیا،جس پرچیف جسٹس کوآئی ایس آئی کے ڈی جی کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ آئی ایس آئی کاکوئی آفیشل ہائیکورٹ کے کسی جج کو”اپروچ”نہیں کرے گا،لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوزکی مداخلت جاری رہی۔ ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں جج کا نام تونہیں لکھا گیاتاہم یہ کہاگیاکہ جج کے بیٹے اورفیملی کے لوگوں کی سرویلنس کی گئی اوربعدازاں جج کے برادرنسبتی کو مسلح افرادنے اغواکیا،حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اوروڈیوبیان ریکارڈکرنے کے بعد24گھنٹوں کے بعدچھوڑاگیا۔
خط میں ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکرکے استعفیٰ دینے پردباؤڈالاگیا۔ اس خط میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ایک جج سرکاری گھرمیں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اورماسٹربیڈروم میں کیمرے نصب تھیاورکیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجودتھا،جوآڈیووڈیوریکارڈنگ کسی جگہ ٹرانسمٹ کررہاتھا۔جج کے ماسٹربیڈروم میں بھی کیمرالگاتھا، جج اوراس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیواوریوایس بھی ریکورہوئی۔
سپریم کورٹ سے حال ہی میں دوبارہ بحال ہونے والے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیزصدیقی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کوئی ایڈوائزری فورم نہیں ہے بلکہ یہاں توججزکے کنڈکٹ کے خلاف امورزیرغورلائے جاتے ہیں۔عدالت میں مداخلت پرجج کو خود پتا ہونا چاہیے کہ اس نے کیاکرناہے۔اب یہ اہم ہوگیاہے کہ اب سپریم جوڈیشل کونسل اس پر کیاردعمل دیتی ہے۔یادرہے کہ شوکت عزیزصدیقی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمیدسمیت آئی ایس آئی کے سینئرافسران پریہ الزامات عائد کیے تھے کہ وہ پانامہ مقدمات میں نوازشریف اورمریم نوازکے خلاف فیصلہ دینے کیلئے ان کے گھرآکراسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی پیشکش بھی کی تھی۔
لاہورہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ اقبال کے مطابق”وہ اوران کے شوہرجاویداقبال لاہورہائیکورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔ان کے پاس کبھی کوئی آئی ایس آئی یاخفیہ ایجنسی کااہلکار نہیں آیااورنہ کبھی انہوں نے ایساکوئی واقعہ اپنے شوہرسے سناہے۔جب ججزخودکوئی”فیورز”نہ مانگیں تودوسری طرف سے بھی کسی کوجرأت نہیں ہوتی کہ وہ جج کودباؤمیں لائے۔ جب جج پرفیصلے کیلئے کوئی دبا ؤڈالے توایسے میں جج کو توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔جب جج یہ ظاہرکریں گیکہ وہ دلیر ہیں اورانہیں کوئی لالچ نہیں ہے توپھرکوئی ان کے قریب بھی نہیں آئے گا۔ تاہم اب اسلام آبادہائی کورٹ کے ججزنے ٹھیک راستہ چناہے اوراب چیف جسٹس کواس پرتحقیقات کرناہوں گی۔
یہ ذہن نشین رہے کہ جب جج فرمائشیں کرتے ہیں اوراپنے خاندان والوں تک کیلئے بھی پروٹوکول مانگتے ہیں اورمرضی کے تبادلے اورتقرریاں تک کراتے ہیں،جس کے بعددوسری طرف سے بھی فرمائشیں آنے کاسلسلہ توشروع ہوگا۔سیاسی مقدمات میں خودججزکوبھی ایک”گاڈکمپلیکس”ہے اورانہیں یہ لگتاہے کہ وہ وزرائے اعظموں کوبھی گھربھیج سکتے ہیں اور انہوں نے ماضی میں ایساکیابھی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل اوشتراوصاف کے مطابق اس خط میں ججزکااپنا ذاتی مقصدبھی شامل ہوگیاہے۔سپریم جوڈیشل کونسل وہ فورم ہی نہیں جسے یہ خط لکھاجاتا۔اب یہ معاملہ سامنے آ گیاہے اورچیف جسٹس کواس پرازخودنوٹس لے لیناچاہیے۔لاہورہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق سیکریٹری نے بھی کہاہے کہ ججز نے یہ خط لکھ کربہت اچھاکیاہے۔ان کی رائے میں چیزیں بہت واضح تھیں مگراب اس خط نے ان پرمہرثبت کردی ہے۔ججزعام طورپر ملازمت کے بعدتوانٹرویوزمیں ایسے اعتراف کرتے ہیں مگر دوران ملازمت ایسابہت کم ہی ہوتا ہے۔ اب بال چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی کورٹ میں ہے۔اب بارکونسل کوججزکی حمایت کرنی چاہیے۔
ایک اوروکیل کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں توعام طورپرججزکے خلاف لکھاجاتاہے مگریہاں ججزنے خودلکھ دیاہے۔ مجھے لگتاہے بار اوربینچ میں بہت خلیج ہے۔ایک طرف جج اپنے گھرکے حصول کیلئے درخواست پرخودہی سماعت کررہے ہوتے ہیں توپھران کے لکھے گئے خط کوبھی زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی۔جب ہائیکورٹ کے ججزنے اپنی عدالت کے چیف جسٹس کوخط لکھاتھاتوپھراس وقت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بھی دستخط کیے تھے مگراب جوخط کونسل کولکھاگیا ہے اس میں وہ شامل نہیں ہیں۔دراصل یہ مہم وکلاء کے ذریعے سے چلنی
چاہئے۔اس خط کے ذریعے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف محاذآرائی نظرآتی ہے کہ یاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف لڑیں یاپھراپنے ججزکوناراض کردیں۔ایک جج کے خلاف ریفرنس دائرکرکے دباؤڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔اب خط کے ذریعے تومعاملہ حل نہیں ہوسکتاکیونکہ یہ بات توتحقیق طلب ہے کہ جج کے ”لینڈمافیا ” سے تعلقات ہیں یانہیں ہیں۔
ادھراسلام آباد ہائی کورٹ ججزخط سے پیداصورتحال پرسپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے اپنے اعلامیے میں کہاہے کہ سپریم کورٹ بار قانون کی حکمرانی پریقین رکھتی ہے اورججزکے خط میں مذکورہ واقعے پرسخت ناپسندیدیگی کا اظہارکرتی ہے۔عدلیہ اورججوں کی نجی زندگی میں مداخلت کی نہ صرف مذمت ہونی چاہئے بلکہ اس کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ بارعدلیہ کی آزادی پریقین رکھتی ہے اورعدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ایکشن برداشت نہیں کرے گی۔ملک بھرکی دیگربارایسوسی ایشنزنے بھی مختلف اندازمیں اپنی رائے کااظہارکرتے ہوئے جوڈیشنل کونسل کی تشکیل کامطالبہ کرتے ہوئے اس معاملے کوجلدازجلدحل کرنے کامطالبہ کیاہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی طورپرہماری عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں مختلف عالمی سروے میں کیانقشہ کھینچاگیاہے۔اب تواس سنگین معاملے کے بعدیقیناایک ایساتاثرابھرے گاجو ملک کی ساکھ کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ اس لئے ضروری ہوگیاہے کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری کروائی جائے اورجولوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
آج کل کیا کیا کرشمے آدمی کے ساتھ ہیں
دل کسی کے ساتھ تلواریں کسی کے ساتھ ہیں
بھیڑ کوئی ہو ،تماشہ کوئی ، ہنگامہ کوئی
خوف کے مارے ہوئے ہیں،ہر کسی کے ساتھ ہیں