میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان پیپلز پارٹی ۔عزم۔قربانی اور جدوجہد کے 50 سال

پاکستان پیپلز پارٹی ۔عزم۔قربانی اور جدوجہد کے 50 سال

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نعمان شیخ
(قسط :نمبر2)
بھٹوصاحب کے سیاسی سفرکاباقاعدہ آغاز1957ء میں صدرا سکندر مرزاکے زمانے میں شروع ہوا جب انھیں پہلی دفعہ بیرون ملک جانے والے وفد میں شامل کیا گیا۔وہ اس وفد کے سب سے کم عمر ممبرتھے لیکن انھوںنے وہاں انتہائی مدبرانہ اور متاثر کن تقریر کی جس سے تمام وفود کے اراکین بہت متاثر ہوئے ۔انھیں پہلی دفعہ وزرات صدر ایوب خان کے دور میں ملی جب انھیںوفاقی وزیر تجارت بنایا گیا۔وہ ایوب کابینہ میں سب سے کم عمروزیر تھے۔ اس کے بعد انھیں وزیر معدنیات وقدرتی وسائل پھر ایندھن ، بجلی و آبپاشی اور امو ر کشمیر کی وزرات دی گئی ۔ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایوب خان نے انھیں وزیر خارجہ بنایا۔جہاںانھوں نے ملک کے لیے بے پناہ و بے مثال خدمات انجام دیں۔ پاک چین دوستی کے حقیقی معمار بھٹوصاحب ہی ہیں ۔انھوں نے چین اور اس کی کمیونسٹ پارٹی سے پاکستان کے لیے خصوصی تعلقات استوارکرائے ،جس کے نتیجہ میں آج بھی کہا جارہا ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بھی بلند ہے ۔ انھوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کی ایک راہ متعین کی ۔ 1962ء میں چین اوربھارت کی سرحدی جنگ ہوئی ۔ جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں متعین اپنی تمام افوا ج کو وہاںسے نکال کر چین کی سرحد پر لانا پڑا ۔چین نے پاکستان کو پیغام بھیجا کہ یہ وقت بہت اچھاہے بھارت کی تمام افواج چین کی سرحد پر ہیں۔کشمیر بھارتی فوج سے خالی ہے۔ فوری طور پر کشمیر میں پیش قدمی کریںاور کشمیر پر قبضہ کرلیںلیکن ایوب خان نے روایتی اور ذہنی امریکی غلامی کی وجہ سے امریکا سے پوچھاکہ کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں جس پر آقا نے انھیں کہاکہ بھارت اس وقت الجھا ہوا ہے آپ صبر سے کام لیں جنگ کے بعد ہم اس مسئلے کو حل کرادیں گے ۔جنگ ختم ہونے کے بعد امریکاکواس کاوعدہ یاد لایا گیا لیکن اس نے ٹال مٹول سے کام لیا جس پر ایوب خان کو اپنی بیوقوفی پر اور بھٹو صاحب سمیت تمام محبان وطن کو امریکا کی وعدہ خلافی پر شدید افسوس و ملال تھا۔ حقیقت میں ایوب خان پس ہمت اورقوت فیصلہ سے عاری لیکن سازشی ذہن کا آدمی تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے پر کوئی بھی ان کو لعن طعن نہیں کرتا حالانکہ اس وقت کشمیر کامسئلہ باآسانی حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن اس سنہری موقع کو ضائع کردیا۔
1965کی جنگ میں تاشقند میں روس نے پاکستان اور بھار ت کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی میزبانی کی ۔ پاکستانی وفد میں صدر ایوب خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے تاشقند گئے تھے جبکہ بھار تی وفد کی سربراہی وزیر اعظم لعل بہادر شاستری نے کی ۔ مذاکرات کے بعدجب معاہدہ تاشقندپر دستخط کاوقت آیا تو بھٹو صاحب کو اس کے نکات پر شدید اعتراضات تھے۔ جس پرانھوں نے نہ صر ف دستخط کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیابلکہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اُسی وقت استعفیٰ دے دیا۔اُن کا موقف اصولی تھا کہ ہم جنگ جیتے ہیں پھر ہم ہارے ہوئوں(ہاری ہوئی قوم) کی طرح کیوں معاہدہ کریں ؟وہ جس وقت ایئر پورٹ پر اترے تو عوام میں انھیں زبردست پذیرائی ملی جو ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کرتھی۔ اس عوامی پزیر ائی اور ان کی محبت نے انھیں مجبور کردیا کہ و ہ سامراجی گماشتوں کے چنگل سے عوام کو آزاد کرائیں اور ملک کو تعمیر و ترقی اور کامیابیوں کے سفر پر گامزن کردیں۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا دو واضع بلاکس میں بٹی ہوئی تھی ۔روسی کمیونسٹ گروپ(بائیں بازو)اور امریکی سامراج گروپ (دائیں بازو) ان دنوں پاکستا ن بھی واضع طور پر دائیں بازو اور بائیں بازو ،ترقی پسند اور رجعت پسند ،سرخ اور سبز ، رائٹ اور لیفٹ بلاکس میں تقسیم ہوچکا تھا۔ ملک بھر کی دولت و سائل پر 22خاندان قابض تھے ۔ان ہی کی اجارہ داری تھی ۔ملک استحصالی اور استحصا ل زدہ طبقوں میں تقسیم ہوچکا تھا بلکہ مذہبی طبقوں میں بھی تقسیم ہوچکا تھا۔ مذہبی جماعتوں نے انتہاپسندی کی راہ اپنالی تھی ۔اس صورتحال میں عوام مایوسی کا شکار ہوگئے تھے ۔ان حالات میں بھٹو صاحب نے ملک و قوم کو مایوسی کے گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیااور اس کے قیام کے لیے اپنے دوستوں ، ساتھیوں اور مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کا طویل سلسلہ شروع کیا جو مارچ 1967ء سے نومبر 1967ء تک جاری رہا ۔اس دوران بھٹو صاحب نے طلبہ ،مزدوروں ، محنت کشوں ، کسانوں ، ادیبوں ،شاعروں اور ترقی پسند دانشوروں سے رابطے کیے اور اپنے ہی جاگیردانہ طبقے سے حقیقی عوامی انقلاب کے لیے بغاوت کی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کی بنیادی دستاویز نمبر ۱کا عنوان بھی یہی ہے ـ "ایک نئی پارٹی کیوں ـ” اس دستاویزمیں اس وقت کے تمام سماجی ، معاشی ، داخلی ، خارجی ، دفاعی مسائل کی صورتحال پر حقائق پر مبنی مکمل جائزہ پیش کیا گیا۔
29نومبر1967ـــــــــء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہاشگاہ پر نئی پارٹی کے قیام کے لیے دور وزہ اجلاس منعقد ہوا جس میںتقریبا400افراد نے شرکت کی جس کی صدارت بھٹو صاحب نے کی ۔پہلے روز کے اجلاس میں مختلف طبقات کی نمائندہ قیادت اور سرگرم رہنمائوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پیپلز پارٹی کا قیام 30 نومبر 1967ء کومنعقد ہونے والے تاسیسی اجلاس کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں واضح طور پر درج ہے کہ ’’پارٹی پالیسیوں کا حتمی مقصد ایک طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے کچھ عرصے بعد جب پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک ابھری۔ محنت کشوں، نوجوانوں اور کسانوں نے تاریخ کے میدان میں داخل ہو کر ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر دیا، ان انقلابی حالات میں صرف پیپلز پارٹی کا بنیادی سوشلسٹ منشور ہی سماج کو یکسر تبدیل کر دینے کی عوامی امنگوں پر پورا اترتا تھا۔ 1968ء میں ہالا میں منعقد ہونے والی پارٹی کانفرنس میں بنیادی بحث اس سوال پر تھی کہ پارٹی کو انقلابی پرچی کے ذریعے کرنا ہے یا برچھی کے ذریعے،لیکن تمام مندوبین نے متفقہ طور پر پرچی کے حق میں فیصلہ دیا۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں