کاش آپ اپنی فضہ کووقت دیں
شیئر کریں
یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جوجون ایلیاءصاحب کی بھتیجی شاہانہ رئیس ایلیاصاحبہ نے سنایاہے ،شاہانہ رئیس ایلیاصاحبہ رئیس امروہوی کی صاحب زادی ہیں۔وہ بتاتی ہیںکہ ان کے والد کے قتل کے بعدان کے چچاجون ایلیاءکے پاس ایک فضہ نام کی پیاری سی لڑکی اکثرآیاکرتی تھی، یہ لڑکی جون ایلیاءسے شاعری کی تعلیم لینے آتی تھی پھرایک روزاچانک اس کاآناختم کیوںہوگیا۔ اس کاآناختم کیوں ہوگیا،یہ آپ شاہانہ رئیس ایلیاءصاحبہ کی زبانی پڑھیں۔
اچانک ایک دن اس کاباپ ستاربھائی (فضہ کے والد) ہمارے گھرآیا،اداس اورٹوٹاہوا،اس نے بتایاکہ” فضہ مرگئی “۔
ہم سناٹے میںآگئے ”فضہ مرگئی ….مگر کیسے؟“ جون ایلیاءنے پوچھا۔
”یہ بڑی لمبی داستان ہے۔اگرآپ کہیں تو میں سناﺅں“۔اس نے اداسی سے پوچھا۔ چچاجون سے پہلے میںبول پڑی ۔
”ہاں…….. ہاں…….. ضرور سنائیے۔ اتنی پیاری بچی پرکیاگزری“۔
پہلے تویہ بتادوںکہ وہ آپ کے گھرسے جارہی تھی ،وہ بس میں بیٹھی ،اتفاق سے راستے میں وہ مجھے مل گئی تھی ،ہم دونوںبس میں سوارہوئے اورابھی بس نے رفتارپکڑی ہی تھی کہ وہ بس سے کودگئی ۔
اس کاسرپتھرسے ٹکرایا اور…….. اور…. وہ موقع پرہی ہلاک ہوگئی “۔ستاربھائی یہ کہہ کررونے لگے ۔
چچاجون،ہماری آنکھوںمیںآنسوآگئے تھے، بڑی باجی بھی آب دیدہ ہوگئی ۔تھوڑی دیر میں میں نے ستاربھائی سے معلوم کیا کہ :”ستاربھائی! آخرفضہ اتنی خاموش کیوںرہتی تھی ،ایک نوجوان بچی اتنی اداس اورخاموش کیوںتھی……..؟“
”باجی !یہ ایک لمبی داستان ہے ۔فضہ جب چھ سال کی تھی تواس کی ماںآمنہ ایک حادثے میں مرگئی تھی ۔ہوایوںتھاکہ میری بیوی آمنہ،فضہ اورچھوٹے بیٹے غفارکے ساتھ رکشے میں میکے سے گھرواپس آرہی تھی ،گھرکاموڑمڑتے ہوئے رکشہ ٹرک سے ٹکراگیا،رکشہ ڈرائیور،میری بیوی اورمیرابیٹاغفارموقع پرہلاک ہوگئے ۔مگرحیرت انگیزطورپرفضہ محفوظ رہی، لوگ جمع ہوگئے، محلے والے مجھے اورمیری بیوی بچوںکوجانتے تھے ،وہ فضہ کوگودمیں اٹھاکرمیری دکان پرآئے اوراس اندوہ ناک واقعے کی اطلاع دی ۔میری تو دنیا اجڑگئی، میں نے فضہ کوکلیجے سے لگالیا،وہ خاموشی سے مجھے تک رہی تھی ۔آنسو……..نہ چیخ پکار…. بس خالی خالی آنکھوںسے کبھی مجھے دیکھتی…. کبھی چاروںطرف کچھ ڈھونڈنے لگتی ۔
وقت گزرتارہامگرفضہ کی حالت میں کوئی فرق نہیںآیا۔میری دکان بھی بند پڑی تھی۔فضہ میرادامن چھوڑتی ہی نہیںتھی۔نانی،دادی نے بہت کوشش کی اپنے پاس رکھنے کی مگروہ تیار نہیں ہوئی۔لوگوںنے اورمیری ماں نے میری دوسری شادی کرانے پرزوردیناشروع کردیا۔میں نے بھی سوچا کہ کب تک دکان بند رکھوںگا۔بچی کو اکیلا چھوڑنہیں سکتا۔الغرض میں نے ایک بیوہ سے نکاح کرلیا۔مریم فضہ کی ماںبن کرآگئی ،شروع میںمریم نے کوشش کی فضہ کے قریب آنے کی مگرناکام رہی ۔فضہ اسکول جانے لگی تھی ،مریم کے ہاںسال بھربعدجڑواںبیٹے پیداہوئے ۔وہ اپنے بچوںمیں مصروف ہوگئی ۔میں رات گئے دکان بند کرکے گھرآتاتھا، اس درمیان کیا ہوتا تھامجھے بالکل نہیں معلوم ۔فضہ نے تونہ بولنے کی قسم کھالی تھی، پھربھلامجھے کیسے معلوم ہوتا۔میرے بیٹے سال سال بھرکے ہوگئے تھے ۔زندگی ایک ڈگرپرچل رہی تھی جوفضہ پردورے پڑنے لگے۔ بہت علاج ہوا مگر بے کار۔ہم نے روحانی علاج بھی کرایا مگر کوئی فائدہ نہیںہوا۔میں نے رئیس امروہوی کوخط لکھا۔انہوںنے جواب دیاکہ آپ کی بچی پرنہ کوئی جن ہے ،نہ کوئی سایہ ،اس کی روح بیمار ہے ،اس کاعلاج آپ خود کرسکتے ہیں،انہوںنے کچھ مشورے دیے ،کچھ دنوںتک میں نے ان کے کہے پرعمل کیا۔فضہ میں تھوڑی سی بہتری آنے لگی تھی ،کام کی زیادتی اورکچھ کاہلی کی وجہ سے میں نے رئیس صاحب کے بتائے ہوئے عمل کو چھوڑ دیا۔ فضہ نویںکلاس میں آگئی تھی ۔مجھے نہیں معلوم کہ کب اس کے اوررئیس صاحب کے درمیان خط وکتابت شروع ہوگئی ۔ایک آدھ بار وہ میرے ساتھ رئیس صاحب سے ملنے کے لیے آئی بھی ۔وہ انہیں دیکھ کربڑی خوش دلی سے ہنستی تھی۔ ستارسانس لینے کورکے ،ہم ہمہ تن گوش تھے۔ ”میری مصروفیات نے میری بچی کی جان لے لی“۔وہ رونے لگے۔
”پھرکیاہوا؟“میری محویت ٹوٹی ۔
”کاش میں اسے رئیس صاحب کے پاس لاتا رہتا۔ توشاید وہ زندہ ہوتی “۔وہ تھوڑابہت بولنے لگی تھی۔کبھی کبھی مسکرابھی دیتی۔ ہائے میرے نصیب کہ میں اپنی ذہنی مریض بچی کوخوشی نہ دے سکا۔ اگروہ یہاں آ کر خوش ہوتی تھی تومجھے اسے یہاںلاناچاہیے تھا۔آج میں سر پکڑ کر روتا ہوںکہ میں نے اپنی فضہ کوخوشی نہیںدی“۔
رونے سے ستاربھائی کوکچھ سکون ملا تو انہوں نے بتایاکہ؟ ”فضہ نے میٹرک کاامتحان دیاتھا،وہ چوںکہ سب سے الگ تھلگ رہتی تھی، اس لیے اس کی توجہ پڑھائی کی طرف تھی ۔وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ارے میری بیٹی کوتوبہت آگے جانا تھا مگر…. مگرموت نے اسے مہلت نہ دی ….“ وہ پھررونے لگے۔
”فضہ کے امتحان ہوچکے تھے ،وہ فارغ تھی۔ باہر تو وہ آتی نہیں تھی ،اپنے کمرے میںاکیلی بیٹھی ڈائری لکھاکرتی ۔22 ستمبر 1988ءکوخبرنشرہوئی، رئیس امروہوی شہید ہوگئے۔ جیسے ہی یہ خبرچلی میںنے گھبراکرفضہ کودیکھا۔حیرت کی بات ہے کہ یہ خبرسن کراس کا چہرہ کھل اٹھا۔وہ بڑی مطمئن تھی جیسے وہ جوچاہتی تھی وہی ہوگیاہو۔اس واقعے کے بعدوہ اورتیزی سے ڈائری لکھنے لگی۔اس کی موت کے بعدمیں سکون حاصل کرنے کے لیے اس کے کمرے میںوقت گزارتا تھا۔معلوم ہے اس نے کیالکھاتھا:
”بابا!رئیس امروہوی میرے پاس آئے تھے اورانہوںنے کہا کہ میں ان کی اکیڈمی میں آنے لگوں۔ انہوںنے کہا کہ میں وہاں موجود ہوں۔ اور میں اکیڈمی جانے لگی ہوں۔وہاںواقعی بابا موجود ہیں۔وہ مجھ سے باتیں کرتے ہیں،اپنے سینے سے لگاتے ہیںاورمیں پرسکون ہوجاتی ہوں۔ ابوحیرت میں تھے کہ میں باباکی شہادت سے خوش کیوںہوئی ۔انہیں کیامعلوم کہ میں کیوں خوش تھی ۔بابانے مجھ سے وعدہ کیاتھاکہ وہ میرے پاس رہیں گے ۔جب ان کی شہادت ہوگئی تووہ میرے پاس آگئے ۔اس لیے میںخوش ہوں“۔ بھائی ستارنے کہا کہ اس کے بعدبہت سے صفحے خالی تھے۔فضہ مستقل اپنے کمرے میں رہنے لگی تھی، اورخوش بھی تھی ۔بہت سے صفحوںکے بعد اس نے لکھاتھاکہ ”میںباباکے پاس جاناچاہتی ہوں“۔ اوروہ آپ کے گھرآنے لگی ۔یہاںسے لوٹ کروہ بہت مطمئن رہتی ۔میںخوش تھاکہ چلوکسی بہانے سہی اس کادل تولگا“۔
”بھائی ستار!آپ نے اسے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھایا“۔میںنے پوچھا۔
”باجی! آپ ڈاکٹرکی بات کہہ رہی ہیں، کہاں کہاںمیں اسے لے کرنہیںگیا۔سب نے کہا کہ اسے کوئی بیماری نہیںہے ۔میں اسے نفسیات کے ڈاکٹرکے پاس لے گیا،وہ چاہتے تھے کہ میں اسے ذہنی مریضوں کے اسپتال میں داخل کرادوں۔ میں یہ برداشت نہیںکرسکتاتھا۔وہ ہمیںپریشان تونہیں کررہی تھی ،اپنے کمرے میں رہتی تھی ۔جون صاحب آپ کے پاس بھی اسے سکون ملتا تھا۔ یہاںرئیس صاحب کی بڑی تصویربھی اسے سکون دیتی تھی ۔مگروہ اپنی ڈائری میں جگہ جگہ لکھ رہی تھی ”میں باباکے پاس جاﺅںگی۔بابامجھے منع کرتے ہیں۔ وہ مجھے دعائیں دیتے ہیںمگرمجھے اب یہاںنہیں رہنا۔مجھے اپنی ماں،اپنے بھیا اور بابا کے پاس جاناہے“۔
پھراس نے لکھاتھا”بابامجھے اپنے پاس آنے سے منع کرتے تھے اورمیں ضدکرتی تھی ۔اس لے وہ مجھ سے روٹھ گئے اورمیرے پاس آنا چھوڑ دیا۔ میں انہیںیاد کرتی ہوں۔ان سے ملناچاہتی ہوں۔ اب تووہ اپنے دفترمیں بھی نہیںآتے ۔پہلے تومیں جب تک دفترمیں رہتی وہ میرے ساتھ رہتے پھروہ مجھے کہتے کہ اب تم گھر جاﺅ۔ میں ان کے کہنے پر گھر آجاتی ۔چچاجون کے پاس بیٹھ کربھی مجھے بڑاسکون ملتاہے ۔بابامجھ سے روٹھ گئے ہیںتواب میرے لیے یہاںکیارکھاہے ۔ماںبچپن میں مجھے چھوڑکرچھوٹے بھیاکوساتھ لے کرچلی گئی ،اسے میراذراسابھی خیال نہیںآیا۔ماںمجھے چھوڑکرچلی گئی ،اب باباروٹھ گئے ،ابواپنے کاموںمیں اور اپنے بچوںمیں مصروف ہیں، تواب کیارہا۔یہ دنیامیرے کسی کام کی نہیںرہی ۔مجھے اپنی ماں اور بابا کے پاس جاناہوگا“۔
”اس کے بعداس نے چلتی بس سے کود کر جان دے دی “۔ستاربھائی زاروقطاررورہے تھے۔ ہم دم بہ خود تھے ۔واقعی اس معصوم ،خوب صورت بچی کاانجام بہت دردناک تھا۔وہ بچی بھری جوانی میں دنیاچھوڑگئی ۔ستاربھائی داستان غم سناکرچلے گئے ۔ہمیں اداس اورملول کرکے گئے ۔
معززقارئین آپ اپنے دل پرہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا یہ کہانی صرف فضہ کی ہے ؟کیایہ میری اورآپ کی کہانی نہیں ہے ؟
یہ داستان صرف فضہ کی نہیں ہے بلکہ یہ ہراس لڑکی کی کہانی ہے کہ جسے اپنوںکاپیار،توجہ نہیں ملتا۔بچے بڑے حساس ہوتے ہیںخاص طور پر لڑکیاں تو کانچ کی بنی ہوتی ہیں۔شام ڈھلتے جب کوئی بابا اپنے گھرلوٹتاہے تب سب سے پہلے یہ کانچ کی گڑیا ہی باباسے لپٹ کراستقبال کرتی ہیں۔اپنے بابا کے لیے پانی لاتی ہیںاورایک ہی سانس میں ہزار داستانیں بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لڑکیاں اپنے شوہروںمیں اگرکسی کی پرچھائیاںڈھونڈھتی ہیں تووہ صرف باباکی پرچھائی ہوتی ہے کیونکہ بیٹیاںدیکھتی ہیںکہ بچپن سے جوانی تک جوانسان ان سے بے غرض اوربے پناہ پیارکرتاہے اس رشتے کو”بابا“کہتے ہیں۔ اوریہ ایک تلخ اورکڑوی حقیقت ہے کہ جن گھروں میں بچیوںکوباپ بھائی کی توجہ اورپیارنہیں ملتا زیادہ تر ایسے ہی گھروںکی معصوم بیٹیاںیہ توجہ اورپیارباہراجنبیوںمیں تلاش کرتی ہیں۔گھرسے باہرصرف آدم خور درندے ملتے ہیںجن کو بانو قدسیہ راجہ گدھ کہتی تھیں ۔اولاد کوماںباپ کی توجہ سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی مگربعض ماں باپ عمربھراولاد کی ہرخوشی پیسوںسے پورا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔جبکہ ان کی اولاد چندلمحات اپنے والدین کے سائے میں بتانے کوترستی رہتی ہے۔فضہ کی کہانی ان والدین کوجگانے کی کوشش ہے جوصرف پیسے کمانے میں اتنے مگن ہوچکے ہیںکہ ان کومعلوم ہی نہیں کہ کب ان کی ننھی فضہ اس قابل ہوجائے گی کہ تب اسے باباکی نہیں کسی ہمسفرکی ضرورت ہوگی۔ اولاد جب پہلی مرتبہ کوئی لفظ بولتی ہے خاص کر جب بیٹیاں پہلی مرتبہ جب ہمارانام پکارتی ہیں جب وہ اپنی توتلی زبان سے کوئی شکایت یاکوئی فرمائش کرتی ہیں۔یقین جانیے یہ لمحات اربوں روپے دے کرواپس نہیں لائے جاسکتے ۔کتنی بد نصیبی ہے ان والدین کے لیے جواولاد کووقت نہیں دیتے؟ ہرعمرکی الگ ضرورتیں ہوتی ہیں۔بچپن میں ماں باپ کاپیار اور توجہ کروڑوں روپوں سے قیمتی ہے۔ میری تویہی دعاہے کہ خداکسی باپ کی فضہ اس سے دورنہ کرے اورخداہمیں اپنی اپنی فضہ کی ہرعمر کی ضرورتوںکوسمجھنے کی توفیق عطاکرے۔ (آمین)خداکرے ہم ستاربھائی کے پچھتانے سے کچھ سیکھ لیں۔کاش ہم اپنی فضہ کووقت دیں۔
٭٭….٭٭