میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دبستان ِ سید انجم جعفری

دبستان ِ سید انجم جعفری

منتظم
منگل, ۲ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

سید وقاص انجم جعفری میرے ہم جماعت اور محلہ دار ہیں ۔ انہی دو نسبتوں کی وجہ سے 1984 ء سے1988 ء تک میرا ُان سے بہت قریبی رابطہ رہا ۔ اُن دنوں وُہ اسلامی جمیعت طلبہ کے ضلعی ناظم تھے ۔ آج کل کی طرح اُس وقت بھی تنظیمی سرگرمیوں میں خاصے فعال تھے ۔ انہیں سید مودودی ؒ کے لٹریچر کے مطالعے اور اپنے والد کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی فیض یابی سے احساس کے مہا ساگر میں پیدا ہونے والے مدو جزر کے بھرپور ابلاغ کا ہُنر عطاء ہوا ہے ۔ اس خزینے نے جو جلا بخشی تھی اُس سے وہ اَپنے ساتھیوں کی تہذیب بھی کیا کرتے تھے ۔

اپنے والد سے بہت پہلے وقاص انجم جعفری لاہور کے ہوئے جہاں انہوں نے اسلامی جمیعت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں ۔ اس کے بعد وہ جماعت اسلامی کے پنجاب کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ۔

سید انجم جعفری میانوالی میں درس و تدریس کے فرائض سے ریٹائر ہوئے تواپنے دیگر دوں بیٹوں سیدعامر انجم جعفری اور سید اشعت جعفری کے ساتھ لاہور منقل ہو گئے ۔ میری اُن سے آخری ملاقات اُن کے وصال سے چند ماہ قبل پر میانوالی کے ریلوے پلیٹ فارم پر ہوئی تھی جہاں وہ اپنی عمر رفتہ کی یادوں کو آواز دیتے نظر آئے ۔ اس ملاقات میں انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ’’ وجدان ‘‘ بھی مجھے عطاء کیا تھا جو برادر وقاص انجم کا مرتب کردہ تھا۔
سید انجم جعفری کی تاریخ وفات28 جولائی 2014 ء ہے ۔ یہ تاریخ گذشتہ تیرہ سالوں سے مجھے کبھی نہیں بھولی کہ 28 جولائی2004 ء کو میانوالی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک نامور اقبال ؒشناس اور پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد انتقال کر گئے تھے ۔ میانوالی سے تعلق رکھنے والے ان دو نامور ادیبوں کی صرف تاریخ وفات میں ہی مماثلت نہیں ہے بلکہ اردو اور اقبالیات سے والہانہ لگاؤ جیسی نایاب قدر بھی مشترک ہے ۔

آسمان ِ ادب کے اس شہاب ثاقب سید انجم جعفری مرحوم کی مختلف جہتیں تھیں ۔ شاعر ، صحافی ، ماہر تعلیم ، نظریہ پاکستان کے بے ریا مبلغ ، فروغ اردو کے جانثار سپاہی اور تحریک فروغ اردو کے علمبرار ۔۔۔۔ہر طور وہ اپنی منفرد شہرت رکھتے تھے۔ پروفیسر سید فیروز شاہ مرحوم کے بقول ’’ آپ نے اپنے نظریئے کی تجسیم اور خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں خطہ پاک کی طرف ہجرت کی ، سرزمین پاک ہمیشہ ان کی محبتوں کا مرکزو محور رہی ہے ۔ ‘‘ بلاشبہ رنگوں، رسموں ، قدروں اور خوابوں کا گہوارہ یہ دھرتی ہمیشہ ان کی پرداز( نقاشی /مصوری ) اور شعور کا محور ٹھہری ۔ آپ کی شاعری بامقصد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریئے اور نصب العین سے جُڑی ہوئی ہے ۔

دستورِ حیات ، میر کارواں ، خوشبو حسین کی ، کربلا کے پھول ، سرِ آبِ رواں ، نذرِ وطن ، اردو ہے جس کا نام اور وجدان آپ کے خیالات اور جذبات کا اظہاریہ ہیں ۔آپ کے شعری سرمایہ میں فکر وفن کے وہ تمام رنگ اپنی قوس و قزع بکھیرتے نظر آتے ہیں جنہیں ہم مختلف اہل علم میں جُد اجُدا تلاش کرتے ہیں ۔ حمد ، نعت ، مرثیہ ، منقبت ، غزل ، نظم وغیرہ ۔ جعفری مرحوم پُر گو ضرور تھے مگر قادر الکلامی کے ساتھ ۔ وطن عزیز اور معماران وطن کی بات کرتے تھے تو حُب الوطنی ان کے لفظ لفظ سے ٹپکتی دکھائی دیتی تھی ۔ حمد و نعت پڑھتے وقت عقیدت کی شیفتگی اپنی جولانیاں بکھیرتی تھی ۔ ان کی غزلیں غم حیات ہی نہیں غم روزگار کو بھی یکساں قدرت کے ساتھ مخاطب کرتی ہیں ۔

انہوں نے علم و ادب کے میدان میں ہمیشہ سر گرم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کے علاقے میں جب لسانیت ایک تعصب کا رُوپ دھارنے کی کوشش کر رہی تھی تو تحریک فروغ اردو قائم کرنے انہوں نے اردو کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اُسے ایک قومی زبان کا مقام دلانے کی جدوجہد میں ہراول دستے کاکردار ادا کیا ۔ وہ ادبی معرکہ آرائیوں میں بھی شریک رہے اس سلسلہ میں ان کے اور ان کے ساتھی شرر صہبائی مرحوم اور محمد منصور آفاق کے درمیان ہونے والے ادبی معرکے خاصے دلچسپ تھے جن میں سے کئی ایک کا تو میں خود بھی شاہد ہوں ۔

شاعری میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت کی ظرافت بھی خوب رنگ دکھاتی ہے۔ دوران ملازمت ایک مرتبہ جعفری صاحب کو مولانا عبد الستار خان نیازی کی حمایت اور نواب آف کالاباغ کی مخالفت کی پاداش میں عیسیٰ خیل تبدیل کر دیا گیا ۔ انہوں نے وقت کے ڈپٹی کمشنر کے نام ایک منظوم خط بھیجا تھا جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔

پڑ گیا ہوں آکے مَیں بیمار عیسیٰ خیل میں
خوش ہے مجھ کو بھیج کر سرکار عیسیٰ خیل میں
ذرے ذرے سے ٹپکتی ہے یہاں بے گانگی
اجنبی سے ہیں درو دیوار عیسیٰ خیل میں
میٹھے پانی کو ترستے ہیں یہاں کے مردوزن
زندگی ہے وادیِ پُر خار عیسیٰ خیل میں
جلد لیجیے گا خبر یہ بے رُخی اچھی نہیں
مر نہ جائے قوم کا معمار عیسیٰ خیل میں
یہ نظم آج بھی اس قدیم شہر کے حالات پر کافی حد تک صادق آتی ہے ۔بلاشُبہ آپ علم و ادب کا روشن دبستان اور میانوالی کے ادب کا بانکپن تھے ۔ آپ کی جُدائی پر آپ کے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ گلستان اردو بھی اُداس ہوگیا ہے ۔

تیرے جانے پر محبت روئی ہے
شعر رویا ہے شرافت روئی ہے
زندگی کا حُسن رویا ہے ، مروت روئی ہے
رنگ و آہن آبدیدہ ہیں ، رفاقت روئی ہے

ان کی شخصیت سے آگاہ ہر کوئی اس پر متفق ہے کہ ان کی وفات ایک خاندان کا ہی قلق نہیں بلکہ پورے قلم قبیلے کا نقصان ہے ۔ ان کے دوست احباب ، علم ادب سے وابستگان اورپوری تحریک فروغ اردوحُب الوطنی کے اس قطبی تارے کی تلاش میں ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں صرف ان کے پسماند گان نہیں بلکہ دوست احباب ، علمائے کرام ، اہل قلم ، دانش ور ، عمائدین علاقہ ، اور سیاست کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں ۔ ان کے بڑے بیٹے اور ہمارے دوست سید وقاص انجم جعفری نے انہیں پیش کیئے جانے والے خراج عقیدت کو ’’ شیرازہ حیات ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے ۔ جماعت اسلامی کے معتبر رہنماء حافظ محمد ادیس نے اپنی کتاب ’’عزیمت کے راہی ‘‘ کے پانچویں حصے میںسید انجم جعفری کی شخصیت کے حوالے سے بڑی تفصیل کے ساتھ اظہار خیا ل کیا ہے ۔۔

جو اپنے عہد میں سُقراط کو نصیب ہوئی
وُہی اذیت رَسم و رواج رکھتا ہوں
مُجھے یہ فخر ہے کہ شاگرد ہوں ظہوری کا
جُدا بیان سُخن کا مزاج رکھتا ہوں


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں