میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مکہ مکرمہ پر ناکام میزائل حملہ

مکہ مکرمہ پر ناکام میزائل حملہ

منتظم
منگل, ۱ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
عالمی میڈیا میں جن تنظیموں اور انکے کرتوتوں کو اسلام سے جوڑ کر مغرب میں حق کے متلاشی ذہنوں کو کنفیوژ کیا جاتا ہے، وہی تنظیمیں ریاست سعودی عرب اور سعودی حکمرانوں کے خلاف کارروائیوںمیں بھی پیش پیش رہتی ہیں ، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ مغربی میڈیا نے تقریباََ دو عشروں تک اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ کو اسلام کی نمائندہ باور کرا کے مغرب کے ان معتدل ذہنوں کو جودلیل کے سامنے سر کشی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں بہت توقع تھی کہ وہ دین اسلام کی سچائی کے قائل ہو کر مشرف بہ اسلام ہو جائیں گے انھیں اسلام سے نہ صرف دور رکھا بلکہ متنفر بھی کیا اور آج داعش کے ذریعے بھی یہی مقاصد حاصل کئے جارہے ہیں ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں روس کے توسیع پسندانہ عزائم کو ملیا میٹ کرنے اور سرمایہ داروں کے خلاف کمیونزم کی جنگ کو اپنی خواہش کے مطابق انجام تک پہنچانے کے لیے مغرب کا سردار امریکا اپنی تمام صلاحیتوں اور ہتھیاروں کو میدان میں نکال لایا تھا۔ روس کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین امریکا کی آنکھ کا تارا تھے ۔ امریکی بلاک کی ساری نوازشات ان لوگوں پر تھیں جو اس جنگ میں روس کے مد مقابل تھے۔ روس کے متعلق 80 کی دہائی میںہی مطلوبہ مقاصد حاصل ہو چکے تھے۔
روس کے بعد اب اگلا ہدف دین اسلام اور مسلمان ممالک بنے ۔ مغرب میں تیزی سے پھیلتا ہوا اسلام سرمایہ داری کی علمبردار قوتوں کو قطعی گوارہ نہ تھا۔ روس کی شکست و ریخت کے بعد اب انھیں ایک فرضی دشمن کی ضرورت بھی تھی ۔ تاکہ خطرات کی آڑ میں مغربی عوام کو بدستور استعمال کیا جاتا رہے۔ روس سے فارغ ہونے کے بعد جہادی جتھوں کا رخ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی طرف موڑ دیا گیا۔ ایک تیر سے دو نہیں تین شکار کیے گئے۔
۱۔مغرب میں اسلام کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے انتہا پسند تنظیموں کو دین اسلام کا نمائندہ بنا کر اسلام کا تاثر خراب کرنا ۔
۲۔ اسلامی ممالک کو کمزور اور غیر مستحکم کرنا ۔
۳۔ اسلام کو خطر ے کے طور پر پیش کرناتاکہ سرمایہ دارانہ بلاک کے مغربی ممالک اور مغرب کے عوام کو متحد رکھا جا سکے۔
اسلامی ممالک میں سعودی عرب بطور خاص ہدف تھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ دنیا بھر کے عوام حرمین شریفین کی خدمت اور حج اور عمرے کے بہترین انتظام و انصرام کے باعث سعودی عرب اور وہاں کے حکمرانوں سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کے باہمی تنازعات میں ان کا اصلاحی کردار نتیجہ خیز ہوتا تھا۔ سعودی عرب تمام اسلامی دنیا میں ہر برے وقت کا ساتھی بھی رہا ہے۔ جہاں مسلمانوں کو قدرتی آفات یا جنگوں کا سامنا ہوا ، سعودی عرب بے لوث مددگار کا کردار بھی ادا کرنے وہاں پہنچ گیا۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں بھی سعودی عرب کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ اسی لیے اسلام اور مسلمان دشمن قوتیں سعودی عرب کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں۔ سعودی عرب دشمنی کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب جو دنیا بھر میں دین اسلام کی نشر و اشاعت، مساجد اور اسلامی مدارس کے قیام اور قرآن و حدیث کے تراجم کرا کے دنیا بھر میں ان کی تقسیم کا اہتمام کرنے والی واحد اسلامی ریاست ہے۔ تقریباََ ہر مغربی ملک کے متعدد شہروں میں اسلامک سینٹرز کی پر شکوہ عمارتیں اور غیر مسلموں کے لیے زبردست دعوتی سرگرمیاں سعودی حکومت اور وہاں کے عوام ہی کی مرہون منت ہے۔ اس لیے جو لوگ مغرب کے عوام کو اسلام سے دور رکھنا چاہتے ہیں ، سعودی عرب اور وہاں کے حکمرن ان کی آنکھوں کا کانٹا ہیں۔ اس لیے محض اتفاق نہیں ہے کہ پہلے القاعدہ اور اب داعش کا نشانہ سعودی عرب ہے۔ گزشتہ روز سعودی پولیس نے داعش کے دو گروہ گرفتار کیے ہیں جو چار چار افراد پر مشتمل تھے اور سعودی عرب اور امارات کے درمیان ورلڈ کپ فٹ بال کوالیفائی راﺅنڈ کے لیے کھیلے جانے والے میچ میں بم دھماکے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں داعش کے یہ دہشت گرد سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ انھیں شام میں موجود داعش کے رہنما کی جانب سے ہدایت دی جارہی تھیں۔ اس سے بھی زیادہ سنگین اور دل دہلادینے والا سانحہ جمعرات کے روز ہوا جب سعودی اتحاد ی افواج نے حوثی باغیوں کی جانب سے فائر کیا گیا بیلسٹک میزائل مکہ مکرمہ سے 65کلو میٹر دور تباہ کر دیا۔ یہ میزائل یمن کے صوبے صعدہ جو مکہ مکرمہ سے تقریباََ 880کلو میٹر دور واقع ہے، سے فائر کیا گیا تھا۔ اور مبینہ طور پر اس کا نشانہ مکہ میں موجود مقدس مقامات تھے۔ جب کہ خود حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ ان کا نشانہ سعودی عرب کا سب سے مصروف ترین عبدالعزیز انٹرنیشنل ائیر پورٹ (جدہ) تھا۔اس ایئر پورٹ پر دنیا بھر سے آئے عازمین حج و عمرہ اترتے اور روانہ ہوتے ہیں۔ گویا سعودی عرب کو انتشارکا شکار اور غیر مستحکم کرنے کے لیے ایک طرف جہاد کے نام پر قائم تنظیمیں بر سر پیکار ہیں اور دوسری طرف ایران نواز قوتیں سر گرم ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ عالم اسلام کے ساتھ اتنا بڑا سانحہ بیتا۔ ان کا روحانی مرکز خانہ کعبہ اور مکہ مکرمہ پر حملے کی جسارت کی گئی لیکن جس طرح کا ردعمل آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا۔ کیوں کہ اسلام دشمن قوتیں جہاں سعودی عرب کو ہر اعتبار سے غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر ہیں وہاں وہ اس بات کا بھی پورا اہتمام کر رہی ہیں کہ مسلمانوں کے دل سے سعودی عرب کے حکمرانوں کی عقیدت نکال باہر کریں اورانھیں مسائل کے سامنے تنہا کردیں ۔ مسلمانوں کے باہمی تعصبات کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔ اور میڈیا میں ایک غالب عنصر سعودی عرب کو متنازع بنانے اور بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا یہاں تک کہ اگر سعودی عرب پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امداد بھی دے تو اسے بھی سازش قرار دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل انتہائی نا مناسب ہے۔ سعودی حکومت حرمین شریفین کی محافظ ہے اور عالم اسلام بالخصوص پاکستانیوں کی محسن بھی ہے۔ سعودی عرب کے تحفظ کے لیے کوئی بھی کردارپاکستان کے مفاد میں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں