میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قوم کی بیٹی

قوم کی بیٹی

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ب نقاب /ایم آر ملک

کن لفظوں میں اس سربستہ راز کو بے نقاب کیاجائے کہ خاموشی کے نیچے خوفناک طوفان چھپا ہوتاہے ۔جس روزامریکہ والے ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے ایمل کانسی کواغواء کرکے لے گئے اس روز ایسے لگا جیسے ہماری عزت نفس کسی نے اغواء کرلی۔ حساس اورمحب وطن لوگوں کے اندرسے میں نے ایک چھناکے کے ساتھ بہت کچھ ٹوٹتے دیکھا۔ کچے کے منگن بلوچ کو اس روزمیں نے پہلی بار مغموم حالت میں دیکھا۔پھر جب ایک امریکی وکیل نے یہ کہا کہ پاکستانی چند سکوں کی خاطر اپنی مائیں بیچ ڈالتے ہیں، میں نے اپنے ضمیرکو بے موت مرتے دیکھا۔ ایک روزخبرآئی کہ بگرام کے قیدخانے میں قوم کی ایک بیٹی امریکی درندوں کے تاریک زنداں میں بے بس پڑی ہے تو لگا جیسے پوری قوم کے سر سے غیرت کی ردا کوئی چھین کرلے گیا۔
مجھے اپنے وطن کے لبرل، روشن خیال اورامن پسند دانشور یادآئے جو سوات کی ایک ویڈیو پر چیخ پڑے تھے جو مرد امریکی میرنز نے نقلی ڈاڑھی لگاکر ایک عورت امریکی میرین پر درے لگاتے ہوئے بناڈالی تھی۔ اس جعلی ویڈیو کو بنیادبناکر اسلام اورپاکستان کونشانے پر رکھ لیا گیا اور 25لاکھ لوگوں کی جانوں کا خراج وصول کیاگیا۔مجھے اپنے شہر کا وہ نام نہاد صحافی یاد آتاہے جس نے اس فیک ویڈیو پر پورا شہر سر پر اٹھا لیاتھا یہ اس جیسے ہی صحافی تھے جنہوں نے مختار اںمائی کو ورلڈ سیلیبریٹی بناڈالاتھا۔اپنی گود میں کتے اٹھاکرتصویریں بنوانے والے غیرت سے عاری ایک حکمران نے ڈالروں کے کھیل میں عافیہ کے تین معصوم بچوں کا بھی سودا کرڈالا۔30مارچ2003ء کو قوم کی اس بیٹی کو امریکی درندوں کے حوالے کیا گیا اور ان درندوں نے اسے افغانستان کے بگرام ایئر بیس کے زندانوں میں مقید کرڈالا۔ اس قید کے دوران بدترین تشدد اور اذیتوں کی صعوبت اس کا مقدر ہوگئی ۔ایوون رڈلی نے ایک پریس کانفرس میں انکشاف کرکے وطن ِعزیز کے میر جعفر اور میر صادق کے گھناؤنے کردار کو ننگا کر ڈالا کہ بگرام ایئر بیس کے زندان میں موجود جس قیدی نمبر650کی کربناک چیخیں قیامت برپا کئے ہوئے ہیں جگر خراش صدائیں رات کی تاریکی کو چیرتی ہیں وہ عافیہ صدیقی ہے ۔حال چوطرفہ تاریکیوں کا صید زبوں، یا س انگیز فضاؤں میں محبوس حوصلہ شکن حوادث سے نڈھال دل گرفتگی کے مستقل ڈیرے ہیں۔پستی اور پسماندگی کا منحوس راج، ذہنی شکست خوردگی اور احساس کمتری کی پختہ و پائیدار عملداری ہے۔ لمحہ، لمحہ بارگراں، زندگی بوجھ اور برسوں کی اداسی ہے ،آنکھیں کھول نہیں سکتے کہ دلدوز منظر کے تصورات ہیولے کی طرح قدو قامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے کہ ہزیمت زدہ منظر دماغ پھاڑنے کو آتا ہے ۔ پھر حساس مسلمان زخم زخم تھے جب یہ خبریں آئیں کہ عافیہ کو سزا سنا دی گئی ہے بہت دکھ ہوا۔مگراس موقع پر افغانستان کے وہ جاہل، اجڈ، گنوار، دہشت گرد شدت سے یادآئے مغرب کی ایک بیٹی ایوون ریڈلے جن کی قید میں رہی تو قید کے دوران ان جاہل،اجڈ،گنوار دہشت گردوں نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا اور مغرب کی یہ بیٹی جب اپنے معاشرے میں واپس لوٹی تو ان جاہل، اجڈ، گنوار لوگوں کے گن گا رہی تھی۔اسے وہ نیلی آنکھوں والے فرشتہ صفت نوجوان نہیں بھولے جنہوں نے اسے عورت کووہ تقدس دیا جو چودہ سو سال سے امن اور سلامتی کے مذہب کے ساتھ جڑا ہواہے ۔ہمارے تاریخ دانوں کویہ تو یادہے کہ حجاج بن یوسف ملت اسلامیہ کا ایک ظالم کردار تھالیکن تاریخ کے کوڑے دان میں اس کے عظیم کردارکے اوراق پھینکنے والے یہ بھول گئے کہ وہ تڑپ اٹھا تھا۔ ایک مسلمان بیٹی کی پکار پر۔اس کی وہ تڑپ یاد آتی ہے جس تڑپ کی بدولت اس نے سینکڑوں میل دوراپنے بھتیجے کی سرکردگی میں اسلامی لشکر روانہ کیاتھا۔انسانی حقوق کے علمبرداروں کی آج مجھے کوئی چنگھاڑ سنائی نہیں دے رہی جو مختاراں مائی کے لٹنے پر سنائی دی تھی۔ڈیڑھ ارب قوم کی بیٹی مغربی درندوں کے نرغے میں تڑپ رہی ہے ۔ ہماری راہ تکتے تکتے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں ہیں۔ظلم سہتے سہتے اور ہماری بے حسی کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ اپنے حواس کھو رہی ہے ۔ درندے اسے مرنے دیتے ہیں نہ جینے دیتے ہیں۔مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے 23کروڑ گریبانوں میں ڈاکٹر عافیہ کا ہاتھ ہے اور وہ انہیں جھنجھوڑ رہی ہے مان لو کہ امریکی وکیل نے سچ کہا تھا۔
کن لفظوں میں اِس سربستہ راز کو بے نقاب کیاجائے کہ خاموش سطح کے نیچے نہایت خوفناک طوفان چھپا ہوتاہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں