حکومت کب تک چلے گی!
شیئر کریں
عام انتخابات کے بعد دھاندلی کا جو شور بلند ہوا ہے وہ کم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر شکوک و شبہات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھوملر نے کہا ہے کہ امریکہ 2024 کے الیکشن کے حوالے سے انتخابی بے ضابطگیوں کے کسی بھی دعوے کی مکمل تحقیقات کا خواہاں ہے۔دھاندلی کی شفاف تحقیقات ازبس ضروری ہے۔ دوسری جانب ملک کی 2بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنانے کا ”فارمولا“ طے کر کے اس پر عمل شروع کردیاہے۔ فارمولے کے مطابق شہباز شریف وزیر اعظم اورآصف زرداری صدر مملکت ہوں گے، چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب پی پی پی سے ہوں گے جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کے گورنر (ن) لیگ کے ہوں گے۔حکومتیں بننے کا عمل اب مکمل ہونے جا رہا ہے۔ مرکز میں حکومت بننے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ اب تو صدارتی انتخاب کی تاریخیں بھی سامنے آرہی ہیں اور جس طرح شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے،اسی طرح آصف زرداری کے صدر بننے میں بھی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔ لہٰذا حکومتیں بن رہی ہیں اور انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل مکمل ہو رہا ہے۔ دو ہفتے قبل یہ سب بہت مشکل نظر آرہا تھا۔ تاہم تمام تر اتفاق رائے کے باوجود سب کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔پی ڈی ایم کے تجربے کے باعث بلاول زرداری مسلم لیگ ن کی حمایت سے وزارتیں لینے کے حق میں نہیں۔اسی طرح (ن) لیگ کے اندر بھی پی پی پی سے اتحاد پر گومگوکی کیفیت موجود ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان نظریاتی و سیاسی اور پالیسیوں و منشور پر اختلافات موجود ہیں، لہٰذا مخلوط حکومت غیر مستحکم ہوگی۔ اسے پی ٹی آئی، جے یو آئی و دیگر جماعتوں کی مضبوط اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جن کا پہلا مطالبہ ہی الیکشن کی شفاف تحقیقات ہوگا۔ اس سے کم پر اپوزیشن راضی نہیں ہوگی اور اس سے نمٹنا مخلوط حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا،صورت حال کچھ بھی ہوحقیقت یہ ہے کہ ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے والی دو بڑی پارٹیوں نے نئی حکومت کے لیے اپنے سیاسی مفادات طے کر لیے ہیں جب کہ ان دونوں پارٹیوں سے زیادہ نشستیں جیتنے کی دعویدارپی ٹی آئی دونوں بڑی پارٹیوں کی مخالفت میں الگ رہ کر اپنی وہی سیاست کر رہی ہے جو وہ ماضی سے کرتی آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے دونوں بڑی پارٹیوں کے بجائے چھوٹی پارٹیوں سے قربت بڑھانا شروع کردی ہے جس کی ابتدا پی ٹی آئی نے اپنے شدید ناقد مولانا فضل الرحمن سے مل کر کے کی اور بعد میں اپنے دیگر چھوٹے مخالف رہنماؤں خصوصاً محمود خان اچکزئی کے پاس بھی اپنے رہنما بھیج دیے مگر پیپلز پارٹی کی طرف سے مفاہمتی پیغام کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے سیاسی مخالفت میں کمی نہیں آنے دی اور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت سے صاف انکار کرکے ثابت کر دیا کہ وہ ان تینوں جماعتوں سے مزاحمت جاری رکھیں گے۔ پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے سندھ و پنجاب میں اپنی حکومتیں بنا لی ہیں اورپی ٹی آئی کو وفاقی حکومت کے ساتھ ان وونوں حکومتوں کی بھی سخت اپوزیشن کرنی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے ساتھ الیکشن میں جو ہوا وہ مولانا کے لیے غیر متوقع تھا حالانکہ کے پی میں مولانا کا سمدھی گورنر اور مرضی کی نگراں حکومت تھی۔اپنے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے دوسری بار ہارنا مولانا کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔ کے پی مولانا کا گڑھ ہے جہاں حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی اور اب مولانا پہلی بار اپنے سابق حلیفوں کی حکومت میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ مولانا کے سابق حلیفوں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے بھی جے یو آئی کو اپنی حکومت سازی سے دور رکھا۔ اگر یہ دونوں چاہتے تو مولانا کو موجودہ نظام کا حصہ بنا سکتے تھے۔ بلوچستان میں پی پی، مسلم لیگ اور جے یو آئی کی تقریباً یکساں نشستیں تھیں مگر سیاسی مفاد مقدم رکھا گیا۔ پی پی اور (ن) لیگی قیادت مل کر مولانا کو منا سکتی تھیں اور جے یو آئی کو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ دے کر تینوں پرانے اتحادی اکٹھے چل سکتے تھے۔آصف زرداری اب خود دوبارہ صدر مملکت ہوں گے۔ پنجاب و کے پی کی گورنر شپ بھی انھیں ہی ملے گی اور صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں میں حصہ بھی اور بعد میں وفاقی وزارتوں میں پیپلز پارٹی بھی نمایاں نظر آئے گی۔پنجاب و سندھ میں اکثریت کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے وزیر اعلیٰ آ چکے اگر وفاق میں اقتدار کے حصول کی خواہشمند مسلم لیگ (ن) آصف زرداری کو قائل کر لیتی کہ ہمیں اپنے پرانے اتحادیوں ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمن و دیگر کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پہلے کی طرح پی ٹی آئی کے خلاف متحد رہنا چاہیے تو ایسا ہونے پر ممکن تھا کہ سیاسی کشیدگی کچھ کم ہو جاتی۔
دو ہفتے قبل شور تھا کہ حکومتیں نہیں بنیں گی۔ اب شور ہے کہ یہ جو حکومتیں بن گئی ہیں یہ چلیں گی نہیں۔ ابھی وزیر اعظم نے حلف نہیں اٹھایا لیکن یہ بحث زور شور سے شروع ہوچکی ہے کہ حکومت سنبھلنے سے پہلے ہی چلتی کردی جائے گی، حکومت کب تک چلے گی ہر چوراہے اور ٹھرے پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈیڑھ سال بھی نہیں چلے گا بعض لوگ اسے چند ماہ کا مہمان قرار دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سیٹ اپ دوسال سے بھی کم چلے گا اور کیا واقعی یہ سیٹ اپ اتنا کمزور ہے کہ ڈیڑھ سال میں گر جائے گا۔ اگر گر جائے گا تو گرنے کے کیا محرکات ہوں گے؟ پہلی بات تو یہ بھی ہے کہ لوگ صرف حکومت گرنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ ڈیڑھ سال میں دوبارہ انتخابات کی بات بھی کر رہے ہیں،اور انتخابات کی شفافیت متنازع ہونے کے سبب دوبارہ انتخابات کی باتیں کرنے والوں کو ضرورت سے زیادہ ہی پزیرائی مل رہی ہے۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ صرف مرکزی حکومت کے گرنے کی بات کی جا رہی ہے جب کہ صوبائی حکومتوں کے گرنے کی کوئی بات نہیں کی جارہی ہے۔ جولوگ وفاقی حکومت کو ڈیڑھ سال کی مدت دے رہے ہیں،وہ صوبائی حکومتوں کے مستقبل پر خاموش ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوگا کہ چاروں صوبائی حکومتیں تو اپنی جگہ قائم رہیں گی لیکن وفاقی حکومت گر جائے۔ یہ درست ہے کہ عددی طور پر وفاق میں ایک مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو ایسا کیا فائدہ ہو گا کہ وہ وفاقی حکومت کو گرا دے۔ کیا پیپلزپارٹی ڈیڑھ سال میں ملک میں نئے انتخابات چاہے گی؟ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک بڑا حلقہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان اتحاد یا اشتراک پر خوش نہیں ہے اور اب برملاکہاجارہاہے کہ آصف زرداری نے نون لیگ سے اتحادکر کے پیپلز پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کیلئے قربانی دینے والے پیپلز پارٹی سپورٹر بلکہ چاہنے والے پیپلز پارٹی اورنون لیگ کے درمیان اتحاد کو ہضم نہیں کر پارہے ہیں۔بعض جائزوں اور تبصروں میں تو اس پر بھی بحث ہونا شروع ہوچکی ہے کہ اس کے بعد کیالائحہ عمل اختیار کیا جائے گا، بیشتر جیالے یہ پوچھنے لگے ہیں کہ اس معاہدے کے نتیجے میں پی پی پی دفن تونہیں ہوجائے گی؟ پی پی کے جیالے کہتے یہیں بلاول لاہور میں صرف اس لئے شکست کھا گئے کہ لوگوں کے خیال میں انتخابی مہم چلانے والے لوگ نون لیگ سے ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں ان کو کوئی جانی خطرے کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے! اس لئے انھوں نے پوری قوت اور جارحانہ اندار میں اپنی کمپین نہیں چلائی،آصف زرداری شاید یہ کہاوت بھول گئے تھے کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چاہے آپ کوئی وزارت نہ لیں، لیکن اگر آپ نے صدارت جیسا بڑا عہدہ لے لیا، تو سمجھ لیں آپ اس فراڈ کشتی کے ڈرائیور ہیں۔اب آپ کی پارٹی گورنری لے گی تو پھر باقی کیا رہ گیا آپ کے پاس عوام کو بتانے کے لئے۔
موجودہ غیر یقینی صورت حال پاکستان میں لولی، لنگڑی جمہوریت جس الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آرہی ہے،دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ کامیاب و کامران ہو۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پا رٹی کا اتحاد بے نظیر بھٹو کے ہو تے ہوئے ہوا تھا،اور پیپلز پا رٹی کی حکومت قائم ہو ئی تھی اور مسلم لیگ ن بھی اس حکومت میں شامل ہو ئی تھی لیکن بعدمیں انھوں نے وزارتیں چھوڑ دیں تھیں اور حکومت کا ساتھ تو دیتے رہے تھے،لیکن اس مرتبہ بلاول زرداری نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیاہے،لیکن ساتھ ہی حکومت کا ساتھ دینے کا بھی اقرار کیا ہے۔پیپلز پا رٹی نے واضح پالیسی اپنائی ہے کہ حکومت کو ووٹ دیے جائیں گے اور ان کا ساتھ بھی دیا جائے گا،اور ان کی مخالفت نہیں کی جائے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے لیے ایک الگ جگہ بھی قائم رکھی ہے۔اس صورت حال میں متوقع وزیر اعظم شہباز شریف کے بارے میں یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ کرے شہباز شریف کی حکومت کامیاب ہو اور پنجاب سے نکل کر پورے ملک کے لیے کام کرے اور پورے ملک کی ترقی پر توجہ دے کیونکہ موجودہ حالات میں یہ بہت ضروری ہے۔کیونکہ ماضی میں نواز شریف اور شہباز شریف کی توجہ کامرکز پنجاب رہا ہے، اس کی مثال موٹر وے پراجیکٹ ہے جو کہ اصولی طور پر بندر گاہ سے شروع کی جانی چاہیے تھی، لیکن ملک کے وسط اسلام آباد اور لاہور کے درمیان شروع کی گئی اور اس طرح سے شاید وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے جو کہ ہونے چاہیے تھے۔
انتخابات سے قبل،عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ انتخابات ہوں گے،وہ اپنے ووٹ سے نمائندے منتخب کریں گے تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے،یہی وجہ ہے وہ8 فروری کو کشاں کشاں ووٹ ڈالنے پولنگ ا سٹیشنوں پر گئے،اُن کا جو فرض تھا انھوں نے وہ پورا کیا،اِس کے بعد اُن کی اُمیدیں تو یہی تھیں کہ ووٹ کو عزت دی جائے گی، اُن کا فیصلہ مانا جائے گا۔آگے معاملات اتنے شفاف چلیں گے کہ ملک میں امن چین کی فضا قائم ہو جائے گی اور نئی منتخب حکومتیں ان کو مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں سے بچانے کیلئے اپنا کام شروع کر دیں گی، مگر اس کے برعکس جھگڑے شروع ہو گئے،کہیں فارم45اور کہیں فارم 47 نے رنگ جمانا شروع کر دیا۔اب صورت حال یہ ہے الیکشن کے بعد لوگ ایک ایسے نظام میں ملک کی فلاح ڈھونڈ رہے ہیں،جس پر شکوک و شبہات منڈلا رہے ہیں،دنیا کا دستور اور فطرت کا قاعدہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات میں بہتری آتی ہے،مگر ہم واحد قوم ہیں جس کے معاملات میں بہتری کے بجائے وقت گزرنے کے باوجود بگاڑ آ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا ہم صرف اِس بات کو روتے تھے کہ ہمارے انتخابات شفاف نہیں ہوئے اور پولنگ کے دن طاقت ور امیدوار دھاندلی کراتے ہیں،ووٹروں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔انہیں مختلف طریقوں سے دباؤ ڈال کر اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کر دیتے ہیں اس کا تدارک اس طرح کیا گیا کہ پولنگ ا سٹیشنوں پر پولیس اور فوج تعینات کرنے کا آغاز ہوا۔اس کے بعد یہ سمجھا گیا اب الیکشن شفاف ہوں گے۔ووٹرز بلا خوف و خطر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے،ایسا ہونے بھی لگا،مگر خرابی کی نئی صورتیں سامنے آنے لگیں،گنتی کے وقت شکایات پیدا ہوئیں تو ان کا سد ِباب کرنے کے اقدامات ہوئے۔بات نتیجے تک پہنچی تو معلوم نہ ہوا یہاں بھی گڑ بڑ ہو سکتی ہے،اُس کیلئے آر ٹی ایس جیسے نظام کو لایا گیا،مگر وہ نظام بھی عین وقت پر جواب دے گیا۔ موجودہ صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ انتخابات کے بعد بھی افق پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ملک کو پہلے ہی درپیش سنگین معاشی چیلنج کا سامنا ہے لیکن یہ نظر نہیں آتا کہ نئی حکومت اس صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے جرأت مندانہ اقدامات کرسکے گی کیونکہ قدم قدم پر مجبوریاں مخلوط حکومت کے پاؤں کی زنجیر بنی رہیں گی۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ پی پی پی، (ن) لیگ مخلوط حکومت درحقیقت ایک ”مجبور حکومت“ ہوگی۔