غزہ جنگ سے حق و باطل کی تفریق واضح
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔
فلسطین و اسرائیل جنگ نے دنیا بھر میں حق و باطل کی تفریق واضح کر دی۔ ایک طرف حق کا ساتھ دینے والے اہل غزہ کے لیے سڑکوں پر ہیں تو دوسری جانب باطل کی حمایت میں حکومتیں ہیں۔ اس حق و باطل کے معرکہ میں تیسرا گروہ بھی سامنے آیا جو منافقین کا ہے، یہ خاموش اور نتائج کے منتظر ہیں۔ ظلم کے وقت جو غیرجانبدار ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں وہ باطل کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے خاموش رہ کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ہم خاموش رہے تو ہمارا شمار اسرائیلیوں کا ساتھ دینے والوں میں ہو گا اور اگر حکمرانوں نے ساتھ نہ دیا تو ان کے گریبان اور ہمارے ہاتھ ہوں گے۔ دنیا میں ہم نے ثابت کرنا ہے ہم حق کے ساتھ ہیں۔
46 دن میں پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ نے فلسطین پر کوئی جلسہ یا احتجاج نہیں کیا۔(ن) لیگ اور پی پی قیادت کو پتا ہے کہ اگر انہوں نے فلسطین پر احتجاج کیا تو امریکا ناراض ہوجائے گا۔ اہل فلسطین کے خلاف اسرائیل کا امریکا سمیت تمام یہودی طاقتیں ساتھ دے رہی ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن فلسطین ایشو پر رو رہے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کے دل پتھر کے ہیں۔ امریکی صدر اسرائیل کا ساتھ دے سکتا ہے تو ہم فلسطین کا کیوں ساتھ نہیں دے سکتے ۔ فلسطین کی مائیں بہنیں بیٹیاں ہماری امداد کی منتظر ہیں۔اور ہمارے حکمران میر جعفر اور میر صادق بنے ہوئے ہیں۔فلسطینی بچے شہید ہوتے رہے، مسلم حکمرانوں نے عملی اقدامات نہ کیے۔ پاکستانی حکمرانوں نے بھی بے جان لفظی مذمت پر اکتفا کیا۔ ہمیں محمد بن قاسم بن کر مظلوموں کا ساتھ دینا ہوگا۔ اگر غزہ جیت گیا تو یہ عالم اسلام کی کامیابی ہوگی اورسقوط بغداد، غرناطہ اور ثمرقند بخارا کا جواب ہوگا۔ ہار گئے تو اسرائیل غزہ کے بعد دیگر اسلامی ممالک کی طرف بڑھے گا۔ یہ ایران اور پاکستان کو بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے، ناجائز ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم کو امریکا اور دنیا بھر کی یہودی لابی کی سپورٹ حاصل ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے اسلامی ممالک سے درخواست کی ہے کہ غزہ کو بچائیں۔ غزہ کو جنگی سامان کی ضرورت ہے۔ خدمت فاؤنڈیشن سوا ارب کا امدادی سامان غزہ بھیج چکی ہے۔ غزہ کے لوگوں کے لیے کھانا، پانی، کفن اورادویات نہیں جبکہ غزہ میں ہزاروں بچے شہید ہو چکے اور سینکڑوں ملبے تلے دب گئے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے بجائے اپنا نام میر جعفر و میر صادق کی فہرست میں شامل کرنے کو ترجیح دی۔ مذہب سے بالاتر ہو کر اہل فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ غزہ نے کربلا کے کرداروں کی یاد تازہ کر دی۔ امام حسین نے 72ساتھیوں کے ہمراہ قربانی دی، وہ شہید ہو گئے مگر صدیوں بعد بھی زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ ہم آج کے حسینی قافلے میں موجود ہیں۔ ہم نے اسلامی ممالک کے دورے کیے اور ان سے فلسطینیوں کی عملی مدد کی اپیل کی اور کہا کہ آپ نہیں جا سکتے تو ہمارے لیے راستے کھول دیں۔ ہم نے کراچی، لاہور، پشاور، اسلام آباد میں اہل فلسطین کے حق میں ملین مارچز کیے، حکمران جماعتوں کی طرف سے خاموشی برقرار رہی۔
غزہ پر عارضی جنگ بندی حماس اور فلسطینیوں کی بڑی فتح ہے۔ طوفان الاقصٰی آپریشن کے ساتھ فلسطینیوں نے خود تو بڑی قربانیاں دی ہیں، جو لازوال قربانیاں ہیں لیکن اسرائیل، صیہونیت، امریکہ، برطانیہ اور انسان دشمن ظالم قوتوں کو بے نقاب کردیا ہے اور مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر بڑا مسئلہ ثابت کردیا ہے۔ دْنیا میں امن کے لیے ناگزیر ہے کہ عالمی برادری سنجیدہ انداز میں اب آگے بڑھ کر مسئلہ فلسطین اور کشمیر حل کرے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اسرائیل سے مذاکرات کا خاتمہ کیا۔ او آئی سی سربراہی اجلاس بھی بلایا اور اب غزہ پر جنگ بندی کے لیے قطر کے ساتھ مل کر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پوری اْمت توقع رکھتی ہے کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے قائدانہ کلیدی کردار ادا کرے۔غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت پوری دنیا کا امتحان ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اس سلسلے میں اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کررہے جیسے کہ انھیں کرنا چاہیے۔ اس صورتحال پر بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص مسلم ممالک کو شرمندہ ہونا چاہیے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک غاصب گروہ دہشت گردی کی انتہا کرتے ہوئے معصوم اور نہتے افراد کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے لیکن اس کا ہاتھ روکنے کے لیے ابھی تک کوئی بھی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔ مسلم قیادتیں اسرائیلی ہاتھ روکنا اپنا فریضہ سمجھتیں تو فلسطینیوں کے قتل عام کی نوبت ہی نہ آتی۔ اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور اتحاد امت کی مثال بنیں ورنہ مسلم ممالک کے نوجوانوں میں جو اضطراب اور بے چینی پائی جارہی ہے وہ ان ممالک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دے گی اور پھر ان ممالک کے حکمران کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
آج امہ جن مشکلات مسائل اور مصائب سے دوچار ہے اس کی وجہ اس کا نہ صرف ایک نہ ہونا ہے بلکہ آپسی نفاق اور انتشار بھی ہے ورنہ تو مسلم ممالک کے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ مجموعی طور پر وسائل سے معمور ممالک ہیں، تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ دفاعی معاملات میں خودکفیل ہیں۔ عالم اسلام کی پاکستان واحد ایٹمی پاور ہے۔اگر مسلم امہ متحد ہو جائے اپنے دشمنوں کو پہچان کر ان سے الگ ہو جائے تو مسائل درست سمت میں گامزن ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔