میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نوازشریف کی پارٹی صدارت کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار

نوازشریف کی پارٹی صدارت کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار

منتظم
منگل, ۲ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر ٗ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں، جبکہ چیف جسٹس ٗجسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کاسب سے بڑا ادارہ ہے۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کے خلاف دائر عمران خان ٗ شیخ رشید سمیت 13درخواستوں کی سماعت کی ۔سماعت شروع ہوئی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپیل کی کہ عدالت فریقین کونوٹس جاری کرے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور آپ اس کے بنائے قوانین کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کررہے ہیں ٗہمیں قانون کے مطابق چلنا ہے،عدالتوں کو اتنا آسان نہ لیں، نوٹس کا کیس بنائیں گے تو نوٹس بھی کریں گے ٗبتائیں کن مقدمات میں آج تک عدالتوں نے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کو کالعدم کیا، وکلاء عدالتی فیصلوں کی نظیریں پیش کریں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون بنانے کے لیے پارلیمان سپریم ادارہ ہے ٗہم پارلیمان کے قانون بنانے کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتے ٗبنیادی حقوق اور عوامی مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ٗپارلیمان کے قانون کا جائزہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہو، ہمیں مقدمے میں آئینی شقوں سے متصادم معاملات کو دیکھنا ہے۔عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں پاناما فیصلے میں جسٹس اعجاز الاحسن کی آبزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایماندار آدمی کی مجھ پر حکومت میرا بنیادی حق ہے، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی ممبران کو ٹکٹ جاری کرے گا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پارٹی سربراہ ہی پارلیمان میں موجود ممبران کو کنٹرول کرتا ہے اور پارٹی سربراہ کا صادق اورامین ہونا ضروری ہے۔چیف جسٹس نے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ ہم نااہلی کا لفظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں ٗ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں اگر کسی شخص کی پارلیمنٹ سے رکنیت ختم ہو جائے تو گورننس کا حقدار نہیں ٗآپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے ٗجسٹس اعجاز الاحسن نے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ پارٹی سربراہ کے سرٹیفکیٹ پر رکن اسمبلی نکالا جا سکتا ہے ٗ پارٹی سربراہی کے تحت حاصل اختیارات سے متعلق مزید بتائیں جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کا پارٹی سربراہ بننا ان کا ذاتی مقدمہ ہے، لیکن جو شخص رکن اسمبلی نہ بن سکے لیکن وہ پارٹی کنٹرول کرے تو ایسا اصولوں کے خلاف ہو گا۔ نواز شریف کا پارٹی سربراہ بننا باز محمد کاکڑ کیس میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ باز محمد کاکڑ کیس میں عدالتی حکم کو ختم کرنے کیلیے قانون سازی کی گئی۔دوران سماعت نیشنل پارٹی کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کی سپریم باڈی ہے اور آپ کہتے ہیں پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج تک سپریم کورٹ نے کتنے قوانین کو کالعدم قرار دیا ٗقوانین کالعدم قرار دینے والے عدالتی فیصلوں کی نظیر بتائیں جس پر ایڈووکیٹ حشمت حبیب نے کہا کہ عدالتی نظیریں پیش کرنے کیلیے وقت دیا جائے۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ رات شہر سے باہر تھا اس لیے تیاری کیلیے وقت دیا جائے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کو آسان نہ لیں ٗ کیس مقرر تھا آپ کو تیاری کر کے آنا چاہیے تھا، بغیر تیاری کے کیس میں دلائل دینا بڑے وکیل کے شایان شان نہیں ٗہم نے سختی کے ساتھ قانون پر عمل کرنا ہے اور مقدمے کو آج ہی دوبارہ اس کے نمبر پر سنیں گے۔ دوران سماعت بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ سینیٹ نے اس قانون کے خلاف 52ووٹ سے قرارداد منظور کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا ہے تو پارلیمنٹ خود اس قانون کو کالعدم قرار نہیں دے دیتی؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فروغ نسیم صاحب اس قانون کا تاریخی پس منظر بتائیں؟ 2017میں یہ قانون تمام جماعتوں کے ووٹوں سے پاس ہوا۔بیرسٹر فروغ نسیم کے دلائل کے بعد چیف جسٹس نے مختصر حکم لکھواتے ہوئے درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر سماعت کیلیے منظور کرلیں اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف اورالیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کو 23 جنوری کے لیے نوٹس جاری کردیئے۔یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرایا جس کے تحت عدالت سے نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کیلیے ترمیم کی گئی تھی اور سینیٹ میں بل ایک ووٹ کے فرق سے منظور ہوا جس کے بعد نوازشریف مسلم لیگ (ن) کے باضابطہ صدر منتخب ہوئے۔ان درخواستوں میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی پاناما کیس میں نااہلی کے بعد پارٹی صدارت سنبھالنے کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں