میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سابق فوجی صدر ”مفرور“ پرویز مشرف ٹی وی تجزیہ کار بن گئے

سابق فوجی صدر ”مفرور“ پرویز مشرف ٹی وی تجزیہ کار بن گئے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے سابق فوجی صدر( ر) جنرل پرویز مشرف نے پاکستانیوں کو اپنے بلند پایہ افکارِ عالیہ سے مستفید کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے تجزیہ کار بن گئے ہیں۔
نجی چینل نے اتوار کی شب ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام نشر کرنا شروع کیا ہے جس کا نام ” سب سے پہلے پاکستان پرویز مشرف کے ساتھ“ ہے۔اس میں وہ پاکستان سے ایک ٹی وی اینکر کے سوالوں کے دبئی سے جواب دیتے ہیں جہاں وہ ملک سے علاج کے نام پر فرار ہوکر خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے میڈیا نیٹ ورک کا دعویٰ کرنے والے ٹی وی چینل کے فیس ب±ک صفحے پر پوسٹ کیے گئے پرومو میں پرویز مشرف کو بڑا تقدس مآب بنا کر پیش کیا گیا ہے اور ان کی ذات شریف میں وہ خوبیاں بھی گنوائی گئی ہیں جو ان کے موجودہ کردار سے کوئی لگا نہیں کھاتی ہیں۔انھیں بہادر ،دلیر اور نڈر قرار دیا گیا ہے لیکن وہ پاکستان میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے کے بجائے دبئی میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نواز حکومت نے مارچ 2016ءمیں پرویز مشرف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی اور اس نے یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ان کے بیرون ملک جانے پر عاید پابندی ختم کیے جانے کے بعد کیا تھا۔
سابق آرمی چیف اور فوجی صدر کے خلاف 2007ءمیں ملکی آئین کو معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے پر سنگین بغاوت کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ان کے خلاف لال مسجد آپریشن اور بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ اور گورنر نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی کارروائی میں ہلاکت پر مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے پرویز مشرف کو آٹھ دسمبر 2016ءکو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو زیر حراست رکھنے کے کیس میں پیش ہونے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔عدالت نے خبردار کیا تھا کہ اگر سابق فوجی حکمراں عدالت میں پیش نہ ہوئے تو انھیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔اس ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے اسی کیس میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
ان کی اس نئی سرگرمی کے حوالے سے ناظرین نے دلچسپ تبصرے کیے ہیں۔ایک شخص نے لکھا ہے کہ ” سب سے پہلے پاکستان کا یہ تقاضا ہے کہ پرویز مشرف ملکی آئین کا احترام کریں اور ایک قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وطن واپس آکر اپنے خلاف کیسوں کا عدالتوں میں سامنا کریں“۔
ایک اورشہری نے لکھاہے کہ”اس طرح کے پروگرام کے ذریعے پرویز مشرف کو تقدس مآب بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ انھوں نے ماضی میں جو غلطیاں کیں اور ملک کو جو نقصان پہنچایا،قوم اس کو بھول جائے اور انھیں ایک اور مقدس شخصیت کے طور پر قبول کر لے“۔بعض ناظرین نے ان کے حق میں بھی لکھا ہے اور انھیں ملک کا ایک بہتر حکمراں قرار دیا ہے لیکن زیادہ تر نے ان کے خلاف ہی لکھا ہے اور انھیں پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے سے جاری دہشت گردی کی لہر ،بم دھماکوں ،تباہ کاریوں اور گوناگوں مسائل کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
بھارت میں ایک بیس سالہ لڑکی گر مہر کور کو کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ کو کالجوں میں مبینہ طور پر تشدد کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔بھارت میں کئی حلقوں کی جانب سے کور پر اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ اس نے بی جے پی کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ( اے بی وی پی) پر تنقید کے علاوہ اپنے مرحوم والد کے حوالے سے کہا تھا، ” میرے والد کو پاکستان نے نہیں، جنگ نے جان سے مارا تھا۔“ کور کے والد بھارتی فوج میں کپتان تھے اور 1999 میں کارگل جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ کور کے اس پیغام کو شدید تنقید کا سامنا رہا۔ یہاں تک کے عالمی شہرت یافتہ بھارتی کرکٹر ورندر سہواگ نے اپنے ٹوئٹر اکاو¿نٹ پر لکھا،” میں نے تین مرتبہ سنچری نہیں بنائی بلکہ میرے بلے نے بنائی ہے۔“ سہواگ کی یہ ٹوئٹر پوسٹ بھارت کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور کئی افراد نے اس بیس سالہ لڑکی کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
پرویز مشرف کا دور حکومت اور غلطیاں
(جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت کے اختتام پر جرمن ریڈیو سے منسلک صحافی تھوماس بیرتھ لائن نے ان کی پالیسیوں ،اچھائیوں اور غلطیوں پر ایک تبصرہ پیش کیا تھا ،ماضی کے اوراق سے یہ تجزیہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے)
پرویز شرف نے ،چاہے خاصی دیر کے بعد سہی ، یہ تسلیم کر لیا کہ قصہّ ختم ہو چکا ہے۔انکے دوراقتدارکے آخر میں تو نہ ا±ن کی اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمان ،نہ فوج جس کے وہ دس سال تک سربراہ رہے، اور نہ ہی واشنگٹن میں ا±ن کے برسوں کے اتحادی بش اور ڈک چینی ا±ن کی مزید حمایت پر تیار تھے۔ پاکستانی عوام پہلے ہی ا±ن سے سخت بیزار تھے۔ رائے عامہ کے آخری سروے کے مطابق اسیّ فیصد ا±ن کے استعفے کے حق میں تھے۔
مشرف نے تقریبا دس سال تک کامیابی سے جوڑ توڑ کی اور سیاسی طاقت آزمائی کے کھیل میں اچھی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا شاہکار گیارہ ستمبر کے بعد مغربی دنیا کے سامنے خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ناقابل گریز اتحاّدی کی حیثیت سے پیش کرنا تھا۔
پاکستان میں بھی ،جہاں بہت سوں نے ا±ن کی فوجی بغاوت پر خوشی منائی تھی ، وہ ایک لمبے عرصے تک مقبول رہے۔ خاص طور پر ملک کے آزاد خیال، سیکولر متوسط اور اعلی طبقوں نے ا±نہیں ایک اعتدال پسند مصلح سمجھا جس نے انتہا پسند ی کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ پاکستان کی طاقتور فوج نے بھی جنرل مشرف کے لمبے دور حکمرانی میں ، خاص طور پر مالی لحاظ سے بہت فائدہ حاصل کیا۔لیکن مارچ 2007 کے بعد ا±ن کا سیاسی کھیل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا اوریہ مسلسل زیادہ واضح ہوتا گیا کہ پرویز مشرف کا ایک اپنا سیاسی پروگرام تھا۔ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کے زیادہ خودمختار ہونے اور قانونی اصولوں پر زور دینے پر ا±نہیں برطرف کر دیا۔ پرویز مشرف کے اس اقدام پر نہ صرف ججوں اور وکلاءبلکہ ذرائع ابلاغ ،سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور لاکھوں افراد نے افتخار چودھری کی حمایت کی۔ ا±نہوں نے مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے استعفے دینے اور فروری میں آزادانہ انتخابات کرانے پر مجبور کیا۔
ان کا استعفے ایک تاریخی نوعیت کا واقعہ ہے جب پاکستان کی جمہوری جماعتوں نے ایک ڈرامائی فتح حاصل کی ۔ پاکستان کا آئین اس سلسلے میں تضاد رکھتا ہے،ایک طرف تو پارلیمنٹ کو مو¿اخذے کی کارروائی کے ذریعہ صدر کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار حاصل ہے اور دوسری طرف صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو توڑ سکتا ہے۔ لیکن مشرف اس قدر تنہا رہ گئے تھے کہ ا±نہوں نے اس سے بھی فائدہ نہیں ا±ٹھایا۔
ا±نہوں نے میڈیا کو ایک یکتا نوعیت کی آزادی دی، معاشرہ جدید بنتا گیا، مشرف پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ امن عمل کے نام پر بھارت میں پاکستان سے زیادہ مقبول رہے لیکن مشرف کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خفیہ اداروں نے سینکڑوں پاکستانیوں کو غائب کرا دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی مشرف کے سیاسی دور کے تابوت میں ایک کیل سمجھی جاتی ہے۔شمالی علاقہ جات پرفضائی بمباری کرائی، لیکن بار بار یہ تاثر بھی پیدا ہواکہ یہی خفیہ ادارے داخلی سیاسی فائدوں کے لئے عسکریت پسندوں کو شہ بھی دے رہے تھے۔ اکثر پاکستانیوں کا خیال تھا کہ عسکریت پسند طالبان اور عوام شہید کئے جا رہے ہیں اور یہ امریکا کے اشارے پر ہو رہا ہے۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت کا اختتام دہشت گردی کے خلاف جنگ ، معیشت کی بدحالی ،ڈاکٹر قدیرکے قید کا معاملہ،عدلیہ کو لگائی گئی ضرب اوروکلا اور میڈیا کے حقوق کی پامالی ٹھہرا جس پر سول سوسائٹی کا اصولی ردعمل سامنے آیا اور مشرف کو کرسی¿ اقتدار کی جان چھوڑنی پڑی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں