شامی بچوں کے دَرد و کراہ کا تھپیڑا
شیئر کریں
شام سے آج کل دل دہلانے والی تصاویر میڈیا کے اندر پھیل رہی ہیں۔ انسانیت کے غم خواروں کے لیے جو کسی عذابِ الٰہی سے کم نہیں ہے۔ بمباری سے کراہتے و جان دیتے بچوں کی تصاویر ہر انسان کے سامنے رقصاں ہیں۔ اِن تصاویر و فلموں کو دیکھ کر دل بے چین اور خون کے آنسو رو رہا ہے۔ بسا اوقات کسی کمزور دل انسان کے لیے ڈپریشن کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ مسلم امت کا لہو بہہ رہا ہے؟ ’’مسلم‘‘ جس کے نام میں ایک وحدت ہے، جو کسی قوم، نسل، رنگ یا مسلک کا خواست گار نہیں ہے، کیوں اتنے بودے ہوگئے ہیں کہ جسے کفِ افسوس مَلنے کے سوا کچھ کرنے کے لیے بچا نہیں ہے؟ اللہ ربّ العالمین کے سامنے دست بدعا ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے دعاؤں کو ہمارے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر انتشار کی کیفیت ایسی ہے کہ جہاں کسی پرائے سے کوئی سوال کرنے کا جواز نہیں ہے۔ مرنے والا مسلمان، وہیں مارنے والا بھی مسلمان۔ پرائے دور سے ہمارے گرم لہو کی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔ اْن کے ہاں اگر کوئی معمولی واقعہ پیش آتا ہے تو پورا عالم اْن کی خبر گیری کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ یہاں اگر کوئی واقع پیش آئے تو سکوت طاری ہو جاتا ہے، جسم کی حرارت کم ہوتی ہے اور پھر سے اپنی حرارت قائم رکھنے کے لیے نئی نئی سبیلیں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے امت مسلمہ کو جس مقام پر اْن کے ہادی اعظم نے چھوڑا تھا، وہ وہاں سے اس طرح آج گر پڑی ہے کہ اْنہیں نہ اپنے وجود کی خبر ہے اور نہ ہی اْس ستم کی جس کے وہ شکار ہو رہے ہیں۔
خلفاء راشدین کے عہد کے بعد جب عدل و انصاف کی جگہ ظلم و تشدد نے لے لی، جب جابر حکمرانی کا دور دورہ شروع ہوگیا، بھر رفتہ رفتہ جب اتحاد و اتفاق کی جگہ انتشار و اختلافات نے لے لی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام بھی چھوڑ دیا گیا، تو عذاب کے اْس کوڑے کو نازل ہونے سے کون روک سکتا ہے، جس میں نیک و بد، سب لوگ بحیثیت مجموعی ذلت و پستی میں جاگرتے ہیں۔ دوسری طرف جب دنیاوی علوم کو غیروں کے حوالے کیا گیا، سائنس و سیاست کی سیادت کرنے میں عار محسوس کی گئی اور مساجد و خانقاہی زندگیوں ہی کو دنیا کی امامت کا واحد طریقہ کار سمجھا گیا، وہاں پر کسی صاحبِ ایمان باللہ کا بچنا لازمی طور پر محال ہے۔ مجموعی طور پر یہی کچھ وجوہ ہیں جن سے امتِ مسلہ آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے، جسے بجا طور پر ہمارے غم خوار نے ’’کاٹ کھانے والی ملوکیت‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ سمجھنے کے لائق یہ مقام ہے کہ پچھلی ایک صدی میں، خاص کر خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد جب یہ ظلم و ستم کا دور امت مسلمہ پر آن پڑا، تو اْن مسلم ممالک کے حکمرانوں کی عقل بھی جاتی چلی گئی جن کے پاس معاش و دفاع کے سب سے اعلیٰ ذخائز موجود تھے۔ 1920ء تک اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو سنبھلنے کا بھر پور موقع فراہم کیا، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اور آج حال یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ محفوظ تو دور کی بات ہے، اپنے ہی گھر کے لوگ باقیوں کو اپنا گھر تباہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ ہے اصل صورت حال، جس کا اگر کسی کو عین الیقین کے طور پر مطالعہ کرنا ہے تو مشرق وسطیٰ کو دیکھے۔ یہ وہی علاقے ہیں جو کسی زمانے میں علم و عرفان کے مرکز تھے، جہاں پر اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں نے جنم لیا ہے اور وہاں پر اللہ کی دعوت کا کام بھی کیا ہے۔ لیکن خلافت عثمانیہ، کمزرو ہی سہی لیکن مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار تھی کے زوال پزیر ہونے کے بعد اس دنیا کی باگ ڈور یورپ کے ہاتھ آگئی۔ براہ راست جبر و ستم اور قبضہ کے بعد یہاں سے انہوں نے مال و دولت کے انبار اپنے ملکوں کو درآمد کیے۔ لاکھوں انسانوں کو مارا، جنگ و جدل کا بازار گرم کیا اور آخر میں جب روشن خیالی کی آڑلے کر اِن ملکوں سے رخصت اختیار کی تو یہاں کی زمین اور یہاں کے مسلمانوں کو ایسے بکھیر کر چھوڑا کہ آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے مسئلے کی اصل اور بنیادی وجہ کیا ہے اور ہم کس پر لڑ رہے ہیں اور کس سے لڑ رہے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، برصغیر ہی پر اگر ایک سرسری نظر دوڑائی جائے۔ مشرق سے بنگلا دیش (مشرقی پاکستان)، اْسی طرف سے آج کی سب سے زیادہ مقہور و مظلوم قوم روہنگیا مسلمان اور اِدھر سے پاکستان، کس نے اِن کی وحدت کو توڑا؟ کس نے اْن کو ایک دوسرے سے لڑایا؟ کس نے اْن کو ایک لامتناہی رسا کشی کے عالم میں دھکیل دیا؟ روہنگیا مسلمان کیوں در در کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں؟ یہ اْسی شاطر قوم کا کارنامہ ہے، جو آج امن و چین اور ترقی و روشن خیالی کی موجد سمجھی جاتی ہے۔ یہاں سے نکلنے کے بعد اْس ’’روشن خیال و آزادی پسند‘‘ قوم کو معلوم تھا کہ اگر یہ لوگ جاگ گئے، تو پورے دنیا کو مسخر کریں گے، اس لیے انہیں اس طرح کسی رسا کشی میں ڈال دینا ہے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد ہمارے مقاصد کی تکمیل ہوتی رہے۔
شام ہو یا عراق، یمن ہو یا سعودی عرب، لبنان ہو یا کویت اسی طرح تیونس ہو یا مصر، مشرق وسطیٰ کے مذکورہ ممالک میں آج جو یہ شورش اپنی انتہا کو چھو رہی ہے، یہ سب ممالک ایک وقت میں ایک ہی مملکت کے حصے تھے۔ لیکن جب سامراج کا قبضہ ہوا، اور لوٹ کھسوٹ کے بعد جب یہاں سے نکلنا پڑا تو وہی ترکیب استعمال کی گئی جس کا اوپر خلاصہ پیش کیا گیا۔ جغرافیائی لحاظ سے اس طرح تقسیم کی گئی کہ ایک پارٹی دوسرے سے تب سے لڑتی چلی آرہی ہے۔ لسانی و مسلکی اعتبار کو اس طرح مدِ نظر رکھا گیا کہ کوئی کسی کا دوست نہ ہو پایا۔ اصل مسئلے کی بنیاد یہی ہے اور بد قسمتی سے توحید کی بنیاد کے کو پسِ پشت ڈال کر مسلمانوں نے بھی انہی بنیادوں کو اختیار کیا۔ یہ ہے وہ چال جسے مسلمان آج تک یا تو سمجھ ہی نہیں رہے ہیں یا تو اپنے حقیر مفادوں کی خاطر نظر انداز کر رہے ہیں۔
یہ ہے وہ بیماری جس کی تشخیص تو ہو رہی ہے لیکن علاج سطحی کیا جارہا ہے۔ سطحی علاج کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ کچھ دن بیماری غائب رہنے کے بعد یہ پھر سے اْٹھتی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج شام کے یہ معصوم بچے اپنے گرم لہو سے اور اپنے نومولود اجسام سے انسانیت کے غم خواروں کو صدا دے رہے ہیں کہ آخر اْن کی کیا خطا ہے جو اْن کا زندہ ممنوع سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج سے کچھ ہفتے پہلے فلسطین کی غیور بیٹیاں مسلمانوں سے یہ آس لگا رہی تھیں کہ اْنہیں اسرائیل کے ظلم و چنگل سے بچایا لیا جائے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج سے کچھ مہینے پہلے روہنگیا مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی سزا سہتے سہتے پوری دنیائے انسایت سے کہہ رہے تھے کہ آخر اْن کا یہ کیسا گناہ ہے جو انہیں ایسی ستم ظریفی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی رْو سے اہل جموں وکشمیر آئے روز اپنے جوانوں کے ابھرتے لہو سے دنیا سے پوچھ رہے ہیں کہ اْن کا گناہ کیا ہے۔ یہی حالات پوری امت مسلمہ کو اِس وقت درپیش ہیں۔شام کے اِن بچوں کی درد ناک آہیںآنے والے وقت میں کبھی اور سننی ہوں گی۔ روہنگیا مسلمانوں کے حق میں احتجاج تو ہم لوگوں نے وقتی طور پر ادا کر لیا، لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ زندہ ہے، جسے پھر سے اْبھر ہی جاناہے۔ فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے، کشمیر میں بھارت کی شورش پھر سے اپنے عروج کو پہنچ رہی ہے۔ لیکن آہ! امت مسلمہ اس صورتحال کو دیکھ کر وقتی طور پر آہ وزار ی تو کر رہی ہے، لیکن کسی طویل مدتی حکمت عملی کو اختیار کرنے سے قاصر ہے۔ (تجزیہ)