میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
معاشی تباہی کی بنیاد

معاشی تباہی کی بنیاد

ویب ڈیسک
بدھ, ۲ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

سینیٹ سے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے قانون کی منظوری کے دوران حکومت اور اپوزیشن کاا یک پیج پر نظر آنا باعث حیرت نہیں کیونکہ دائو کی تاک میں رہنے والی ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی کہہ مکرنیوں کی طویل تاریخ رکھتی ہیں یہ جو کہتی ہیں عمل کے دوران اُلٹ فیصلہ کرنے سے نہیں ہچکچاتیں اسی بنا پر ساکھ سے محروم ہوتی جارہی ہیں یہ جماعتیں جرم کے باوجود ویسے کمال مہارت سے معصوم نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں مگر سچ بھلا کب پوشیدہ رہتا ہے اسی لیے جب لوگوں پر حقیقت آشکار ہوتی ہے تو یہ سیاسی جماعتیں پاکدامنی ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن انتخابات کے نتائج گواہی دیتے ہیں کہ عوام نے پاک دامنی کے دعووئوں پر یقین نہیں کیا ووٹنگ کے بعدجمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے ایوان میں اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے جسے بعد میں زبان لڑکھڑانے کا پیراہن پہنانے کی کوشش کی گئی مگر سچ یہی ہے کہ ملکی مفاد کا تحفظ کرنے میں نہ صرف اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے بلکہ حکومت اور ملک کو بھی شکست ہوئی ہے اور آج ملک معاشی طور پر صحیح معنوں میں غیروں کا محتاج ہو گیا ہے سیاسی قیادت تسلیم کرے یا انکاری ہو اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے سے نہ صرف پاکستان کا ڈالرکو کنٹرول کرنے کا ختیار ختم ہو گیا ہے بلکہ ملک مالیاتی آزادی سے بھی محروم ہو گیا ہے اب کوئی بھی مالیاتی اِدارہ جب چاہے قرض کے عوض ملک کواپنی معاشی و خارجی سمت تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا قانون ابھی منظوری کے مراحل میں تھا کہ مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں پرنئے انٹرنیشنل فنانشل رپورٹنگ سٹینڈرڈ (IFRS.9)کا نفاز کردیا جس سے ایک طرف وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک سے مرضی کے مطابق اب نیا قرض نہیں لے سکتی بلکہ ساتھ ہی ملک کے دیگر کمرشل بینکوں کو بھی سرکاری قرضوں کے ضمن میں ممکنہ ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد دینے سے منع کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے اِس ہدایت سے کئی عشروں سے قائم یہ تصور ختم ہو گیا ہے کہ وفاقی حکومت اندرونی قرضوں میں کبھی ڈیفالٹ نہیں کر سکتی نئی ہدایت سے قرضوں میں متوقع خسارے پر وفاقی حکومت کی طرف سے دی جانے والی ضمانتوں یا خود اِس کی طرف سے لیے گئے قرضوں پر استثنٰی ختم کر دیا گیا ہے نئی صورتحال سے اگر ملک کے لیے ڈیفالٹ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو کوئی بینک مدد کو نہیں آئے گا بلکہ مجبوراََکسی عالمی مالیاتی اِدارے سے ہی رجوع کرنا پڑے گانئے قانون کی منظوری سے اب کسی وقت بھی ملک کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے خطرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ قرضوں میں ڈوبے ملک کی قیادت نے نئے قوانین سے مالیاتی خودکشی نہیں کرلی؟اگرجواب ہاں میں ہے تو مالیاتی خودکشی کے جرم کا زمہ دار کون ہے ہر سیاسی جماعت اِس جرم میں برابر کی شریکِ کار نہیں رہی ؟ اور کوئی بھی اِس جرم سے انکاری ہے ؟ ملک کی ہر جماعت نے پوری کوشش کی ہے کہ ملک مالیاتی خود کشی کے گڑھے میں گرنے سے بچ نہ سکے۔
حکمرانوں نے ایک ارب ڈالر کی قسط لیتے ہوئے آئی ایم ایف سے وعدہ کررکھا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق قوانین بنائے گی اِس لیے موجودہ قوانین کی منظوری میں اُس کا مرکزی کردار ہے مگر پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت پارلیمان میں موجودساری جماعتوں کو کیا ہوا جو ملکی مسائل کے تدارک کے نقطے پر توکبھی اکٹھی نہیں ہوتیں لیکن آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاآوری پرکیونکر سبھی متفق ہو گئیں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وطنِ عزیز کی سیاسی قیادت اغیار کے احکامات تسلیم کرنے کو ہی سیاست سمجھتی ہے اسی لیے ایک دوسرے کی بدترین ناقد جماعتیں بھی ملک سے معاشی آزادی ختم کرانے کے عمل میں شریکِ کاررہیں وگرنہ سینٹ میں اقلیت میں ہونے کی بنا پر اکیلی حکومت تو یہ بل پاس ہی نہیں کر سکتی تھی اور بل کی منظوری اپوزیشن کو ساتھ ملائے ہی ممکن تھی ساتھ دینے کی یہ چال اراکین کی اجلاس میں عدم شرکت کی صورت میں تلاش کی گئی دنیا کے کمزور ممالک بھی اپنی معاشی شہ رگ کوہر صورت آز اد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت نے ملکی مفادکے تحفظ کی ادائیگی کے فرائض ادا کرنے کی بجائے اغیار کے مفاد کی نگہبانی کی ۔
یہ جو رضا باقر گورنر اسٹیٹ بینک ہیں عیاں حقیقت یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف جیسے اِدارے کا حصہ ہیں جنھوں نے اپنے اِدارے کے کہنے پر مصر کی معیشت تباہ کی اسی ہُنرکی بناپر اُنھیں عالمی مالیاتی اِدارے نے پاکستان کے مرکزی بینک کی گورنری کے لیے نامزد کیا اب مصر کی طرح موصوف پاکستان کو بھی عالمی مالیاتی اِداروں کا غلام بنانا چاہتے ہیں ملک کو حالیہ بل کی صورت میں تازیانہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے بعد ملک معاشی طور پر غلام بن کررہ جائے گا عین ممکن ہے اگر کبھی قرضوں سے ڈیفالٹ کی صورت پیش آئے تو پاکستان سے ایٹمی پروگرام سے دستکش ہونے کا مطالبہ منوالیا جائے ۔
سینیٹ میں اپوزیشن کے کردارپر اُٹھنے والے سوال بے وزن نہیں کیونکہ وہ اکثر ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ حکومت نے ملک کو عالمی مالیاتی اِداروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے لیکن جب اُسے کردار کا موقع ملتا ہے تو وہ بھی ماہرانہ چالوں سے حکومت کو بل پاس کرانے کے لیے اپنا کندھا پیش کردیتی ہے اب وہ کیسے طرح طرح کے بیانیے سے ثابت کر سکے گی کہ حکمران ملک کی بجائے مغربی مالیا تی اِداروں سے مخلص ہیں نیز وہ کیسے زبانی گرج برس کر کہہ سکے گی کہ وہ حکومتی اِرادوں کو ناکام بنانا چاہتی ہے کیونکہ جب موقع ملا تو اُس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔
شاہ محمود قریشی جیسے لوگ سینٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف یوسف رضا گیلانی کی حمایت پر تحسین کرتے ہیں ایسے ہی الزامات پر انھوں نے بطور قائدِ حزبِ اختلاف مستعفی ہونے کا اعلان کیا اوراپنا دامن پاک ثابت کرنے کی کوشش کی بلاول بھٹو نے استعفٰی قبول کرنے سے تو انکار کر دیا ہے لیکن یہ سوال نہیں پوچھ سکے کہ اِ تنے اہم اجلاس سے یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے آٹھ اراکین کیوں غیر حاضر ہو گئے ؟ جب حکومتی رُکن سخت علالت کے باوجود اکسیجن سلنڈر کے ساتھ بھی ایوان میں حاضر ہوگئی اِس میں کیا مصلحت تھی ؟جب یہ سب پر عیاں تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے معاشی ارسطو بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور نئے قرضوں کے عوض ملکی سلامتی کے منافی شرائط تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار ہیں تو اپوزیشن رکاوٹ کیوں نہ بنی؟ اٹھارویں ترمیم سے قومی وحدت پر کاری ضرب لگائی گئی اب مالیاتی شعبہ غیروں کے سُپرد کرنے کے حوالے سے ملک کی سیاسی قیادت ایک نظر آئی یہ ایسا کاری وار ہے جس سے ملک معاشی استحکام کی منزل سے ہمشہ کے لیے ہٹ جائے گا افسوس اِس کے لیے کسی ایک کو زمہ داربھی نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ پارلیمان میں موجود ہر جماعت اِس جرم میں برابر کی شریک ہے یہ تباہی کی ایسی بنیادہے جس کے بعد معاشی استحکام کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں