میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی میں گیس بحران کاسبب صنعتوں میں لگائے گئے کمپریسر نکلے

کراچی میں گیس بحران کاسبب صنعتوں میں لگائے گئے کمپریسر نکلے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲ فروری ۲۰۲۳

شیئر کریں

ؔ
سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں سندھ میں گیس پریشر کی کمی،صنعتوں کی جانب سے بڑے کمپریسر لگائے جانے کا انکشاف ہوا ۔ جمعرات کو سینیٹر عبدالقادر کی صدارت میں قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس ہوا جس میں سوئی سدرن نے کراچی سمیت سندھ میں گیس کی عدم فراہمی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔سوئی سدرن حکام نے سندھ میں گیس کمی کی صورتحال پر بریفنگ دی کہ کمپنی کو گیس کمی کا سامنا ہواتو کارخانوں کو بھی گیس نہیں مل رہی تھی، گیس کی کمی کے باعث کارخانوں نے کمپریسر استعمال کیے۔ حکام نے کہاکہ کمپریسر کے استعمال کی وجہ سے دیگر صارفین کیلئے پریشر بہت کم ہوا،کمپنی کوعلم ہوا تو کاروائی کی اور 278کے قریب کنکشن کاٹ دیے گئے۔ حکام ایس ایس جی سی نے کہاکہ جنوری 2022 میں 179 غیر قانونی بوسٹر تھے۔ حکام نے بتایاکہ فروری 2022 میں 99 غیر قانونی بوسٹرز لگائے گئے تھے، گیس پریشر میں کمی کیحوالے سیمختلف اقدامات اٹھائے گئے ،سردیوں میں سوئی سدرن کو 300 ایم ایم سی ایف ڈی سے زائد کا شارٹ فال کا سامنا ہوتا ہے۔ حکام نے کہاکہ سندھ سمیت پورے ملک میں گیس پریشر کو مانیٹر کیا جاتا ہے، گزشتہ سال جنوری میں کراچی میں 278کیپٹو پاور نے بڑے کمپریسرز لگائے۔ حکام سوئی سدرن نے کہاکہ کمپریسر کے باعث تقریبا 304ایم ایم سی ایف ڈی گیس پریشر کم ہوا ۔ سینیٹر فدا محمد نے کہاکہ ملک میں ایک دن میں 35روپے لیٹر پیٹرول بڑھا دیا جاتا ہے ،ایک سال ہوگیا گیس چوری میں ملوث افراد کیخلاف ایکشن نہیں ہوا ۔ حکام سوئی سدرن نے کہاکہ بلوچستان سردیوں میں 75ایم ایم سی ایف ڈی گیس دے رہے ہیں، حب کو 25ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جاتی ہے۔ حکام نے بتایاکہ بلوچستان میں 52 ایم ایم سی ایف ڈی گیس چوری ہو رہی ہے ،بلوچستان میں گیس کا بل صرف دس فیصد ادا ہوتا ہے یہ بڑا معاملہ ہے۔ اجلاس کے دور ان حکام پی ایس او نے بتایاکہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے ساتھ خام تیل منگوانے کا معاہدہ 2015 میں ختم ہوا، اْس وقت پیٹرول کا بڑا بحران آیا جس کے بعد معاہدہ ختم کیا۔حکام کے مطابق اس وقت ملک میں پیٹرول بحران کے بعد پی ایس او کے بہت سے افسران پر نیب کیسز بنے۔ چیئر مین اوگرا نے کہاکہ ملک سے گارگوز کے کرایوں کی مد میں 8 ارب ڈالر چلے گئے،جب پیٹرول ڈیزل کی قیمت طے ہوتی ہے تو یہ چارجز عوام پر منتقل ہوتے ہیں۔ حکام پی این ایس سی نے کہاکہ اگر ہم خام تیل کے جہاز لائینگے تو پورٹ چارجز کم ہونگے، اگر دوسری کمپنیوں کا جہاز پورٹ پر دس دن ٹھہرتا ہے تو دس لاکھ ڈالر اضافی چارجز دینے پڑتے ہیں۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ ملک میں ڈالر باہر جانے سے روکنا ہے تو پی این ایس سی کو بزنس دیا جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں