مالیاتی اصلاحات کاایجنڈا
شیئر کریں
ڈاکٹر اکرام الحق
ٹیکسوں کا نفاذ اور اس کی وصولی کسی بھی ملک کی سماجی اور اقتصادی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلیے بنیادی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں اس شعبے پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔قومی ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد انتظامیہ اور ترقیات کیلیے وسائل جمع کرنا ہے اور عوامی وسائل کو ان مقاصد کیلیے سرکاری استعمال کیلیے منتقل کرنا ہے۔ ٹیکس لگانے کی پالیسی کا بنیادی مقصد اقتصادی انصاف کی فراہمی ہے جس کاتعلق ٹیکس کے بوجھ اور سرکاری اخراجات کی تقسیم سے ہے۔اس میں دولت کی دوبارہ تقسیم مثلاً معاشرے کے کمزور طبقے مثلاً خواتین، بچوں ،اقلیتوں ، معذوروں اور بیروزگاروں کے ساتھ سلوک شامل ہے۔ہماری ٹیکس پالیسی میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے،جبکہ اس میں صوبوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلیے مالیاتی عدم مرکزیت کا بھی فقدان ہے۔
پاکستان قرضوں کے مہیب اورہلاکت خیز جال میں پھنسا ہوا ہے،پاکستان پر واجب الادا مجموعی قرضوں کاحجم اس کے جی ڈی پی کے 67فیصد کے مساوی ہوچکا ہے اور ہمارا مالیاتی خسارہ ہماری جی ڈی پی کے 6فیصد کے مساوی ہوچکا ہے،جو صوبائی اور وفاقی حکومتوںکی جانب سے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور ملک کے تمام لوگوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہواہے،اس صورتحال میں موثر مالیاتی انتظام کاری کے ذریعے ہی موجودہ بحران پر قابو پایا جاسکتاہے۔ وفاقی حکومت کو ٹیکسوں کی شرح کم کرکے ٹیکسوں اور ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے۔جب تک گڈ گورننس کے ذریعے مالیاتی ماحول تیار نہیں کیاجاتا، حکومتیں ترقیاتی مقاصد اوربنیادی سہولتوں مثلاً پینے کے صاف پانی کی فراہمی، علاج معالجے کی سہولتوں اور تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ہاﺅسنگ کیلیے فنڈز فراہم نہیں کرسکتیں۔ ایک مرتبہ 2002 کے دوران ڈبلیو ٹی او میں پاکستان کے سفیر نے ان خیالات کااظہار کیاتھاکہ ”ہمارا ٹیکس بیس نہ تو بہت زیادہ وسیع ہے اور نہ ہی بہت چھوٹا۔ خواہ سیلز ٹیکس ہو یاکارپوریٹ انکم ٹیکس یا کسٹمز ڈیوٹی،ہمارے ملک میں ٹیکسوں کی شرح دنیا کے دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے ،مثال کے طورپر سیلز ٹیکس میں ہماری معیاری شرح17فیصد ہے جبکہ بھارت اور سری لنکا میں اس کی شرح12فیصد ہے، ہمارے ملک میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 34فیصد ہے جبکہ بھارت میں اس کی شرح 30 فیصد ہے ،پاکستان میں کسٹمز ڈیوٹی کی اوسط شرح 20.67 فیصد ہے جبکہ بھارت میں اس کی شرح 11.9 فیصد ہے۔مختصر یہ کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی پالیسیاں ٹھوس ٹیکس پالیسیوں کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وفاقی ریونیو بورڈ کے بیشتر پالیسی ساز ہماری صحیح اقتصادی صورتحال سے واقف ہی نہیں ہیں۔ کوئی ٹیکس نافذ کرتے وقت شاذ ہی اس پر غور کیاجاتاہے کہ ہماری برآمدات اور عالمی منڈیوں میں دوسرے ممالک سے مقابلے پر اس کے کیااثرات مرتب ہوں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کمپٹیشن کمیشن پاکستان سے مشاورت جاری رکھی جائے تاکہ کارٹل پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے یہ بھی ضروری ہے کہ تمام اقدامات کامیاب معیشتوں کو پیش نظر رکھ کر تجویز کئے جائیں۔
وسائل کو گردش میں رکھنا، غیر ضروری اخراجات کاخاتمہ اورتمام سرکاری اداروں میں اسٹرکچرل اصلاحات کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے۔اچھی ٹیکس پالیسیوں کے ذریعے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں اور زرعی شعبے کے چھوٹے فارمزکو ترقی دینے کیلیے انفرااسٹرکچر کیلیے رقم فراہم کی جاسکے گی جس سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔اچھی ٹیکس پالیسیوں کے ذریعے مساوی اقتصادی ترقی کے عمل کویقینی بنایاجاسکتا ہے،اس کے ساتھ پبلک پرائیوٹ مساوی شراکت کے تحت ایسے بڑے ادارے بھی قائم کئے جاسکتے ہیں جن سے غریبوں کو فائدہ پہنچے۔اس سے ایسی اسٹرکچرل تبدیلی کی بنیادپڑ جائے گی جس سے عوام کیلیے عوام کے ذریعے مدد پر مبنی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا ممکن ہوسکے گاجو کہ فی الوقت صرف شہروں تک محدود ہے۔
بدقسمتی سے وفاقی ریونیو بورڈ کا ٹریک ریکارڈ ایسا نہیں ہے جس سے یہ یقین کیاجاسکے کہ وہ 6کھرب روپے کے ٹیکس وصول کرسکے گی جبکہ ملک میں 8کھرب روپے کے ٹیکس وصولی کی گنجائش موجود ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اگلے 3سال کے دوران موجودہ گڑبڑ پر قابو پانے اورغریبوں اور تاجروں اورصنعت کاروں کو ریلیف فراہم کرنے کیلیے کافی وقت ملے گا۔موجودہ صورتحال میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ٹیکسوں کے حوالے سے تنازع جاری رہے گا۔صوبوں کوشکایت ہے کہ انھیں وفاقی ریونیو بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے ٹیکسوں کا بہت ہی کم حصہ مل پاتاہے۔ وفاقی حکومت صوبوںپر الزام عاید کرتی ہے کہ وہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت ٹیکس لگانے کے وسیع اختیارات ملنے کے بعد بھی اپنے طورپر وسائل پیدا نہیں کررہے ہیں۔اگر یہ صورتحال جاری رہی تو پاکستان قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ لوگ غربت کی آخری لکیر سے نیچے پہنچ جائیں گے۔
اس صورتحال سے باہر نکلنے کاواحد راستہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ وفاق اور صوبوں کے باہمی تعلقات اورصوبائی خودمختاری اور لوکل سیلف گورنمنٹ پر غور کرے ۔ آمدنی اوردولت کی مساوی تقسیم کے بغیرسب کچھ بے معنی ہوگااور پاکستان اقتصادی اور سیاسی بحرانوں پر قابو نہیں پاسکے گا۔