میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ قسط21

سفر یاد۔۔۔ قسط21

منتظم
جمعرات, ۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
ہمیں کیمپ میں پانچواں روز تھا کہ جمعہ آگیا، یہاں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے صبح کالج تو نہیں جانا تھا لیکن مشکل یہ آپڑی تھی کہ کیمپ میں وقت کیسے گزرے گا، خیر ہم نے بستر پر پڑے رہنے میں عافیت جانی لیکن دس بجے کے قریب چار و ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ ناشتے کے لئے جنادریہ بازار تک جانا ہی تھا، سوچا بن اور جوس لیکر گلزار کی دکان پر بیٹھ جائیں گے ، گلزار سے گپ شپ میں کچھ وقت گزر جائے گا۔بازار پہنچے تو اکثر دکانیں بند نظر آئیں۔ بقالہ کھلا ہوا تھا جہاں سے بن اور جوس کے دو پیکٹ لیکر گلزار کی دکان کی جانب چل پڑے۔ گلزار کی دکان کا شٹر بند تھا اور اس پر لگا تالا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ہم نے سوچا شائد کچھ دیر میں گلزار آہی جائے یہ سوچ کر وہیں دکان کے باہر ٹہلنا شروع کردیا۔کچھ وقت گزرنے کے بعد پیٹ میں چوہے دوڑتے محسوس ہوئے تو ٹہلتے ہوئے ہی بن کھانا اور جوس پینا شروع کردیا۔گلزار کو نہ آنا تھا سو وہ تو نہ آیا ادھر ہم نے جوس کا دوسرا پیکٹ بھی پی ڈالا۔ گلزار کے نہ ملنے سے جو مایوسی ہوئی تھی اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پہاڑ سا دن گزارنا تھا۔ نہ کوئی مونس و غم خوار تھا نہ کوئی محسن و مربی، نہ کوئی جاننے والانہ ہی کوئی ملنے جلنے والا۔اس حالت میں صبح کو شام کرنا مانو کسی پہاڑ کو سرکرنے جیسا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔نیم دلی کے ساتھ واپس کیمپ کی جانب روانہ ہو گئے راستے میں مرکزی مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ جمعے کی نماز کا وقت ہی پوچھ لیں۔اس خیال سے مسجد کے اندر چلے گئے کہ شائد نماز کے اوقات کا کوئی چارٹ لگا ہوا مل جائے، ادھر ادھر دیکھا کوئی چارٹ جیسی چیز نظر نہ آئی، باہرآکر ایک بنگالی بھائی سے پوچھا جمعے کی نماز کب ہوگی، جواب ملا ”بورا بزے“ آجانا۔ہم نے دوبارہ پوچھا ، دوبارہ وہی جواب ملا ”بورا بزے “بولا نا بورا بزے۔ پھر اس نے ہماری کلائی کی گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور بارہ کے ہندے پر انگلی رکھ کر بولا ”بورا بزے“۔ اچھا ،بارہ بجے ہم نے گردن ہلاتے ہوئے کہا، ہم نے اس بنگالی بھائی کا شکریہ ادا کیا اور کیمپ کی جانب چل دیئے۔ کیمپ پہنچے تو سوا گیارہ کا وقت تھا، وہاں افراتفری مچی ہوئی تھی ، لوگ غسل خانوں کی جانب لپک رہے تھے جو نہا دھو چکے تھے وہ نماز کے لئے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہم پاکستان میں ڈھائی بجے جمعہ پڑھنے کے عادی تھے یہاں اتنی جلدی جمعے کی تیاری دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ دوڑے دوڑے کیبن میں گئے پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوئی اکلوتی شلوار قمیض نکالی کیونکہ ہم پینٹ شرٹ اور ٹی شرٹ کے کئی جوڑے اپنے ساتھ لائے تھے۔اگلا مرحلہ مزید سخت تھایعنی غسل خانے تک پہنچنا اور بارہ بجے سے پہلے تیار ہو کر مسجد پہنچنا۔جیسے تیسے تمام مراحل عبور کرتے ہوئے مسجد تک پہنچے تو وہاں رش لگا ہوا تھا،بڑی مشکل سے مسجد کے صحن میں جگہ ملی لیکن مشکل یہ تھی کہ صحن پر کوئی سایہ دار چیز موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے دھوپ اور گرمی میں نماز پڑھی ، یہاں دعا نماز سے پہلے ہی کر لی جاتی ہے اور خطیب صاحب پہلے سے لکھا ہوا خطبہ جمعہ پڑھتے ہیں۔
آج کل کچھ خطیب حضرات جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرتے نظرآتے ہیں بعض جمعہ کا خطبہ پڑھنے کے لیے اسمارٹ ڈیوائسز آئی پیڈز وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں۔لیکن اس میں اختلاف رائے موجود ہے۔ کچھ مذہبی اسکالروں نے اس رجحان پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ ائمہ اور خطباءکو خطبہ دیتے وقت آئی پیڈز کا سہارا نہیں لینا چاہیے اور اس کے بجائے وہ کاغذ پر لکھے خطبہ کو دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے عبادت گزار مساجد میں روحانی بالیدگی اور ترقی کے لیے آتے ہیں۔اس لیے ان کے احساسات کا احترام کیا جانا چاہیے۔امام کا ایک آئی پیڈ کو دیکھ کر خطبہ پڑھنا بے توقیری کی علامت ہے۔کچھ علما کا کہنا ہے ا مام کے لیے سچ کا لمحہ وہی ہوتا ہے جب وہ منبر پر کھڑا ہوتا ہے۔ایک امام کی آواز کا زیر وبم جتنا قدرتی ہوگا،اس کے اثرات بھی اسی اعتبار سے زیادہ مضبوط ہوں گے۔کاغذ پر لکھے خطبے کو پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن ٹیکنالوجی کو مسجد میں لانے سے گڑ بڑ پیدا ہو سکتی ہے۔لیکن جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے علما کا کہنا ہے کہ خطیبوں کو آئی پیڈز یا اسی طرح کی دوسری ڈیوائسز کے استعمال سے روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور مذہبی وزارت نے ائمہ کو خطبات دیتے وقت آئی پیڈز کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے۔ساڑھے بارہ بجے تک ہم جمعے کی مکمل نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل آئے۔ مسجد کے باہر توباقاعدہ بازار لگا ہو ا تھا۔ مقامی اور غیر مقامی لوگ پھلوں سبزیوں سے بھری پک اپ گاڑیاں لے کر کھڑے تھے ، کچھ لوگ کپڑے جبکہ کچھ لو گ گھریلو استعمال کی اشیا فروخت کر رہے تھے۔ایک شور مچا ہوا تھا۔نمازی مسجد سے باہر نکل کر خریداری میں مصروف ہو گئے، ہم نے کچھ نہیں لینا تھا اس کے باوجود ہم وہیں کھڑے لوگوں کو خرید وفروخت کرتا دیکھتے رہے۔اچانک ہمارے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا، چونک کر دیکھا تو گلزار مسکراتا ہو نظر آیا، ہمیں اس روز گلزار کو دیکھ کر جس قدر خوشی ہوئی بیان نہیں کر سکتے ، گلزار نے سلام دعا کے بعد ہمیں اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی اور ہم اس کے ساتھ چل پڑے۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں