میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ قسط دوم

سفر یاد۔۔۔ قسط دوم

منتظم
منگل, ۱ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہوائی جہاز ائیرپورٹ کے رن وے پرآہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا۔ ہماری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اس لیے باہر کے مناظر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ منظر تھاایئرپورٹ پر مختلف سائز کے کھڑے جہازاور ٹرمینل کی عمارت بھی نظر آرہی تھی، ایئرپورٹ پر مختلف قسم کی گاڑیاں بھی دوڑتی پھررہی تھیں۔ جہازگھوم کر مین رن وے پر آیا۔ پائلٹ نے جہاز دوڑاتے ہوئے ٹیک آف کیلیے انجن آن کئے۔ انجن کی بڑھتی ہوئی آواز کے ساتھ جہاز کی رفتار بھی تیز سے تیز ہوتی گئی اور پھر جہاز کے پہیوں نے زمین چھوڑ دیا۔ جہاز کی کھڑکی سے یہ منظر بڑا دلفریب لگ رہا تھا ، جہاز جیسے جیسے فضاءمیں بلند ہو رہا تھا ویسے ویسے نیچے زمین پر مکان ،سڑکیں ،گاڑیاں چھوٹی اور چھوٹی ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ جلد ہی جہازبادلوں میں پہنچ گیا۔اب باہر دیکھنے کو کچھ نہیں تھا سو ہم نے بھی آنکھیں بند کرلیں، لیکن دماغ میں خیالات کے جھکڑ سے چل رہے تھے۔ گھر ،دفتر،عزیز، دوست سب یاد آرہے تھے۔ کس سے کیا کہا ،کس نے کیا کہا ،کس نے ٹھیک کہا ،کس سے غلط کہا، سود وزیاں کا ایک دفتر تھا اورہم فکر کے ربر سے بیتے کل کے کھاتے مٹا کر ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگے تھے۔ پھر آنے والے دن کیسے ہوں گے کی فکر نے وہم کے دروازے پردستک دی اور ہم اندیشہ ہائے دور دراز میں الجھ کر کہیں دور نکل گئے۔ ایئر ہوسٹس کی کھانے کی پکار سے ہم جہاز میں واپس آگئے۔ کراچی سے ریا ض کا سفرتین گھنٹے میں تمام ہوا۔ہم نے صبح دس بجے اڑان بھری تھی ایک بجے ہمارا جہاز ریاض ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ جہاز میں ایک دم افرا تفری مچ گئی،ہر ایک کو جہاز سے نکلنے کی جلدی تھی، جلد بازی شائد ہماری قومی عادت بن گئی ہے، حالانکہ ہمارے مذہب میں جلد بازی کو شیطان کا کام کہا گیا ہے مگر کیا مجال جو کوئی اس طرف توجہ دے۔ گھر ہو یا بازار ہوں یا بس اور ریلوے ا سٹیشن، سڑک ہو یا ایئرپورٹ پوری قوم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر آگے نکلنے کی مشق کرتی نظر آتی ہے۔خیر جہاز سے نکل کر ہم جیسے تیسے امیگریشن ہال میں پہنچے جہاں لوگوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ریاض ایئرپورٹ خطے کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے ،اس لیے یہاں ہروقت پروازوں کا سلسلہ جاری اور مسافروں کا رش لگا رہتا ہے۔ سست روی سے بڑھتی لائن میں لگ کر ہم ارد گرد کے لوگوں کا جائز ہ لینے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں میں زیادہ تر مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے، پختون بھائی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جو اپنے آہنی ہاتھوں سے اپنی قسمت پانے کی کوشش میں دیار غیر آئے تھے۔ جو لوگ پہلی بار بیرون ملک پہنچے تھے ان کے چہروں سے کنفیوژن عیاں ہو رہی تھی۔
امیگریشن سے فارغ ہوکر سامان لینے کا مرحلہ آیا جس کے بعد سب سے سخت مرحلہ شروع ہوا یعنی سامان کی کسٹم چیکنگ۔ یہاں پاکستانیوں کو الگ قطاروں میں کھڑا کرایا گیا، ہمارے پہنچنے تک قطاریں طویل ہو چکی تھیں، ہم ایک قطار میں کھڑے ہو گئے، کسٹم کی قطاریں چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھیں۔ سعودی عرب میں سامان کی سخت ترین چیکنگ کی جاتی ہے۔ خاص طور پر منشیات اور نشہ آور اشیاءلانا سخت منع ہے۔ ہم سامان کے ساتھ قطار میں کھڑے ادھر ا±دھر دیکھ رہے تھے، ایک صاحب جو پتلون قمیض میں ملبوس تھے ،قطاروں میں کھڑے لوگوں پر خاص نظر رکھے ہوئے تھے اور گاہے گاہے کسی شخص کو قطار سے نکال کر سب سے آخر میں واقع قطار میں لے جا کر کھڑا کر دیتے تھے، ہمیں ان لوگوں کی قسمت پر رشک آیا کیونکہ اس قطار میں لوگ کم تھے۔ وہ صاحب ہمارے قریب سے گزرے تو ہم نے انگریزی میں اس سے پوچھا وہ آخری قطار کن لوگوں کی ہے، انہوں نے جواب دینے کے بجائے ہمارا ہاتھ پکڑا اور اس آخری قطار میں لے جا کر کھڑا کردیا۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو اب ہمارا نمبر جلدی آجائے گا۔ لیکن اس آخری قطار میں لگ کر پتہ چلا یہاں تو کسٹم سے بڑھ کر چیکنگ ہو رہی ہے، ایک بندے پر جتنا وقت عام قطار میں لگ رہا تھا اس سے دوگنا وقت اس قطار میں لگتا تھا۔ یہاں لوگوں کے بیگ اور جوتے تک پھاڑ کر چیک کیے جا رہے تھے۔ ہم نے کہا لو بھئی !جو نئے جوتے لیے تھے وہ تو گئے کام سے۔ اس قطار سے اکثر لوگوں کو سامان سمیت کہیں اور لے جایا جا رہا تھا شائد کہیں اور بھی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ ہمارے آگے صرف دو آدمی رہ گئے تو وہ پتلون قمیض والا دوبارہ آیا اور ہمیں قطار سے نکال کر دوسری لائن میں لگنے کا کہا، دوسری لائن میں ہمارا سب سے آخری نمبر تھالیکن دیر پر سوا دیر۔ لیکن دیر تو انہیں ہوتی ہے جنہیں کہیں جانا ہوہم کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ایئرپورٹ سے باہر نکل کر جانا کہاں ہے۔ ہم کسٹم آفیسر تک پہنچنے والے آخری فرد تھے، وہ بھی کئی گھنٹے کی مشقت سے نڈھال سا نظر آرہا تھا۔ ہمیں دیکھا ،بیگ کھولنے کا کہا ، بیگ کھلا تو اس کو الٹ دیا اور ہم سے عربی میں کہا ، یلا خلاص، یعنی جاﺅ کام ختم۔ اس کے چیک کرنے سے زیادہ وقت ہمیں سامان دوبارہ بیگ میں ڈالنے میں لگ گیا۔ سامان اٹھا کر باہر نکلے جہاں ہمارے گروپ کے دیگر لوگ ہمارے منتظر تھے،سامنے ریاض شہر پھیلا ہوا تھا۔۔۔ جاری ہے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں