میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دھرنا مظاہرین کے پاس شیل، ماسک، ڈنڈے کہاں سے آئے، سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ مسترد کردی

دھرنا مظاہرین کے پاس شیل، ماسک، ڈنڈے کہاں سے آئے، سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ مسترد کردی

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد(بیورورپورٹ/نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے دھرنا کیس سماعت کے دوران کہا ہے کہ دھرنا مظاہرین کے پاس آنسو گیس کے شیل‘ ماسک اور ڈنڈے کہاں سے آئے، 146 ملین روپے کا نقصان کون پورا کرے گا، آزادی کی قدر روہنگیا مسلمانوں سے پوچھیں، دھرنے سے اسلام نہ پاکستان کی خدمت ہوئی، سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ مسترد کردی۔ تفصیلات کے مطابق دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی سمیت تمام ایجنسیوں کے رپورٹس مسترد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر رپورٹس طلب ، جمعرات کو جسٹس مشیرعالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 2رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کی سماعت کی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی بتانا تھا کہ دھرنے پر کتنا سرکاری خرچہ آیا؟ پولیس رپورٹ کے مطابق کوئی ہلاکت نہیں ہوئی جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق مرزا نے کہا کہ اسلام آباد کی حدود میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اس پر جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ایک بچے کی ہلاکت ہوئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آفس کوموصول رپورٹ میں کسی جانی نقصان کا ذکر نہیں، ٹی وی والے تو چلاتے رہے اسلام آباد میں 6ہلاکتیں ہوئیں، کیا راولپنڈی میں دھرنے سے کوئی ہلاکت ہوئی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق مرزا نے کہا کہ راولپنڈی میں ہلاکتیں ہوئیں ہیں لیکن اس کی رپورٹ نہیں مانگی گئی، اس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ اگر وفاقی دارالحکومت کو محفوظ نہیں بنا سکتے تو ملک کو کیسے محفوظ بنائیں گے، یہ بتائیں کہ مظاہرین کے پاس آنسو گیس کے شیل اور ڈنڈے کہاں سے آئے اور یہ تمام چیزیں مظاہرین کو کس نے فراہم کیں؟ کیا جن کے پاس آتش گیر مواد تھا ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے؟ اس پرایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدلت کو بتایا کہ 27مقدمات کا اندراج ہوا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میڈیا اس ایشو کو کیوں اٹھا رہا ہے؟ کیا اسلام کی بات مشکل اور نفرت کی بات کرنا آسان ہے؟ کیا میڈیا پر اشتعال دلانے کے لیے لوگوں کو بلایا جاتا ہے؟ گالی پر تالیاں بجتی ہیں اور اچھی بات کوئی نہیں کرتا،انہوں نے کہا کہ کیا چند چینلز کو بند کر دیں۔ ہم ادارے اور میڈیا کی نہیں اسلام کی بات کرتے ہیں پورے جھگڑے میں کس نے اسلام کی بات کی، ہم اسلام سے اتنے کیوں دور ہوگئے ہیں۔ ایجنسیوں پر خرچہ کرنے کے سوال بھی اٹھیں گے، کہاں ہیں یہ ایجنسیاں وہ سامنے کیوں نہیں آتیں؟ اسلامی ممالک میں یہ کیا ہورہا ہے یہ کس کا ایجنڈا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان اس لیے بنایا گیاکہ سب کوآزادی ہو، آزادی کی قدر روہنگیا کے مسلمانوں سے پوچھو مفت میں ملی آزادی کو تباہ نہ کرو، غلطی والا دوسرے کو ڈانٹ رہا ہے۔ سماعت کے دوران آئی ایس آئی کے نمائندے کی عدم حاضری پر جسٹس قاضی عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہاں جڑیں کاٹی جا رہی ہیں، لیکن ہماری ایجنسیاں کچھ بھی نہیں کرتیں ریاست کا تحفظ آئی ایس آئی کی ذمہ داری ہے، اس سارے معاملے میں ریاست کا تحفظ کہاں کیا گیا؟ آئی ایس آئی خاموش کیوں ہے، ان کا نمائندہ کیوں نہیں آیا؟ آئی ایس آئی کو ملک کے غریب پیسے دیتے ہیں۔جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ عدالت کے تحریری حکم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ا س ملک کے لوگ بہت شریف ہیںلوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں،کیا مقاصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے ہوںگے، ہم یہ سبق سکھا رہے سیاست کے علاوہ بھی ملک کاسوچا کریں، ہمیں پرواہ نہیں جتنی مرضی گالیاں دیں اسلام اور پاکستان کی بات کرتا رہوںگا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ خطے میں اسلام جنگ سے نہیں کردار سے پھیلا ہے۔میڈیا کا کام پگڑی اچھالنا ہے، کس چینل کا مالک کون ہے فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے؟ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں ایک چینل کا بھی ذکر ہے، کیا بھری عدالت میں چینل کا نام لیں۔انہوں نے کہا کہ جو دیکھ رہے ہیں اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کیا میڈیا کو نوٹس جاری کریں؟پیمرا کہاں ہے کیا بسکٹ کے اشتہار کے پیچھے اپنا ایمان فروخت کر دیںگے ،عدالتوں میں بھی لوگ لڑ پڑتے ہیں منفی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ ایجنسیاں کیا کررہی ہیںکسی کا کوئی احتساب نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ فوج حکومت سے الگ ہے، حکومت سے فوج الگ نہیں ہے ان کو بدنام نہ کیا جائے ایسا کرنے والے اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔فوج تو حکومت کا حصہ ہے یہ ہمارا نہیںہم سب کا پیارا ملک ہے، انہوں نے کہا کہ میڈیا اپنا قبلہ درست نہیں کرتا توہم دیکھ لیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس سے نہ اسلام اور نہ ہی پاکستان کی خدمت ہوئی، اگر میں آپ سے متفق نہیں تو کیا میں پتھر ماردوں؟ اڑاؤ، تباہ کرو، بس یہ ایجنڈا بنالیا گیا ہے، صورتحال یہاں تک آگئی ہے کہ اب شیشے میں اپنی شکل بھی اچھی نہیں لگتی۔معزز جج کا کہنا تھا کہ آرمی حکومت کا حصہ ہے، دھرنے کے خاتمے کے لیے کسی نے کردار ادا کیا تو اچھی بات ہے، فوج حکومت سے الگ نہیں، اسے بدنام نہ کیا جائے،بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں