کشمیریوں کی جدوجہد ختم کرنے کا بھارتی دعویٰ
شیئر کریں
ریاض احمد چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مودی کی فسطائی بھارتی حکومت سے سوال کیا ہے کہ اگر کشمیر کا تنازع ختم ہوچکا ہے تو پھر ہزاروں کشمیری غیر قانونی طورپر بھارت کی جیلوں میں کیوں قید ہیں۔جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے ، وہ سب کچھ بلڈوز کرنا چاہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ،خفیہ ایجنسیوں اور آئین کو ہتھیار بنانا چاہتی ہے۔
اگست 2019کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی ابتر ہو گئی ہے۔ جس طرح جموں وکشمیر کے ساتھ سلوک کیا گیا،اسکی خصوصی حیثیت کومنسوخ کیا گیا اور مختلف کالے قوانین نافذ کیے گئے، اورکشمیریوں کوانکی زمینوں، ملازمتوں، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کولوٹا گیا وہ افسوسناک ہے۔ مودی حکومت اب کشمیریوں کے بے گھرکرنے پر تلی ہوئی ہے۔محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ”پہلے کشمیریوں کو دہشت گرد کہا جاتا تھا، پھر منشیات کے عادی اور اب انہیں اپنی ہی زمینوں پر قابض قابض قراردیاجارہا ہے۔ لوگ زمینوں سے بے دخلی کے خلاف عدالت میں جا سکتے ہیں لیکن عدالتوں میں انصاف کیسے ہوتا ہے سب جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدالتیں خوفزدہ ہیں۔ کشمیریوں سے انکی زمینیں اور گھر چھیننے سے شدید خوف پایا جاتا ہے۔ بی جے پی کشمیریوں کی منفردشناخت کو مٹانا چاہتی ہے۔بی جی پی کا واحد مقصد ہے، وہ جموں و کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ، اسی لیے کشمیریوں سے انکی زمینیں اور ملازمتیں چھینی جارہی ہیں۔ آبادی کے تناسب کوبگاڑنے کیلئے غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد کیاجارہا ہے اور انہیں ووٹر لسٹوں میں بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں عارضی طور پر مقیم بھارتی شہریوں کو نام نہاد اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے کر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔انتخابات کے لیے حتمی ووٹر فہرستوں میں جو 25نومبر کو جاری کی جائیں گی، غیر مقامی لوگوں کو کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی متنازع حیثیت ختم ہی اس لیے کی تھی کہ اس کی آڑ میں غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ وادی میںبسا کر کشمیریوں کی آئینی حیثیت ختم کر کے انہیںبنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکے۔پاکستان نے اس وقت بھی دنیا کو خبردار کیاتھا کہ مودی حکومت 5 اگست 2019ء کے غیر آئینی’ غیر قانونی اقدام کو ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے بلکہ یہ عالمی قوانین کے بھی صریحاً خلاف ہے۔دنیا بھارت کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف آج بھی خاموش ہے اور اس کا خمیازہ مقبوضہ ریاست کے اصلی باشندوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے دنیا بھر کے جمہوری ریاستیں اورانسانی حقوق کی تنظیمیں مودی حکومت کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف آواز اٹھائیں اوراقوام متحدہ اپنی قراردادوں کی خلاف ورزی پر بھارتی حکومت کو فوری طور پر غیر کشمیری باشندوں کے نام ووٹر لسٹوں سے خارج کرنے کا انتباہ جاری کرے تاکہ کشمیر عوام کوبھارتی استحصال سے بچایا جا سکے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے 20اضلاع میںبے دخلی کی مہم جاری ہے ۔ یہاں محکمہ مال کے حکام، پولیس اور بلڈوزر کشمیریوں کے گھر اور دیگر عمارتیں منہدم کر رہے ہیںاور غریب کشمیری سوائے احتجاج کے کچھ نہیں کر سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ انسداد تجاوزات کی مہم دراصل مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا عمل ہے تاکہ غیر کشمیری ہندوؤں کو ووٹ اور شہریت سمیت دیگر حقوق دیکر مقبوضہ علاقے میں آباد کیاجاسکے۔ سیاسی قائدین، سماجی شخصیات، صحافیوں اور انسانی کارکنوں کے کارکنوں کے گھروں کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔ ان کو ڈرا دھمکا کر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی جارہی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت میں ایک اور کشمیری نوجوان شہید ہو گیا۔ جنت نظیر وادی کے ضلع پلواما میں قابض بھارتی فوج نے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر کے سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی لی۔بھارتی فوج کے اہلکار چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس گئے، خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جبکہ بزرگوں اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس دوران ایمبولینس کو بھی علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ موبائل فون اور نیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی، بھارتی فوج نے ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کرکے نوجوان کو شہید کردیا۔
کشمیر کی ہٹ دھرم بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ نے ماورائے عدالت قتل کو مقابلہ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھتا تھا اور مسلح تھا۔اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے اس دعوے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور بھارتی فوج کے خلاف نعرے بازی کی، نوجوان کی لاش لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی۔
٭٭٭