چین اور امریکا کے مابین’’ خلائی جنگ‘‘ ہونے کو ہے؟
شیئر کریں
اردو کی معروف افسانہ نگار بانوقدسیہ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’محبت ہمیشہ اُس سے ہوتی ہے،جس سے نہیں ہونی چاہئے۔محبت ہمیشہ اُس وقت ہوتی ہے ،جس وقت نہیں ہونی چاہئے اور محبت ہمیشہ ایسے ہوتی ہے ،جیسے نہیں چاہئے‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے یہ ساری خاصیتیں اور برائیاں جنگ میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتیں ہیں ۔یعنی جنگ ہمیشہ اُس سے ہوتی ہے ،جس سے نہیں ہونی چاہئے ۔جنگ ہمیشہ اُس وقت ہوتی ہے ، جس وقت نہیں ہونی چاہئے اور جنگ ہمیشہ ایسے ہوتی ہے ،جیسے نہیں ہونی چاہئے ‘‘۔محبت اور جنگ کے مابین حد درجہ مماثلت کی شاید بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان ابتدائے آفرینش سے ہی یہ مانتے آئے ہیں جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتاہے ۔یوں سمجھ لیجئے کہ انسان نے کبھی بھی جنگ اور محبت میں ذرا برابر بھی تفریق روا نہیں رکھی،اس لیے محبت ہو یا پھر جنگ ،اسے شروع کرنے والوں کے لیئے اس کا انجام بالآخر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
آپ دنیا کی کسی بھی جنگ کا باریک بینی سے جائزہ لے لیں ،یقین مانئے کہ ہماری بیان کردہ تینوں خامیاں یا خوبیاں،آپ کو ہر جنگ میں ضرورمل جائیں گی۔ مثلاً جنگ ہمیشہ اُس سے ہوتی ہے ،جس سے نہیں ہونی چاہئے ۔دنیا کی نوے فیصد جنگیں ہمیشہ پڑوسی ممالک کے درمیان ہوتی ہیں حالانکہ ہر ملک بخوبی جانتا ہے کہ اُن کے دوست تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن پڑوسی کبھی بھی نہیں بدلتے مگر اس کے باوجود پڑوسی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات جنگ و جد ل کے بغیر ناقابل حل سمجھے جاتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک دور دراز علاقے میں بسنے والا ملک بھی اگر کسی دوسرے دوردراز ملک پر جنگ مسلط کرنا چاہے تووہ بھی اس ملک کے سے متصل کسی پڑوسی ملک کے ذریعے ہی جنگ کرتا ہے ۔ جیسے امریکا نے روس کو سرد جنگ میں شکست دی تو اُس کے لیئے اُسے ہمارے ملک پاکستان کا سہارا لینا پڑا۔جبکہ عراق سے جنگ لڑی تو ضرور امریکا ہی نے، لیکن براستہ کویت لڑی ۔
دوسرا اُصول کہ جنگ ہمیشہ اُس وقت ہوتی ہے ،جس وقت نہیں ہونی چاہئے ۔یہ مسئلہ بھی کم وبیش ہر جنگ میں ہی ہوتاہے۔جیسے برطانیاجب ایک تہائی دنیا پر بڑے مزے سے حکومت کررہا تھا تو اچانک اُس کا واسطہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم سے پڑگیا ہے۔وہ وقت برطانیا کے لیے جنگ میں کود پڑنے کے لیے قطعی مناسب نہیں تھا لیکن جرمنی اور جاپان سمجھتے تھے کہ جنگ کے لیے یہ ہی وقت مناسب ترین ہے ۔بعدازاں جنگ عظیم کے انجام نے ثابت کیا کہ یہ وقت کسی کے لیے بھی جنگ کے معرکے میں اُترنے کا نہیں تھا اور جرمنی اور جاپان تو خیر سے جنگ میں شکست خوردہ رہالیکن دوسری جانب برطانیا بھی یہ جنگ جیت کر خسارے میں ہی رہا اور اسے ساری دنیا کا راج سنگھاسن چھوڑ کر فقط ایک چھوٹے سے قطعہ اراضی تک محدود ہونا پڑگیا۔ تیسرا اُصول کہ جنگ ہمیشہ ایسے ہوتی ہے ،جیسے نہیں ہونی چاہئے ۔ہر جنگ میں مفتوح ملک کو یہ ہی شکوہ رہا ہے ۔ مثال کے طور پر بھارت نے نصف صدی تک پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی تیاری کیے رکھی اور 27 فروری کو تو ایک بار پوری دنیا کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ دونوں ملک اَب لڑے کہ تب لڑے لیکن اچانک خبر آئی کہ چین نے وادی لداخ میں بھارت کے درجن بھر سورماؤں کو موت کے گھاٹ اُتار کرچالیس ہزار کلومیٹر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا اور اس جنگ میں چینی افواج کو مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا کیونکہ بھارت کے وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ کبھی اس محاذ پر بھی چین کے ساتھ جنگ ہوسکتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ آذر بائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں بھی ہوا۔ آرمینیا جنگی سازو سامان مثلاً ٹینک ،توپ ،بارودی سرنگیں ،جنگی جہازاورمیزائل کی دستیابی میں ہمیشہ آذربائیجان سے دو قدم آگے ہی رہا ہے ۔ لیکن جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو آذربائیجان نے روایتی عسکری سازو سامان پر انحصار کرنے کے بجائے ترکی ساختہ چھوٹے ڈرونز سے ایسی تباہی مچائی کہ جب تک آرمینیا اپنے ٹینک ،گولہ بارود اور جنگی جہاز اپنے گوداموں سے باہر نکالتا اُس وقت تک آذربائیجان مہلک ڈرونز کے بل بوتے پر نگورنوکاراباخ کو فتح بھی کرچکا تھا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگ کے فاتح وہ ممالک ہرگز نہیںہوسکتے جو روایتی جنگی حکمت عملیوں اور لگ بندھے جنگی داؤپیچ کے اسیر ہوتے ہیں بلکہ جنگ میں فتح کے جھنڈے حقیقی معنوں میں وہ ممالک گاڑتے ہیں ۔جو جنگ کرنے کے لیے ایسے منفرد ہتھیار اور حیران کن میدان کا انتخاب کرتے ہیں ۔جن کے بارے میں کبھی اُن کے حریف نے خواب میں نہیں سوچا ہوتا۔تاریخ یہ بتاتی ہے ہرنئی جنگ کا فاتح ہمیشہ ایسے انداز میں جنگ لڑتا ہے کہ جس کی ماضی سے کوئی دوسری مثال نہ پیش کی جاسکے ۔ مثال کے طورپر سلطنت عثمانیہ کا سارا جنگی دبدبہ بھاری بھرکم توپ خانے کا مرہون ِ منت تھا ۔جبکہ برطانیا نے ایک تہائی دنیا کو اپنا زیرنگیں ڈائنا مائٹ جیسے مہلک بموں سے بنایا۔نیز امریکا ایٹم بم اور پراکسی وار ز کو متعارف کروانے کے بعد ہی عالمی طاقت کے منصب تک پہنچا ۔
کچھ عرصہ سے عالمی ماہرین سیاسیات کہتے آرہے ہیں کہ اگلا سپر پاور چین ہوگا، تو کیا چین اپنے حریف ممالک پر اپنی عسکری بالادستی قائم کرنے کے لیے کوئی نیا ’’میدانِ جنگ‘‘یا پھر کوئی منفرد اور حیران کن ’’طریقہ جنگ ‘‘ متعارف نہیں کروائے گا؟۔ہمارا خیال ہے کہ ضرور کروائے گا اور جلد ہی کروائے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے وہ کونسا عسکری میدان یا جنگی ہتھیار ہوگا ،جس سے چین حریف ممالک کی تمام ترعسکری ترقی اور صلاحیت کو یکسر بے کار کرسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ چین کا اصل حریف ایک ہی ملک ہے اور وہ امریکا ہے۔ کچھ برس پہلے تک امریکا سوچتا تھا کہ اُسے کیمیائی ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور عراق پر حملہ کرنے کے لیے امریکا نے اسی جواز کا سہارا لیا تھا کہ ’’عراق میں کیمیائی ہتھیار موجود ہیں ،جن سے مستقبل میں امریکا کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں‘‘۔مگر عراق کو تباہ و برباد کرنے کے بعد امریکا نے اعتراف کیا کہ ’’عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور اُن کی وہ رپورٹ جس کی بنیاد پر امریکا نے عراق پر حملہ کرنے کا انتہائی اقدام اُٹھایا تھا قطعی بے بنیاد تھی‘‘۔جبکہ آج سے چند سال پہلے ایسی خبریں بھی اکثر و بیشتر عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی تھیں کہ ’’امریکا اپنے دفاع کویقینی بنانے او ر اپنے حریف ممالک کو سبق سکھانے کے لیے خود بھی کیمیائی ہتھیار تیار کرچکا ہے یا کررہا ہے‘‘۔
لیکن کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بعد دنیا کے اُفق سے’’ کیمیائی جنگ‘‘ کا خطرہ تو مکمل طور پرٹل چکا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اچانک سے کیمیائی ہتھیاروں اور کیمیائی جنگ سے متعلق بحث و مباحثے ہی نہیں، بلکہ عام گفتگو بھی بالکل بند ہوچکی ہے ۔کیونکہ دنیا کے ہرملک کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ میں آ گئی ہے کہ کیمیائی ہتھیار کا ایک چھوٹا سا وائرس یا جرثومہ صرف حریف ملک ہی بلکہ خود اُس کے لیے اور دنیا بھر کی تباہی و بربادی کے لیے بھی کافی ہوگا۔یاد رہے کہ ایک سازشی نظریہ تو یہ بھی پورے شد ومد کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے کہ کورونا وائرس بھی مبینہ طور پر امریکا میں بنایا گیا ایک مہلک کیمیائی ہتھیار تھا ، جسے چین کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ بہرحال یہ سازشی نظریہ جزوی طور پر درست ہو یا پھر مکمل طور پر غلط ۔یوں سمجھ لیجئے کا کورونا وائرس کی عالمگیر ہلاکت خیزی نے ’’کیمیائی جنگ ‘‘کے ہلکے سے ہلکے امکان کو بھی سرے سے معدوم کردیا ہے ۔
تو پھر چین اور امریکا کے درمیان جنگ کا نیامحاذ کون سی جگہ بن سکتی ہے؟ ۔اس سوال کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ چین اور امریکا کے مابین جنگ کا نیا محاذ’’خلا‘‘ بھی بن سکتی ہے ۔جی ہاں ! تواتر کے ساتھ ایسے اشارے مل رہے کہ ہماری زمین کے اگلے عالمی حکمرا ن کا حتمی فیصلہ ’’خلائی میدان جنگ ‘‘ میں ہوگا۔ آپ بھلے ہی ہماری اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیں، لیکن چین او ر امریکا ایک دوسرے کے ساتھ ’’خلائی جنگ ‘‘ شروع کرنے کے لیے انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں ۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ خلا میں اپنی عسکری بالادستی قائم کرنے کے لیے امریکا نے جون 2019 میں امریکی فوج کی چھٹی شاخ جوکہ ’’خلائی فوج ‘‘ ہے قائم کردی تھی۔امریکی خلائی فوج کے باقاعدہ قیام کااعلان کرتے ہوئے اُس وقت کے امریکی نائب صدر مائیک پینس کا کہنا تھا کہ ’’چین اور روس خلا سے کام کرنے والے لیزر ہتھیار اور سیٹلائٹ شکن میزائل تیار کررہے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے‘‘۔
شاید آپ کے لیے حیرانی کا باعث ہو،مگر تلخ سچ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے اسمارٹ فون میں کام کرنا والا ’’جی پی ایس ‘‘سسٹم بھی ایک خلائی ہتھیار ہے ، جسے امریکی فوج نے ایجاد کیا تھا اور ابتداء میں اسے صرف امریکی فوج ہی استعمال کرتی تھی ۔جی پی ایس سسٹم عام استعمال کی اجازت بہت بعد میں دی گئی حالانکہ امریکی فوج جی پی ایس سسٹم کو 1960 کی دہائی سے بطور ایک جنگی ہتھیار استعمال کرتی آرہی ہے ۔جبکہ آج بھی ’’جی پی ایس ‘‘کا سب سے موثر اور بہتر استعمال عسکری سازو سامان میں کیا جاتاہے ۔مگر چین گزشتہ چند برسوں سے امریکی فوج کے ایجاد کردہ ’’جی پی ایس ‘‘سسٹم کا استعمال مکمل طور پر ترک کرچکا ہے کیونکہ چین نے اس کے متبادل سیٹلائٹ مانیٹرنگ سسٹم ’ ’بیدو ‘‘ ایجاد کرلیا ہے۔علاوہ ازیں اس وقت سب سے زیادہ مصنوعی سیارے امریکا کے پاس ہیں جن کی تعداد 803 ہے ،دوسرے نمبر پر چین ہے جس کے پاس 204 مصنوعی سیارے ہیں ۔جبکہ روس کے پاس بھی 142 مصنوعی سیارے یعنی سیٹلائٹ موجود ہیں ۔
ذہن نشین رہے کہ دنیا بھر میں چلنے والے موبائل ٹاورز ،انٹرنیٹ ،لائیو ٹی وی نشریات وغیر ہ سب کی زندگی خلا میں تیرے ہوئے ان ہی سیٹلائٹ کے دم قدم سے ہے اور حیران کن طور پر سیٹلائٹ شکن میزائل امریکا ،چین او رروس کے پاس کثیر تعداد میں ہیں ۔ اس لیے اگر کبھی انٹرنیٹ ،موبائل نیٹ ورک، لائیو ٹی وی نشریات سب کچھ اچانک اور ایک ساتھ بند ہوجائے تو اسی خام خیالی میں مت رہیے گا کہ حکومت نے سگنل بند کردیئے بلکہ اس امکان پر بھی ایک بار ضرور سوچ لیجیے گا کہ کہیں چین اور امریکا کے درمیان دنیا کی پہلی’’ خلائی جنگ ‘‘کا آغاز تو نہیں ہو گیا ہے ۔کیونکہ ’’خلائی جنگ‘‘ہمارے اور آپ کے عین سروں پر کھڑی ہے۔ بس! یہ الگ بات ہے کہ ہم ہی برس ہا برس سے کچھ بے خبری کے دائمی مرض میں مبتلا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔