میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اترکھنڈ کا یوگی ۔۔۔یوپی کی اقلیتوں کے لیے عذاب بن گیا

اترکھنڈ کا یوگی ۔۔۔یوپی کی اقلیتوں کے لیے عذاب بن گیا

ویب ڈیسک
اتوار, ۲ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

نچلی ذات کے ہندوﺅں، عیسائیوں اور خاص طورپر مسلمانوں پر خوف کی فضا طاری،یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی نامی ذاتی ملیشیا بھی ہے
ریاست کے تمام ذبح خانے بند، قصاب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں،کباب خانے ،ریستوران سمیت مویشی پالنے والے بھی متاثر
ذبح خانے بند ہونے کا سب سے زیادہ اثر دلتوں پر پڑے گا، چمڑے کا کام دلتوں کا آبائی کاروبار ہے جو وہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں
شہلا حیات نقوی
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل رہنما یوگی ادتیہ ناتھ کو ریاست اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بنانے کے بعد سے ہی بھارت میں نچلی ذات کے ہندوﺅں، عیسائیوں اور خاص طورپر مسلمانوں پر خوف کی فضا طاری ہوگئی ہے ۔یوپی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ آخر یو پی کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا۔جبکہ یوگی ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کافیصلہ ریاستی انتخابات سے بہت پہلے ہی کرلیاگیاتھا اور ان کے نام کا اعلان کرکے دراصل اس فیصلے کی توثیق کی گئی جس کا فیصلہ گزشتہ برس مارچ میں گورکھ ناتھ مندر میں ہونے والے ایک اجلاس میں، جہاں آر ایس ایس کے سرکردہ رہنما بھی موجود تھے، یوگی آدتیہ ناتھ کو یو پی کا وزیر اعلیٰ بنانے کا عہد کرکے کیاگیاتھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کی جماعت کے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نے متفقہ طور پر یوگی کو وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔دلی میں پارٹی رہنماو¿ں کی ایک طویل میٹنگ کے بعد اس کا اعلان پارٹی کے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے کیاتھا۔
یوگی آدتیہ ناتھ شہر گورکھپور سے پانچویں بار رکن پارلیمان بنے ہیں۔ وہ گورکھ پور کے معروف مندر گورکھ ناتھ مٹھ کے مہنت یعنی مندر کے سربراہ ہیں۔لیکن سیاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی شناخت ایک فائر برانڈ ہندو رہنما کی رہی ہے۔ وہ مسلمانوں سے متعلق اپنے متنازع بیانات کے لیے مشہور ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے نظریات سے کافی قریب مانے جاتے ہیں۔یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی نامی ایک ملیشیا بھی ہے جسے انہوں نے خود قائم کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ملیشیا ‘ثقافتی تنظیم’ ہے جو ہندو مخالف، ملک مخالف اور ماو¿نواز مخالف سرگرمیوں’ کو کنٹرول کرتی ہے۔
یوگی کا تعلق پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے گڑھوال کے ایک گاو¿ں سے بتایا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام اجے سنگھ بشٹ ہے لیکن یوگی آدتیہ ناتھ بننے کے پہلے کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو زیادہ کچھ نہیں معلوم ہے۔وہ وتی نندن بہوگنا یونیورسٹی سے سائنس کے گریجویٹ ہیں اور ان کے خاندان کے لوگ ٹرانسپورٹ بزنس میں ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاست تشدد سے پر رہی ہے اور خود ان کے خلاف بھی قتل کرنے کی کوشش، فساد برپاکرنے، سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے، دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے، مزار کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے تحت تین مقدمات درج ہیں۔
یوپی میں یوگی کی حکومت آتے ہی ذبح خانے بندکردیے گئے ،ہر قسم کے گوشت کی فراہمی بہت مشکل ہوگئی ہے جس سے اس شعبے میں کام کرنے والے افراد اور کئی دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیںجن میں مویشی پالنے والے ،گوشت کے تاجر ،ڈھابے اور ریستوران والے ،گوشت کی ڈشز پکانے والے خانساماں حضرات اور عوام شامل ہیں ۔ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سخت گیر ہندو نظریات کے حامل رہنما ہیں جن کی حکومت نے آتے ہی ا ذبح خانوں کو بند کرنے کا فرمان جاری کیا تھا جن کے پاس قانونی لائسنس نہیں ہیں۔اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ تقریباً سبھی قسم کے گوشت کی فراہمی بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ملک کے ذرائع ابلاغ نے یہ خبر شہ سرخیوں میں شائع کی تھی کہ لکھنو¿ میں کباب کے لیے معروف ہوٹل ‘ٹنڈے کبابی’ گوشت نہ ملنے کی وجہ سے وقتی طور پر بند ہو گیا۔دلی کے نواحی علاقے نوئیڈا اور غازی آباد میں بھی حکام نے ایسی تمام دکانوں کو بند کر دیا ہے جن کے پاس لائسنس نہیں ہے۔ان افراد نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چکن، مٹن اور مچھلی کی ان دکانوں کے بند ہونے سے اس شعبے میں کام کرنے والے بہت سے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔
غازی آباد میں گوشت کی منڈی بند ہوچکی ہے جبکہ گوشت کی منڈی بند ہونے کی خبریں یو پی کے مختلف علاقوں سے مسلسل آرہی ہیں۔گوشت کی دکانیں اور منڈیاں بند ہونے سے بھارت میں کبابوں کی مشہور دکانیں بھی بند ہورہی لیکن اس کے ساتھ ہی اب چڑیا گھروں کے حکام کو بھی مشکلات اور پریشانی کاسامنا کرنا پڑرہاہے جس کا اندازہ لکھنﺅمیں برطانوی خبررساں ادارے کی صحافی سمیر آتمن مشر کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ اس سے گوشت خور جانوروں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ضلع اٹاوہ میں واقع ‘لائن سفاری’ کے شیروں کو کھانے کے لیے گوشت کی کمی ہے۔ شیروں کا پیٹ بھرنے کے لیے بھینسے کا گوشت دیا جاتا تھاتاہم گائے بھینس کے ذبح کرنے پر پابندی کے سبب اب انہیںزندہ رکھنے کے لیے بکرے کا گوشت دینا پڑرہا ہے۔
اٹاوہ سفاری پارک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر انیل کمار پٹیل کا کہنا ہے کہ ‘سفاری پارک میں آٹھ شیر ہیں جنہیں کھانے کے لیے عام طور پر بھینس کے بچوں کا گوشت دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن دو تین دن سے اس طرح کے گوشت کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے شیروں اور ان کے بچوں کو بکرے اور مرغ کا گوشت دیا جا رہا ہے۔پٹیل نے بتایا کہ یہ مسئلہ صرف اٹاوہ کا ہی نہیں ہے بلکہ لکھنو¿ اور کانپور جیسے شہروں میں واقع چڑیاگھروں کے شیر بھی ایسے ہی مسائل سے دو چار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل سے نمٹنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔سفاری میں شیروں کے لیے گوشت سپلائی کرنے والے ٹھیکیدار حاجی نظام کا کہنا ہے کہ مذبح خانے بند ہونے سے بھینس کا گوشت نہ مل پانے کی وجہ سے شیروں کے لیے ہر روز 50 کلو بکرے کا گوشت بھیجا جا رہا ہے جسے ہر روز مہیا کر پانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
حاجی نظام کے مطابق ‘اس سے ہمیں بہت خسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن شیروں کو بھوکے مرنے سے بچانے کے لیے ہم بکرے کا گوشت فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ ایسا کتنے دن تک کر پائیں گے۔ ہماری اپیل ہے کہ ریاستی حکومت کم از کم ان شیروں کے لیے تو بھینس کا گوشت فراہم کرنے کی اجازت دے دے۔’اتر پردیش میں قصاب خانوں کے خلاف کارروائی سے گوشت کے کاروبار پر انحصار مسلمان ہی نہیں، بلکہ دلتوں کی روزی روٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔کیونکہ ذبح خانوں اور چمڑے کی صنعت میں مسلمانوں کے علاوہ دلتوں کی بھی ایک بڑی آبادی بھی وابستہ ہے۔میرٹھ یونیورسٹی کے پروفیسر ستیش پرکاش نے صحافی سے گفتگومیں بتایاکہ ‘ذبح خانے بند ہونے کا سب سے زیادہ اثر دلتوں پر پڑے گا۔ چمڑے کا کام دلتوں کا آبائی کاروبار ہے، جو وہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے بند ہونے سے بڑی تعداد میں دلتوں کی روزی روٹی ماری جائے گی۔’محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک کے 75 قانونی مذبح خانوں میں سے 38 ریاست اترپردیش میں ہیں اور اس میں دلتوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں