نیلم جہلم پراجیکٹ کی لاگت میں چوتھی مرتبہ اضافہ
شیئر کریں
تیسری مرتبہ اضافے کے خلاف تنقید اورتبصروں کاسلسلہ رکا نہیں تھا کہ ارباب اختیار نے ایک مرتبہ پھر اس کی لاگت میں اچانک مزید60ارب روپے کا اضافہ کرنے کااعلان کردیا
ساڑھے 84 ارب روپے کے اس منصوبے کی لاگت 464 ارب روپے ہوگئی ہے ،اصل تخمینے کے مقابلے میں 500 گنا سے بھی زیادہ جب کہ اعلان کے مطابق محض 15 فیصد کام باقی رہ گیاہے
ایچ اے نقوی
نیلم جہلم پراجیکٹ کی تکمیل کی صورت میں پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں 950 میگاواٹ کا اضافہ ہونے کی امید ہے، لیکن اس پراجیکٹ سے لگائی گئی اس امید کے ساتھ بہت سارے اگرمگر موجود ہیں،کیونکہ نیلم جہلم پراجیکٹ کے حوالے سے پاکستان کے بھارت کے ساتھ تنازعات موجود ہیں ،بھارت اور پاکستان کے درمیان معاہدے کے مطابق جو بھی ملک اپنا پراجیکٹ پہلے مکمل کرلیتاہے اسے دریائے نیلم کے پانی پرترجیحی حقوق حاصل ہوجائیں گے اگربھارت کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پہلے مکمل کرلیتا ہے تو بھارت کو یہ ترجیحی حقوق حاصل ہوجائیں گے اور بھارت جو عالمی بینک کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کرچکا ہے اپنی ہٹ دھرمی پر اتر آتاہے اور اگرعالمی سطح پر بھارت کے کشن گنگا ڈیم کی منظوری دیدی جاتی ہے جس کاقوی امکان ہے تو اس کے بعد دریائے نیلم سے اس پراجیکٹ کیلئے پانی ملتے رہنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس سے قبل بھی اس حوالے سے ثالثی کافیصلہ پاکستان کیلئے پاکستان کیلئے زیادہ حوصلہ افزا ثابت نہیں ہواتھااوراگر دریائے نیلم میں مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں پہنچتا تو یہ پراجیکٹ اپنی موت آپ مرسکتاہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ2002 میں بھارت کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے اعلان کے بعد انتہائی جلد بازی میں نیلم جہلم پراجیکٹ کی تعمیر کی منظوری دی گئی تھی اور ابتدائی طورپر اس کی لاگت کاتخمینہ 84 ارب 50 کروڑ روپے لگایاگیاتھا۔ طویل عرصے سے زیر تعمیر اس منصوبے کی لاگت میں بار بار اضافہ کئے جانے کی وجہ سے یہ پراجیکٹ سرکاری خزانے پر ایک بوجھ بن کر رہ گیاہے، گزشتہ دنوں اس پراجیکٹ کی لاگت میں تیسری مرتبہ اضافہ کرکے اس کی تخمینی لاگت 404 ارب روپے کردی گئی تھی اس وقت بھی اخبارات میں اس حوالے سے کافی اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور ماہرین نے بھی اس میں تیسری مرتبہ اضافے کو بلاجواز قرار دیاتھا ،لیکن ارباب اختیار نے ان تمام اعتراضات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس میں اضافے کی منظوری دیدی تھی اور قوم کو یہ مژدہ سنایاتھا کہ اس پراجیکٹ کی تکمیل سے ملک میں بجلی کی کمی کامسئلہ بڑی حد تک حل ہوجائے گا اور ملک کو نسبتاً سستی بجلی مل جائے گی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عوام کے مسائل ومشکلات میں کمی آئے گی ، صنعتی اور زرعی مقاصد کیلئے بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی ہونے کی صورت میں صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا، ملک میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور اس طرح یہ پراجیکٹ ملک میں خوشحالی اور قومی آمدنی میں اضافے کا ذریعے بن جائے گا۔ لیکن ابھی پراجیکٹ کی لاگت میں تیسری مرتبہ اضافے کے خلاف تنقید اورتبصروں کاسلسلہ رکا نہیں تھا کہ ارباب اختیار نے ایک مرتبہ پھر اس کی لاگت میں اچانک مزید60ارب روپے کا اضافہ کرنے کااعلان کردیا ہے اس طرح اس پراجیکٹ کی لاگت میں چوتھی مرتبہ اضافے کی منظوری کے بعد اب 84 ارب 50 کروڑ روپے کے اس منصوبے کی لاگت 464 ارب روپے ہوگئی ہے یعنی اصل تخمینے کے مقابلے میں 500 گنا سے بھی زیادہ۔اس پراجیکٹ کی لاگت میں 60ارب روپے کے اضافے کااعلان اس حقیقت کے باوجود کیاگیا ہے کہ خود ارباب حکومت کے اعلانات کے مطابق اس پراجیکٹ کا 85 فیصد کام مکمل ہوچکاہے اور اب محض 15 فیصد کام باقی رہ گیاہے۔یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پراجیکٹ کی لاگت میںمزید 60 ارب روپے کی منظوری تو دیدی گئی ہے لیکن ارباب حکومت اب بھی یہ بتانے کو تیار نہیں ہے کہ یہ منصوبہ کب تک مکمل ہوگا اور اس سے بجلی کی پیداوار شروع ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا۔اگر حکومت کے اس اعلان کو درست تسلیم کرلیاجائے کہ پراجیکٹ کا صرف 15 فیصد کام باقی رہ گیاہے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ صرف 15 فیصد کام کی تکمیل کیلئے کوئی ٹائم فریم مقرر کرنے میں کیادشواری ہے اور کیا صرف 15 فیصد کام کی تکمیل کیلئے مزید 60 ارب روپے کی منظوری کاکوئی جواز ہے؟۔ کیا حکومت نے اس پراجیکٹ پر خرچ ہونے والی رقم کاکوئی آڈٹ کرایا ہے ؟اگر ایسا کرایاگیاہے تووہ آڈٹ رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے سے کیوں گریز کیا جارہاہے ؟۔ماضی میں اس پراجیکٹ کے حوالے سے کرپشن کی کئی کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں جبکہ ستمبر کے مہینے میں واپڈا کے موجودہ چیئرمین کابینہ کے ایک اجلاس میں اس منصوبے کو ناقص اوربدانتظامی کا شاہکار قرار دے چکے ہیں ۔
واضح رہے کہ نیلم جہلم پراجیکٹ کی چیف ایگزیکٹو افسر نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں خود ہی یہ اعتراف کیاتھا کہ پراجیکٹ کے اصل ڈیزائن میں نقص تھا لیکن اس کے ساتھ ہی انھوںنے یہ دعویٰ بھی کیا تھاکہ پراجیکٹ کانیا ڈیزائن 100 فیصد درست ہے۔اس پراجیکٹ کے درمیان میں ہی اس کی بورنگ مشین کی منظوری دی گئی جس کے بارے میں کئی اعتراضات سامنے آئے تھے جس میں مبینہ کرپشن کے الزامات بھی شامل تھے اور یہاں تک کہاجارہاتھا کہ پراجیکٹ میں کرپشن کی نئی راہیں کھولنے کیلئے اس طرح کے فیصلے کئے جارہے ہیں جن کو اس کی لاگت میں اضافے کاجواز بنایاجارہاہے۔جبکہ اس طرح کے فیصلوں سے اس کی تکمیل میں تاخیر بھی ہوتی جارہی ہے۔ہوسکتاہے کہ اس کی لاگت میں بار بار اضافے کی وجہ سے یہ پراجیکٹ تکمیل کی صورت میں انجینئر نگ کا کوئی شاہکار بن کر سامنے آئے،لیکن کیا صرف950 میگاواٹ بجلی کے حصول کیلئے کم وبیش 500 ارب روپے کے خرچ کاکوئی جواز پیش کیاجاسکتاہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایک نئی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ نیلم جہلم پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی پن بجلی کی قیمت کم از کم 20 روپے فی یونٹ ہوگی ،جوکہ ڈیزل سے حاصل ہونے والی بجلی کی لاگت سے بھی بہت زیادہ ہے۔ان تمام باتوں اور اعتراضات کے باوجود اب یہ پراجیکٹ ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکاہے جہاں اس پر کام روکنے کامشورہ دینا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہوگا لیکن حکومت کو خود دانشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس پراجیکٹ میں کرپشن اور بد انتظامی کے حوالے سے لگنے والے الزامات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف انداز میں تحقیقات کرانی چاہئے اور اگر کسی بھی مرحلے میں کوئی بد انتظامی اور کرپشن ثابت ہوجائے تو اس کے ذمہ داروں کو سامنے لاکر کڑی سزائیں دینے کے ساتھ ان سے قوم کی لوٹی ہوئی رقم بمع سود واپس لینے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کے حوالے سے حکومت کی نیت کے حوالے سے شکوک وشبہات باقی نہ رہیں۔