مفاہمت کیسے ممکن ہے؟
شیئر کریں
انتخابات التوا کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ جس نے مقدمے کی سماعت شروع کر دی ہے، رجسٹرار کی جانب سے نئی کاز لسٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق نئے 3 رکنی بینچ کی سر براہی چیف جسٹس کریں گے جبکہ دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ اس سے قبل یہ تینوں جج اس چار رکنی بینچ کے رکن تھے جو جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے معذرت کے بعد گزشتہ روز دوسری مرتبہ ٹوٹ گیا تھا۔ الیکشن کے التوا کے معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدرِ پاکستان نے پنجاب میں الیکشن کے لیے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی۔ ان کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے اور اگر انھیں حالات سے آگاہ کیا جاتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، التوا کی ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی ضمانت دے رہا ہے اور شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔جسٹس بندیال نے کہا کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے اور اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کر لیں گے۔انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن اس معاملے پر مذاکرات نہیں کرتے تو پھر عدالت آئینی کردار ادا کرے گی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے اور ہر فریق کے ہر نکتے کا فیصلے میں ذکر کیا جائے گا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کچھ وقت مل جائے تو درجہ حرارت کم کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ملک بھر میں معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔
ایک طرف اٹارنی جنرل ملک کی سب سے بڑی عدالت کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں ملک بھر میں معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔دوسری طرف ملک کے مقتدر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہناہے کہ عمران خان نے ہمارا سب کچھ ختم کردیا ہے اور اب ہم انہیں کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، اور ان کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح ہے۔ ان کے بقول جو بھی ہو عمران خان کا راستہ روکا جائے گا، چاہے اس کے لیے غیر جمہوری یا غیر آئینی اقدامات ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔ اسی طرح مریم صفدربھی کہتی ہیں کہ عمران خان کا خاتمہ ہی ان کی سیاسی ترجیح ہے۔ ایسے میں سیاسی ماحول کو کیسے جمہوری اور سیاسی بنایا جائے؟ اس صورت حال میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیسے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں گے اور کس طرح سیاسی درجہ حرارت کم کیا جاسکتاہے، یہی رویہ اس وقت قومی سیاسی بحران کے حل میں رکاوٹ بھی ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان کی سیاسی مقبولیت حکمران اتحاد کے لیے خوف کی علامت بن گئی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی سیاسی طاقت بالخصوص پنجاب میں بھی ان پر غالب ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ مختلف اداروں کی مدد سے ان کو انتظامی یا قانونی بنیادوں پر نااہل کیا جائے۔ یہ سوچ اور فکرہی خطرناک ہے کہ انتخابات آئین اور قانون کے بجائے حکمران اتحاد کی خواہش پر ہوں گے۔ جو لوگ یہ منطق دے رہے تھے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں، اس کی ایک ناکام جھلک ہمیں عمران خان کے لاہورکے حالیہ جلسے میں دیکھنے کو ملی۔ تمام تر حکومتی پابندیوں کے باوجود لوگ اتنی بڑی تعداد میں پہنچ گئے تھے جو جلسے کی کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ اس جلسے کی کامیابی سے بھی حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو مشکل کا سامنا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کو کمزور کرنے کے لیے اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت درکار ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عمران خان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور عمران خان کا راستہ روکنے کے خواہش مند ہیں۔ اس تمام تر حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کی سخت پالیسی کا فائدہ بھی عمران خان کو ہورہا ہے اور ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔ خود عمران خان برملا کہہ رہے ہیں کہ مجھے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ موجود ہے اور ان کے پاس سوائے میری مخالفت کے کوئی پلان نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کو ہٹاکر موجودہ حکومت کو سامنے لایا گیا تو یہ بھی سیاسی اور معاشی محاذ پر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی، بلکہ موجودہ حکومت کے لیے رجیم چینج کا معاملہ خود اس کی مستقبل کی سیاست پر سوالات اٹھا رہا ہے۔
حکمران اتحاد یہ بنیادی بات سمجھنے سے قاصرہے کہ عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ممکن ہے، اور سیاسی محاذ پر ان کو عمران خان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ بنانا ہوگا۔ انتظامی اور قانونی بنیاد پر عمران خان کی نااہلی، گرفتاری مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے زیادہ مسائل جنم لیں گے۔ یہاں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں اور یہ مزید مسائل کو جنم دیں گے۔ حیرت ہے، اگر جمہوریت میں انتخابات ہی مسائل کا حل نہیں تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟ اورکیا ایسا متبادل نظام ہے جو انتخابات کے برعکس ہوسکتا ہے؟ قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا کیا مسائل کا حل ہیں؟ اور کیا انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرکے سیاست اور جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے؟ دو صوبائی انتخابات کی بات تو ایک طرف رکھیں، یہاں یہ منطق بھی دی جارہی ہے کہ اکتوبر میں بھی عام انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔پی ڈی ایم کے روح رواں جو ہر بات 1973 کے آئین کے تناظر میں کرنے کے عادی تصور کیے جاتے تھے اب اس آئین کو لپیٹ کر یہ مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ الیکشن کم از کم 5 سال کیلئے ملتوی کردیے جائیں،یہ بات واضح ہے کہ جب آج الیکشن کمیشن کچھ بنیادی نکات کو بنیاد بناکر انتخابات کو ملتوی کررہا ہے تو اکتوبر میں بھی یہی نکات انتخابات کو ملتوی کرسکتے ہیں۔ انتخابات کو ملتوی کرنے کا عمل ایک ایسی مثال قائم کررہا ہے جہاں مستقبل میں بروقت انتخابات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔ عام طورپر یہ کہاجاتاہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، اور اب انتخابات کو جمہوریت کے برعکس کہا جارہا ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ طاقت ور فریق سیاست، جمہوریت اور آئین و قانون کو بنیاد بناکر انتخابات سے فرار چاہتا ہے اور اس میں بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول تمام وفاقی اداروں، ایجنسیوں نے انتخابات میں سیکورٹی یا عملہ دینے سے انکا رکردیا ہے، تو کیا الیکشن کمیشن اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ یہی تمام ادارے اکتوبر میں بھی انتخابات کے انعقاد میں یہ روش اختیار نہیں کریں گے جو آج کی جارہی ہے؟ الیکشن کمیشن اس فیصلے سے اپنی بچی کھچی ساکھ بھی ختم کرچکا ہے اور واقعی عملی طور پر اس ادارے نے خود اپنی خودمختاری کی خود ہی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہلِ دانش میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو برملا کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کے حق میں نہیں، اور نہ ہی عمران خان کو اقتدار میں آنے دیا جائے گا۔ یہ بات اگر مان لی جائے تو پھر عمران خان کا موقف درست تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ ہی حکمران اتحاد کی مدد سے ان کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتی ہے، اور ایسا عمل یقینی طور پر سیاست کے لیے خطرناک ہے۔ ماضی میں جب بھی ہم نے بھٹو، بے نظیر یا نوازشریف مخالفت کو بنیاد بناکر سیاسی حکمت عملی اختیار کی تو نتائج منفی ہی ملے، اور آج بھی اگر اسی پرانی روش کے تحت عمران خان کو ٹارگٹ کرکے حکمت عملی بنانی ہے تو حالات درست نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ صدرِ مملکت کا وزیراعظم کو خط، اور پھر وزیراعظم کا صدرِ مملکت کو جوابی خط بھی ظاہر کرتا ہے کہ کشیدگی کس حد تک آگے چلی گئی ہے، اور دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات سے تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
اسی طرح جس بہیمانہ انداز میں پی ٹی آئی کی قیادت بشمول عمران خان اور سیاسی کارکنوں کے خلاف شدت یا تواتر سے مقدمات بنائے جارہے ہیں جن میں دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار ہے، وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان کو مسلسل لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں سیر کروانے کا عمل بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کھیل میں قانون سے زیادہ انتقام کی بو آرہی ہے۔ سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کے مقدمے بنانا، ہتھکڑیاں لگانا، یا ان کے منہ پر کپڑا ڈالنا، یا پولیس تحویل میں تشدد جیسے امور واقعی تکلیف دہ ہیں۔ عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے ساتھ بھی جو کچھ کیاگیا وہ خود قانون کی حکمرانی کے برعکس ہے۔ ایک ایسے معاملے پر جس پر پنجاب کی نگران حکومت اورآئی جی کے بقول ظل شاہ ٹریفک حادثے میں مرا ہے، اس کے قتل کا مقدمہ سیاسی کارکنوں پر بناناکیسے قانونی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے! اسی طرح اظہر مشوانی کو جس انداز سے اغوا کیا گیا اوراسے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے چھپایا گیا اور اب وہ اچانک گھر پہنچا ہے تو کچھ معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ یہاں طاقت کی حکمرانی کا راج ہے۔ اگر واقعی حکومت مفاہمت کی سیاست چاہتی ہے تو اسے اس تشدد یا سیاسی مقدمات کے مقابلے میں دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف انتقامی سیاست کی جائے اور دوسری جانب مفاہمت کی سیاست کی جائے۔ مفاہمت کی سیاست کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب ہم انتقامی سیاست سے باہر نکلیں۔ حکمران اتحاد میں شامل رہنما اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم یہ جو سیاسی مہم جوئی کررہے ہیں، اس سے خود ملکی معیشت اور پھر اس معیشت کے براہِ راست منفی اثرات عوام پر پڑرہے ہیں۔ معیشت کی بدحالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اس حکومت کا عوامی مقدمہ مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ بنیادی طور پر ہماری حکومت کو جن معاشی معاملات پر توجہ دے کر عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا تھا وہ اس وقت عمران خان کو فتح کرنے کے کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہے۔آئی ایم ایف سے بھی جو معاہدہ ہونا تھا وہ ابھی تک نہیں ہوسکا، اورایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی قومی سیاست کی محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی نذر ہورہا ہے۔ اس لیے جو کھیل پاکستان کی عملی سیاست میں ہورہا ہے وہ کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں۔ اس کھیل سے بچا جائے، یہی قومی مفاد میں ہوگا۔
٭٭٭