میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غزہ کی جنگ کا فاتح کون؟

غزہ کی جنگ کا فاتح کون؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

غزہ میں عارضی جنگ بندی کے دوران قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوگیا ہے ۔ بظاہر یہ چار دن کی چاندنی ہے ، لیکن اس سے غزہ کے ان 23/لاکھ باشندوں کو بڑی راحت ملی ہے جو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کو اپنے وجود پر جھیل رہے تھے ۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کی حدختم ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر دوبارہ جنگ شروع کرے گا۔اسرائیل کے وزیردفاع نے کہا ہے کہ ہمیں اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے کم سے کم مزید دوماہ اور چاہئیں، لیکن تل ابیب میں مقیم اسرائیلی امور کے ماہر کھیم راج جنگڑکاکہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جو مہم حماس کو ختم کرنے اور اپنے یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے شروع کی تھی، اس میں اسرائیلی فوجیوں کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے ۔یہ امید نہیں تھی کہ اسرائیلی فوج ڈیڑھ مہینے میں بھی حماس کو ختم نہیں کرپائے گی، اب تو یہ ایک سال کی کارروائی میں بھی ناممکن لگتا ہے ، کیونکہ حماس کے لڑاکے پانچ سو کلومیٹر لمبی سرنگوں میں روپوش ہوگئے ہیں۔ اب تک اس تباہ کن اور انسانیت سوز جنگ کی جو خبریں ہم تک پہنچتی رہی ہیں، ان کا ذریعہ مغربی ذرائع ابلاغ ہیں۔مغربی میڈیا نے غزہ میں صرف فلسطینی باشندوں کی انسانیت سوز ہلاکتوں کی خبریں ہی جاری کی ہیں، جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غزہ میں حماس بری طرح پسپائی کا شکار ہے اور اسرائیل نے اس کی ایسی کمر توڑی ہے کہ اب شاید ہی وہ سراٹھا سکے ، مگرحقیقت کچھ اور ہے ۔ وہ اطلاعات جن کی وجہ سے اس جنگ میں اسرائیل کی زبردست سبکی ہوئی ہے اور جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس جنگ کے دوران اسرائیل کے چھکے چھڑادئیے ہیں،ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق زمینی لڑائی کے دوران حماس نے اسرائیلی فوج کی 335 گاڑیاں اور ٹینک تباہ کردئیے ہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حماس اور اسرائیل کی عسکری طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ حماس کے پاس نہ تو بحری طاقت ہے اور نہ ہی فضائی قوت،وہ منظم بری فوج سے بھی محروم ہے جبکہ اسرائیل کے پاس تینوں میدانوں کی جدید ترین اسلحہ سے لیس نہایت منظم فوج ہے ۔اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی فوجی طاقت ہونے کے علاوہ جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہے ۔اتنا ہی نہیں اس کی پشت پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ملکوں کی فوجی طاقت بھی ہے ۔اس کے برعکس حماس کے ساتھ صرف زبانی جمع خرچ کرنے والے کچھ اسلامی ممالک ہیں، جو اسے ریلیف کا سامان اور دوائیں تو بھیج سکتے ہیں، لیکن اس کی کوئی حربی مدد نہیں کرسکتے ۔اس بے سروسامانی کے عالم میں اسرائیل سے لوہا لینا صرف اور صرف قوت ایمانی کے بل پر ہی ممکن ہے ۔ اسی ایمانی جذبے کے زیراثر پچھلے ڈیڑھ ماہ سے حماس، اسرائیل کے تمام تروحشیانہ مظالم کا مقابلہ کررہا ہے اور اس کی جارحیت کا جواب دے رہا ہے ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا کہ فلسطینیوں کے اسی جذبہ ایمانی اور استقلال سے متاثر ہوکر کئی مغربی خواتین نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ برطانوی اخبار’ڈیلی آن لائن’ کی اطلاع کے مطابق مذہب تبدیل کرنے والی ان نوجوان خواتین کا کہنا ہے کہ”حماس کے حملے پر اسرائیل کا ردعمل ان کے قبول اسلام کا محرک بنا ہے ۔اخبار نے ان خواتین کے حوالے سے کہا ہے کہ انھیں اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے بعد سے اسلام قبول کرنے کی ترغیب ملی ہے اور وہ ٹک ٹاک پر اپنی مذہبی بیداری کا اظہار کررہی ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں الیکس نامی ایک خاتون بھی شامل ہیں، جنھوں نے حال ہی میں قرآن کا ایک نسخہ خریدا۔الیکس نے اپنے بالوں کو ڈھانپنا شروع کردیا۔وہ کہتی ہیں کہ سات اکتوبر کی کارروائی اور غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں کے بعد وہ فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں بھی شریک ہوئی تھیں۔الیکس کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب میگن رائس نامی اکاؤنٹ کی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھنے کے بعد ملی۔ میگن رائس کو پہلی بار قرآن مجید پڑھنے سے لے کر کلمہ پڑھنے تک تین ہفتے لگے ۔فلسطین اور اسرائیل کی اس جنگ کو مغربی ذرائع ابلاغ نے حماس بنام اسرائیل جنگ قراردینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔وہ حماس کو ایک دہشت گردگروپ قرار دینے کے لیے کوشاں ہے ، جبکہ حماس غزہ میں 16/سالسے برسراقتدار ہے ۔ حقیقت میں یہ جنگ فلسطین بنام اسرائیل کے درمیان ہے جو پچھلے 75 برسوں سے جاری ہے ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے یہودی بستیاں بسائی ہیں۔آج فلسطینی اپنے ہی وطن میں پناہ گزینوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور اسرائیل ان پر وحشیانہ مظالم ڈھارہا ہے ۔غزہ پر حالیہ بمباری کے دوران جس طرح ہزاروں بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا ہے ، وہ اسرائیل کے گھناؤنے کردار کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی شروعات حماس نے کی اور اس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر میزائلوں کی بوچھار کردی، جس کے نتیجے میں تقریباً 1400/اسرائیلی ہلاک ہوگئے ۔ اس دوران حماس نے 250سے زائد اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بنالیا تاکہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کا سامان کرسکے ۔ اس حملے کے بعد اسرائیل کے اوسان خطا ہوگئے ۔ خود اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا کے وہ ممالک جو اسرائیل کے خفیہ اور دفاعی نظام کو دنیا کا سب سے زیادہ مضبوط نظام سمجھتے تھے ، انگشت بدنداں رہ گئے ۔تب سے اب تک اسرائیل غزہ پر ٹنوں بارود برسا چکا ہے ۔ ان حملوں میں تقریباً پندرہ ہزار فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں شہادتوں کے باوجود فلسطینیوں نے رحم کی بھیک نہیں مانگی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ان کے لازوال جذبہ شہادت کو سلام کررہی ہے ۔عالمی صحت تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں 16/لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھرہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے فضائی حملوں کے علاوہ زمینی کارروائی بھی کی ہے ، جس میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔اسرائیلی دفاعی فورسز کے ترجمان نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے 378 فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔ اتنا ہی نہیں حماس نے اسرائیل کے تقریباً100/ٹینکوں کو بھی تباہ کردیا ہے ۔
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے اپنے ہزاروں شہری اور فوجی افسران ہی نہیں کھوئے ہیں، بلکہ اسے اس جنگ سے سفارتی اور اقتصادی سطح پر بھی زبردست نقصان اٹھاناپڑا ہے ۔ کئی ملکوں نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کو یومیہ260/ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے ۔اب تک اسرائیل کو گیارہ ہزار ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکاہے ، جو اس کی اقتصادی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے ۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی شرح نمو کو زبردست نقصان پہنچا ہے ۔اتنا ہی نہیں اس جنگ میں جو ممالک اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہیں، انھیں بھی اقتصادی بحران کا سامنا ہے ۔ کئی ملکوں میں شیئر مارکیٹ کا برا حال ہے ۔ خود ہندوستانی مارکیٹ پر بھی اس کے منفی اثرات پڑے ہیں۔حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی یہودیوں میں پھیلی ہوئی دہشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک تقریباً 4لاکھ یہودی باشندے اسرائیل سے فرار ہوچکے ہیں۔وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں ناراضگی بڑھنے لگی ہے ۔خود ان کی پارٹی کے کئی ممبران نے اسرائیل کی ناکامی کے لیے نتن یاہو کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔تازہ سروے کے مطابق نتن یاہو کی سیاسی پوزیشن کافی کمزور ہے ۔ ان کی پارٹی کے کئی ارکان نے انھیں قصوروار ٹھہراتے ہوئے استعفیٰ بھی دے دیا ہے ۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی ہی نہیں بلکہ ان کے سب سے بڑے حمایتی امریکی صدر بائیڈن کی مقبولیت میں بھی اس حد تک کمی واقع ہوئی ہے کہ وہ اگلا الیکشن ہارسکتے ہیں۔
جہاں تک فلسطین کاسوال ہے تو اس جنگ کے نتیجے میں یہ مسئلہ سرفہرست آگیا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ملکوں نے دوریاستی حل کی وکالت کی ہے اور اس مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سبھی ممالک یہ کہہ رہے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قایم نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت مسئلہ فلسطین دنیا کے سنگین ترین مسائل میں سرفہرست آگیا ہے ،جو فلسطینی عوام اور حماس کی سب سے بڑی فتح ہے ، ورنہ سعودی عرب جیسے کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے ۔ اگر ایسا ہوتا تو مسئلہ فلسطین ہمیشہ کے لیے پس منظر میں چلا جاتا۔غزہ کی جنگ نے مسئلہ فلسطین نئی زندگی عطا کردی ہے ، جو حماس کی سب سے بڑی فتح ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں