میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میئر کراچی نہ کام کرو نہ کرنے دو کی پالیسی پر گامزن

میئر کراچی نہ کام کرو نہ کرنے دو کی پالیسی پر گامزن

ویب ڈیسک
اتوار, ۲ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی کے میئر وسیم اختر نے سندھ حکومت کی جانب سے باغ ابن قاسم کی دیکھ بھال اور تزئین وآرائش کی ذمہ داریاںبحریہ ٹاو¿ن کے سربراہ ملک ریاض کے حوالے کئے جانے پر شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ باغ ابن قاسم کو نہ کوئی لے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دے سکتا ہے ،باغ ٹھیکے پر دینے کے فیصلے خلاف سندھ ہائی کورٹ جائیں گے۔ میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے اس شدید اور سخت ردعمل کے اظہار کے بعدبحریہ ٹاو¿ن کے سربراہ ملک ریاض نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ میئر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی رضامندی کے بغیر ابن قاسم پارک کا انتظام نہیں سنبھالے گا۔ملک ریاض نے کہا کہ وہ کراچی میں بحریہ ٹاو¿ن باغ ابن قاسم کو عالمی معیار کا پارک بناناچاہتے تھے ، جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اس کے بدلے ہم حکومت سے ایک روپیہ نہیں لیں گے اور اس میں بحریہ ٹاو¿ن کا کوئی کاروباری فائدہ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود پارک کا انتظام سنبھالنے سے متعلق میڈیا میں منفی باتیں پھیلائی جارہی ہیں جو کہ افسوس ناک ہے اور یہ نہیں ہوسکتاکہ ہم رقم بھی خرچ کریں اور لوگوں کی ناراضگی دور کرنے کیلئے ان کی خوشامدیں بھی کریں۔ملک ریاض نے یہ واضح کردیاہے کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ بحریہ ٹاو¿ن اس وقت تک پارک کا انتظام نہیں سنبھالے گی جب تک میئر کراچی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز باغ ابن قاسم کی حوالگی پر راضی نہیں ہوجاتے۔
حکومت سندھ نے گزشتہ برس باغ ابن قاسم کا انتظام کے ایم سی سے لے کر اپنے ماتحت کیا تھا اور اب اس پارک کا انتظام بحریہ ٹاو¿ن کے سپرد کرنے کافیصلہ کیا۔ پارک کو بحریہ ٹاﺅن کے حوالے کرنے کے اس معاہدے کی جوتفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق پارک میں تعینات ملازمین بدستور کے ایم سی سے تنخواہ لیں گے جبکہ پارک کی تزئین وآرائش پر آنے والے تمام اخراجات بحریہ ٹاﺅن برداشت کرے گی ،کراچی کے میئر وسیم اختر کاموقف یہ ہے کہ باغ ابن قاسم کو اگرکوئی شخص یا ادارہ گود لیتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن مجھے باغ کو دیے جانے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے، کے ایم سی کو بتائے بغیر چوری چھپے معاہدے کر لیے گئے اور یک دم 20 گریڈ کا افسر ایک نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے کہ پارک کسی کے حوالے کردیا گیا، ابن قاسم پارک کے ایم سی کی ملکیت ہے جو پارسی برادری نے تحفہ دیا تھا، نہ کوئی پارک لے سکتا ہے نہ دے سکتا ہے اور اس کی بحریہ ٹاﺅن کو حوالگی کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے،انھوں نے اس ڈیل کو پیپلز پارٹی کی بد نیتی کامظہر قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ باغ ابن قاسم کسی کی جاگیر نہیں عوام کی جگہ ہے ۔ پارک کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا،ہم کسی کو بھی کراچی پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے، مجھ سے مشورہ کیاجاتا تو میں ایسا نہ کرنے دیتا، پارک ضرور بننا چاہیے اور جو بھی اسے بنائے گا ہم خود تعاون کریں گے لیکن پہلے پارکس سے متعلق قانونی تقاضے پورے کئے جائیں۔ کراچی کو خوبصورت ہونا چاہیے، اگر دیگر پارکس کو بھی دینا ہے تو دے دیں ،ہم کام کرنا چاہتے ہیں ہم سے بات تو کریں۔ اب منتخب نمائندوں کی حکومت آچکی ہے، پیپلز پارٹی کو منتخب نمائندوں کے ساتھ ہی کام کرنا ہوگا۔وسیم اختر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت گھوسٹ ملازمین پرعوام کو گمراہ کرتی ہے، اگر ہم نے گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے تو گزشتہ 8 سال سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اس طویل عرصے میں گھوسٹ ملازمین کیوں نہیں نکالے گئے ؟سندھ حکومت خود گھوسٹ ملازمین بھرتی کرتی ہے۔
کراچی کے میئر وسیم اختر کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ پارکوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بلدیہ پر عاید ہوتی ہے اس لئے کسی بھی پارک کو دیکھ بھال یا تزئین وآرائش کیلئے کسی بھی دوسرے ادارے یا فرد کے سپرد کئے جانے سے قبل بلدیہ کے منتخب عوامی نمائندوں سے مشورہ کیاجانا اور انھیں اعتماد میں لیاجانا ضروری تھا ،لیکن باغ قاسم بحریہ ٹاﺅن کے سپرد کرنے پر سندھ حکومت پر برہمی کے ساتھ اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ایک سال قبل جب سندھ حکومت نے باغ قاسم کا انتظام بلدیہ کراچی سے اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کیاتھا اس وقت انھوں نے سندھ حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ اور اگر وہ باغ قاسم کا انتظام حکومت سندھ کے حوالے کئے جانے کو درست تصور کرتے تھے تو پھر اب ان کو اس کا انتظام بحریہ ٹاﺅن کے حوالے کرنے پر دکھ کیوں ہورہا ہے کیونکہ جب باغ قاسم کا انتظام ایک سال قبل ہی بلدیہ کراچی سے واپس لے لیاگیاتو اس باغ پر بلدیہ کا کسی طرح کا کوئی دعویٰ نہیں رہا اور اب یہ اسے اپنی تحویل میںلینے والے کی اپنی صوابدید پرہے کہ وہ اس کا انتظام کس طرح اور کس کے ذریعے کراتا ہے۔
یہاں کراچی کی ملکیت اور کراچی کے عوام کامینڈیٹ رکھنے کے دعویدار میئر کراچی سے یہ سوال بھی کیاجاسکتاہے کہ ان کی پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پارکوں کو کتنی ترقی دی اور اس شہر کے کتنے پارکوں کو مثالی پارک کی شکل دی، کیا میئر کراچی اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے عروج کے دور میںجب سندھ کے شہروں میں ان کی پارٹی کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتاتھا،تب کراچی کے ان علاقوں میں جو ان کی پارٹی کے مضبوط گڑھ تصور کئے جاتے ہیں،ان میں موجود پارکوں کو بھی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کیاجاتارہا اور ان پارکوں میں بچوں کی تفریح کیلئے لگائے گئے جھولے اور دوسری اشیا یہاں تک کہ پارک میں آنے ولوں کے بیٹھنے کیلئے لگائی گئی بینچیں تک اکھاڑ کر بیچ دی گئیں۔کیا میئر کراچی اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے عروج کے دورمیں کراچی کے مختلف علاقوں جن میں نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی، سرجانی ٹاﺅن اور گلستان جوہر کے علاقے شامل ہیں ،ان میں لوگوں کی تفریح کیلئے بنائے گئے پارک اور کھیل کے میدانوں کو چائنہ کٹنگ کے نام پر پلاٹوں کی شکل میں فروخت کیاجاتا رہا، میئر کراچی وسیم اختر نے اس وقت اپنی پارٹی کے ان کرتا دھرتاﺅں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی جو اس عمل کے ذریعہ شہر کے لوگوں کو تفریح سے محروم کرنے میں مصروف تھے۔ جہاں تک میئر کراچی کایہ دعویٰ کہ اس شہر پر وہ لوگ قابض ہیںجنھیں اس شہر کے لوگوں کااعتماد حاصل نہیں تو کیا یہ درست نہیں کہ وسیم اختر آج جس عوامی مینڈیٹ حاصل ہونے کادعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اس شہر کے عوام نے انھیں نہیں دیا بلکہ عوام نے یہ مینڈیٹ اس پارٹی کے سربراہ کو دیاتھا جس کانام لیتے ہوئے آج ان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، اگر انھیں عوامی مینڈیٹ کا اتنا ہی زعم تھا تو انھیں وہ جعلی مینڈیٹ مسترد کرتے ہوئے استعفیٰ دے کر دوبارہ عوامی مینڈیٹ لینا چاہئے تھا۔
ابن قاسم پارک کے حوالے سے میئر کراچی کے پورے شورو غوغا کامقصد صرف سستی شہرت حاصل کرنا ہے اور اس کا ایک ہی بنیادی سبب نظر آتاہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے براہ راست اس کا انتظام بحریہ ٹاﺅن کے سپر د کردئے جانے سے انھیں بیچ میں سودے بازی کرنے اور دیکھے اور ان دیکھے فوائد حاصل کرنے اور باغ کے کچھ کاموں کاٹھیکہ اپنے من پسند ٹھیکیداروں کو دلوانے کا موقع نہیں مل سکا ، ابن قاسم پارک کے حوالے سے میئر کراچی کا رویہ ظاہر کرتاہے کہ وہ نہ کوئی کام کرو اور نہ کسی کو کرنے دو کی پالیسی پر کاربند ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ اگر دوسروں کو کام کرنے کا موقع مل گیا تو عوام ان سے ان کی کارکردگی کا حساب مانگ سکتے ہیں ،اور اس کاان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں