مثالی نظرآنے کا دوٹوک جنون
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
لکھنا اچھی بات ہے مگراکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد صفائی پیش کرنے کے لیے مضامین لکھتے ہیں اور ایسی خوبیاں بتانے کی کوشش کرتے ہیںجن سے لوگوں کواُن کے خداترس ،فرض شناس اور ایماندار ہونے کا یقین دلایاجاسکے ۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد صاحبِ ثروت پارسائی ظاہرکرنے کے لیے کتابوں کا سہارا بھی لینے لگے ہیں مگر نہ توسبھی قدرت اللہ شہاب جیسے باکردار ہیں اور نہ ہی ویسااندازِ بیان ہوتا ہے۔ اسی لیے اور آگاہی کے بجائے کتابی کچرے کا باعث بنتے ہیں ۔قارئین کی عدم دلچسپی کے باوجودسول سروسزسے ریٹائرمنٹ کے بعدکچھ لوگ قلمی سہارا لیکر شرافت ،راست گوئی اور دیانت داری کا ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں۔ دوٹوک کے عنوان سے لکھے کالم ہوں یا دوٹوک باتیں جیسی کتابیں، پڑھ کر ایسامحسوس ہوتاہے کہ کچھ لوگ کچوکے لگاتے ضمیرکو قلم کے ذریعے سلانے اوردنیاکو اپنی نیک نامی کا یقین دلانے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ دنیا کو اگر یقین دلابھی دیا جائے توسزاوجزا سے بچنا ناممکن ہے کیونکہ روزمحشر نہ تو قلم ہو گا اور نہ ہی بے جا ستائش کرنے والے غلام پرستار، جو حقیقت جانتے ہوئے بھی جھوٹ پرواہ واہ کریں۔ کاش ملازمت کے دوران واقعی دیانتدار ،راست گو اور خداترس ہوتے تاکہ آج قلم سے جھوٹ لکھنے اور نیک نامی کی من گھڑت داستانیں سنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
وزیرِ آباد شہر سے مغرب کی طرف احمدنگرروڈپر چند کلومیٹر سفر کریں تو ایک چھوٹا سا گائوں کٹھوہر کلاں ہے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں کے ایک نوجوان چوہدری محمد اسلم خان چیمہ نے پٹوار کورس پاس کیا اور پٹواری کی ملازمت حاصل کرلی وہ کتنے قابل یا اہل تھے ،اِس پر بات کرنے کی بجائے جائیداد بنانے کی قابلیت کا تذکرہ زیادہ دلچسپ ہوگاتفصیل میں جائے بغیراختصار سے بات کی جائے توموصوف نے قلمی قابلیت سے آٹھ یا نو ایکڑ زمین مختصر مدت میں سواسوایکڑ تک بڑھا لی اورقلیل مدت میں تین موضعات رتو والی ،رنیکی اورکٹھوہرکلاں کے سب سے بڑے زمین دار بن گئے۔ اِس دوران کسی سے زمین خرید ی تو کسی پر شفعہ کا کیس بناکر ہتھیالی اورناخواندہ افراد سے ویسے ہی انگوٹھے لگوالیے۔ علاقے کا بڑا زمینداربنتے ہی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ خود ستائشی کے خبط میں مبتلا جن کے فرزند زوالفقاراحمد چیمہ پشیمان ہوئے بغیراب بڑی دیدہ دلیری سے نہ صرف دوٹوک باتیں لکھتے ہیں بلکہ پھرقلمکاروں سے فرمائشی تبصرے بھی لکھواتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اپنے گائوں کٹھوہرکلاں کے ایک خاندان کی چھپن کنال اراضی ملکیت ہونے کے باوجود فروخت نہیں ہونے دے رہے ۔وجہ یہ ہے کہ مالکان کمزورہیں ایک بھائی امریکہ آباد ہے اور ایک ایڈیشنل سیشن جج کے منصب سے ریٹائر ہوکر اسلام آبادمستقل رہائش پذیر ہو چکا ہے۔ مزید ستم یہ کہ طاقت کے بل بوتے پر گائوں کے لیے مختص تمام نہری پانی اپنی زمینوں کو لگا لیتے ہیں مگر کسی اور شخص کو یہ حق دینے پر تیار نہیں کہ اپنے حصے کے پانی سے اپنی زمینوں کو سیراب کر سکے۔
لچھے دار گفتگو اور دوٹوک باتیں اگر کردار کے منافی ہوںتو چاہے جتنی من گھڑت کہانیاں سنا لی جائیں سچ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اثرو رسوخ کی المناک داستان کا آغاز کچھ اِس طرح ہواکہ چوہدری محمد اسلم چیمہ کے بہنوئی چوہدری افضل چیمہ جج بن گئے جنھیں تابعداری اور حکومتی جی حضوری کے عوض بعد ازملازمت اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمینی عطافرمائی گئی ۔اس طرح گائوں کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔ چوہدری محمد اسلم چیمہ کے واجبی سی ذہانت رکھنے والے صاحبزادوں کے کوئٹہ سے ڈومیسائل بنوائے جاتے ہیں تاکہ نالائق تین بے روزگاروں کوکہیں کسی طرح میرٹ پر لایا جا سکے۔ ایک پہلے تاریخ کا اُستاد بننے کے بعدجج بن جاتا ہے۔ ایک پولیس میں چلا جاتا ہے اور ایک محکمہ صحت کا انتخاب کر لیتا ہے۔ جج نے دوران ملازمت مقدمات کے کیسے فیصلے کیے ہوں گے؟ پر بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ توہین عدالت کا اندیشہ ہے مگر موصوف مشرف دورمیں ایک بار بطورجج گجرات دورے پر آئے ججز اور انتظامی آفیسران استقبال کرتے ہیں آخر پر انواع و اقسام کا کھانا ہوتا ہے لیکن اچھے استقبال کا موصوف کو ایسا نشہ ہوتا ہے کہ منصب اور ایجنڈے کے مطابق گفتگو کی بجائے تاریخ دانی کااِتناطویل مظاہرہ کرتے ہیں کہ سامعین سُنتے سُنتے سو جاتے ہیں۔ آخر کار تقریب میں موجود ایک شخص کھانے کی طرف توجہ دلاتا ہے تو گفتگوکا لامتناہی سلسلہ موقوف ہوتا ہے پھربھی کھانے کی طرف جاتے ہوئے پیشکش کرتے ہیں اگر آپ سُننے کا حوصلہ کرلیں تو صبح تک بھی گفتگو کرسکتا ہوں لیکن تمام سامعین اِس پیشکش سے خوفزدہ ہوکرکھانے کی طرف بھاگ جاتے ہیں ۔
ابھی بدقسمتی کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بعدازملازمت ملک کی ایک بڑی جماعت سے ٹکٹ لیکر قومی اسمبلی کے امیدوار بنتے ہیں اور جائز و ناجائز حربوں سے منتخب بھی ہوجاتے ہیں اور پھر آنے والے سائلین کی تضحیک وتذلیل کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں اگر کوئی پنچائتی فیصلہ آجاتا تو تھوڑی دیر باتیں سُننے کے بعد اگلے ہفتے یا مہینے کی تاریخ دیکر چلے جانے کا کہہ دیتے لوگ چیختے چلاتے رہ جاتے کہ آپ اب جج نہیں بلکہ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور یہ کہ پنچائتی فیصلوں کی تاریخیں نہیں دی جاتیں بلکہ فوری فیصلہ ہوتا ہے مگر افتخاراحمد چیمہ ٹس سے مس نہ ہوتے بلکہ اپنی بات پر اڑ جاتے وہ تو بھلا ہو کہ اپنے اثاثے لکھتے ہوئے بیوی کے اثاثے ظاہرلکھنابھول گئے اِس نالائقی کی حریف امیدوارنے نشاہدہی کردی کیس سپریم کورٹ تک چلا اور آخر کار نااہل ہو کر گھر واپس آئے ۔یہ کیس ذہانت کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے جو جج کی ملازمت کے بعد بھی خودمیںاتنی اہلیت و صلاحیت پیدانہیں کر سکاکہ اثاثے قلمبند کرتے ہوئے کیا کچھ احاطہ تحریر میں لانا ہے وہ کتنا ذہین ہو سکتا ہے؟اورقابلِ غورنکتہ یہ ہے کہ بطور الیکشن ٹربیونل کیسے فیصلے دیتارہا ہو گا؟
پولیس کی ملازمت کے بعددوٹوک باتوں کے دعویدار ذوالفقار چیمہ کو بھی اپنی دیانتداری کے قصے سنانے کا جنون ہے۔ کوئی دینی محفل ہو یاقائدِ اعظم کے کردار پر ہی کیوں نہ بات ہو رہی ہو، اپنا ذکر کرنااور مثال پیش کرنا ہر گز نہیں بھولتے ۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ ملازمت کے دوران ڈھیروں جعلی پولیس مقابلے کرائے اورپھرہر انکوائری میں بے گناہ بھی ٹھہرے۔ وہ جب ڈی آئی جی گوجرانوالہ تھے تو اکثر احمدنگر روڈ پر چارہ،دودھ اور بھوسہ لیجاتی پولیس کی گاڑیاں عام نظر آتیں۔ اِس دوران ڈی پی اوگجرات طاہر عالم خان کے ذریعے وجاہت فورس کے خلاف ایک آپریشن بھی کرایا اور درجنوں غریب مزدورپکڑکر دہشت گردی کے مقدمات بنا دیے ۔بے رحمی اور سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ گرفتار کچھ معذور بھی تھے ،مقدمہ سُنتے ہوئے اسی نُکتے کی طرف جب جسٹس بلال نے اشارہ کیاتوچہرے پرشرمندگی کی رمق تک ظاہر کیے بغیر فرمانے لگے معذور جان کر کسی پر رحم نہ کھائیں بعد میں کچھ عرصہ آئی جی موٹروے بھی رہے۔ لیکن بطور ڈی آئی جی ملی گاڑیاں اور عملہ واپس کرنا کئی برس تک یادنہ رہا اور تمام لائو لشکر پاس ہی رکھا۔حیران کن بات یہ کہ پھر بھی دوٹوک ہونے کا دعویٰ کیا جاتا اور دیانتداری کے قصے سنائے جاتے ہیں جنھیں سُنتے ہوئے ذہن میں یہ خیال آتا ہے جانے بددیانت،متکبر،بے رحم ،سفاک اور بُرے لوگ کیسے ہوتے ہوں گے؟
ڈاکٹر بھی ہو اور محکمہ صحت میں ایک بڑے مرتبے پر فائز بھی،تو عہدوں کی ہوس و طلب میں بے قرار ی باعث ِ تعجب ہوتی ہے۔ افتخار احمد چیمہ کے نااہل ہوتے ہی ڈائریکٹر ہیلتھ گوجرانولہ کے منصب سے سبکدوش ہونے والے ڈاکٹر نثار احمد چیمہ ایک بڑی جماعت کا ٹکٹ لیکر میدان میں آئے اور حکومتی طاقت سے ایم این اے منتخب ہوگئے مگر خاندانی روایت نہیں توڑتے ۔مجال ہے سائلین کی داد رسی کریں اور علاقے کی تعمیر وترقی میںدلچسپی لیں ۔اسی عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں عبرتناک شکست سے دوچارہوئے لیکن عہدے کی ہوس نے اِتنا بے قرار کیا کہ ملک کی ایک انتہائی اہم شخصیت سے کمشنر گوجرانوالہ کو فون کرایا کہ آراوکو کہیں کہ احمدچٹھہ کی جیت میں آئے نتائج بدل کر اُن کی جیت کا اعلان کیاجائے۔ ایسے کچھ فون ہوئے بھی، لیکن نتائج میں تاخیر سے پریشان ہوکر وزیرِ آباد اور قرب و جوار سے ہزاروں لوگ آر اودفتر جمع ہوکر نعرے لگانے لگے۔ اسی دوران ڈاکٹر نثار احمد چیمہ جیت کا نوٹیفکیشن لینے آراودفتر آپہنچتے ہیں جس کی بھنک پڑتے ہی مظاہرین کی طرف سے مخالفانہ نعرے بازی شروع ہوجاتی ہے اور کچھ غصیلے لوگ شکست خوردہ ڈاکٹرنثاراحمد چیمہ کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ لوگوں کے جم ِغفیر سے گھبراکرچند حمایتیوں کی آڑ لیکر موصوف بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو ئے لیکن اب ہر جگہ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انھیں نشست کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انھوں نے خاندانی عزت و وقار کو ترجیح دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جو جیتا ہے اُسے ہی جیت مبارک ہو۔ستر ارب سے بنائی گئی پاکستان کی مہنگی ترین فلم ہماری بات ہو گئی ہے، سے بھی جنھیں کچھ نہیں مل سکا مثالی نظر آنے کا ایسا دوٹوک جنون کٹھوہر کلاں کے چیمہ خاندان میںہے، ویسے بھی جن کا حلقہ سے صرف اِتنا تعلق ہے جتنا گزرنے والی گاڑی کا اسٹیشن سے ہوتا ہے توپھر ایسے امیدوار کوبھلا کیونکر لوگ ووٹ دیتے؟