اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے فلسطینیوں کا جاری قتل عام اور بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے لوگوں کے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں اقوام متحدہ کی ناکامیوں کی سب سے واضح مثالیں ہیں۔ انہوں نے عالمی امن اور سلامتی کو درپیش پرانے اور نئے خطرات ،نئی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے،جامع عالمی اقتصادی ترقی ، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات پر قابو پا نے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی صلاحیت کو مزید تقویت دینے پر زور دیا۔ ان چیلنجز پر تما م خاص طور پر نوجوانوں کی امیدیں اقوام متحدہ سے جڑی ہو ئی ہیں۔
دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا کو امن اور انصاف دینے کیلئے 24اکتوبر 1945کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔قیام امن کیلئے اقوام متحدہ کے قیام کو 79سال گزرگئے لیکن فلسطین اور کشمیر سمیت کئی تنازعات ثابت کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اپنے قیام سے اب تک اپنا مقصد وجود ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ویٹو پاور اس کے قانون کی وہ شق ہے جو اقوام متحدہ کیلئے عالمی امن کی بحالی اور مظلوم اقوام کو انصاف کی فراہمی کے سامنے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اقوام متحدہ کی ناکامیوں کی مثالوں میں فلسطین سرفہرست ہے فلسطینی ریاست کے قیام میں ناکامی کی اہم وجہ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسی عالمی طاقتوں کی اسرائیل کیلئے اندھی حمایت ہے جس کے بل پر وہ آج بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔یہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے، بھارت اپنی کمزور پوزیشن کے پیش نظر یکم جنوری 1948 کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا 28جنوری 1948کو سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کی رضامندی سے ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے ہوگا۔استصواب رائے کیلئے پاکستان نے تو اپنی ذمہ داری پوری کی مگر بھارت مکر گیا، عالمی طاقتوں نے اپنے مفاد میں بھارت کا ساتھ دیا اور مظلوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم پر آنکھیں اور کان بند کرلیے۔عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مظلوم اور چھوٹی قوموں کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے، طاقتور ملکوں کی من مانی کا مقابلہ کرنے کیلئے علاقائی تعاون کی تنظیمیں اب زیادہ فعال ہیں۔ مظلوم قوموں کے خلاف ویٹو پاور کے ناحق استعمال کی روش نہ بدلی گئی تو اقوام متحدہ اپنے ہونے کا ہر جواز کھو دے گا۔عالمی امور کے ماہر اور سابق سفیر ڈاکٹر جمیل خان کہتے ہیں کہ پاکستان، اٹلی اور برازیل ویٹو پاور کے غیر منصفانہ استعمال کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں، یک قطبی دنیا ایک بار پھر تبدیلی کی راہ پر ہے۔
اقوام متحدہ نے متعدد تنازعات کو حل کرنے ، عالمی امن و سلامتی، ہتھیاروں پر قابو پانے، اقتصادی و سماجی ترقی اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارہ امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے ملکی ریاستوں کے درمیان تعاون کے لیے عالمی برادری کا بنیادی پلیٹ فارم ہے۔ اقوام متحدہ کی گزشتہ78 برس کے دوران بہت سی کامیابیاں حاصل کیں جو قابل فخر ہے لیکن وہیں وہ کئی طریقوں سے اپنے چارٹر کے وژن سے بھی محروم رہا ہے جن میں 1971میں پاکستان کے خلاف ہونے والی بھارتی جارحیت کو روکنے کی ناکامی واضح مثال ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے اصولوں اور مقاصد کو برقرار رکھنے کا پختہ اور مستقل عزم رکھتا ہے اور اس ملک نے عالمی امن، سلامتی اور اس کے حصول میں اقوام متحدہ کے کردار کو آگے بڑھانے میں مثبت کردار ا دا کیا ہے۔بہرحال فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی مستقل ناکامی ہے، بھارت جعلی انتخابات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا کشمیری اپنے سیاسی مستقبل کے لئے اقوامِ متحدہ کی زیرنگرانی استصواب کے منتظر ہیں۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں پْرامن مظاہرین پرپیلٹ گنوں کا استعمال کررہا ہے انسانی تاریخ میں نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو نابینا کرنے کی مثال نہیں ملتی مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر اقوام متحدہ کا ایجنڈا نامکمل رہے گا۔
کشمیر اور فلسطین کے مسائل دو ایسے معاملات ہیں جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر طویل ترین عرصے سے چلے آرہے ہیں لیکن اقوامِ متحدہ اب تک ان کا حل نہیں نکال سکی، یہ محض اتفاق تھا یا بڑی طاقتوں کی منصوبہ بندی کا حصہ کہ دونوں مسائل تقریباً ایک ہی وقت میں پیدا ہوئے، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی ناجائز ریاست تخلیق کرنے کے لئے فلسطینیوں کو اْن کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ طویل ترین عرصے سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود مسئلہ کشمیر بھی ہے، بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں پوری دنیا کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیری عوام کو اْن کا حقِ خودارادیت دیا جائیگا اس وقت کشمیری مجاہدین نے کشمیر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی تھی اور بھارت کو خطرہ تھا کہ اگر ایک دو دن میں جنگ بندنہ ہوئی تو کشمیری مجاہدین سری نگر تک پہنچ جائیں گے، جب اقوامِ متحدہ کی مداخلت سے جنگ بند ہوگئی اور بھارت نے تازہ دم فوجی دستے ریاست میں پہنچا دئے تو نہرو اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے اور بعد میں آنے والے حکمران بھی اس روش پر چل نکلے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت سے منہ موڑ کر کشمیر کو اپنا ”اٹوٹ انگ” کہنا شروع کردیا حالانکہ اِس وقت بھی کشمیر کی جنگِ آزادی اپنے عروج پر ہے اور بھارت کی نصف سے زیادہ فوج جو کشمیر میں تعینات ہے کشمیری عوام کی تحریک آزادی کے آگے ٹھہرنہیں پا رہی اور بہت سے فوجی افسر اپنی حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
ابھی چند روز پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کے ایک سابق سربراہ نے برملا کہا ہے کہ بھارت کو نہ صرف پاکستان کے ساتھ بلکہ کشمیریوں کے ساتھ بھی مذاکرات کرنا ہوں گے اور اس کے سوا امن کا کوئی راستہ موجود نہیں۔بھارت نے کشمیر میں ظلم و تشدد کا جو دور شروع کررکھا ہے اس کی وجہ سے کشمیریوں کے دل میں بھارت اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف نفرت کے الاؤ روشن ہوچکے ہیں اور بہت سے سیاسی رہنماؤں کا بھی یہی حال ہے کہ اگر بھارت نے مذاکرات میں تاخیر کی اور اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا تو کشمیر ہاتھ سے نکل جائیگا ۔