گلابی آنکھ اور۔۔ کالا دھن
شیئر کریں
عطااللہ ذکی ابڑو
چشم یا آنکھ جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو روشنی کا ادراک کرسکتی ہے اور بصارت یعنی بینائی کا عمل انجام دیتی ہے ،انسانی آنکھ عکاسے سے مماثلت رکھتی ہے اور یہ عکاسہ بھی دراصل آنکھ کے اصول پرہی ایجاد ہوا،آنکھ پھڑکنے ،آنکھ کے بھرآنے اورآنکھ کا تارا بن جانے میں بڑا فرق ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگران کی دائیں آنکھ پھڑکی ہے توکچھ اچھا ہونے والا ہے جبکہ بائیں آنکھ پھڑکنے کو کچھ برا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے ، چین میں آنکھ پھڑکنے کی کئی وجوہات تصور کی جاتی ہیں، وہاں بائیں آنکھ پھڑکے توسمجھتے ہیں کہ ان کے پیسے کہیں کھوجائیں گے ؟ اوراگر دائیں پھڑکے تو مطلب کوئی خوشخبری ملنے والی ہے ،بھارتی دائیں آنکھ کے پھڑکنے کوخوشی اوربائیں کے پھڑکنے کو بری خبرسمجھتے ہیں یہ منطق بیشتربھارتی پلٹ پاکستانیوں پربھی صادق آتی ہے اصل حقیقت کچھ یوں ہے کہ جب آنکھ ڈرائی ہوجاتی تو پھڑکنا شروع کر دیتی ہے ،طبی ماہرین اسے نیند کا پورا نہ ہونا، ذہنی دباؤ، آنکھوں کی بینائی کمزور ہونا، ماحولیاتی آلودگی، آنکھوں میں جلن، کیفین کا زیادہ استعمال، آنکھوں میں الرجی وغیرہ بتاتے ہیں اورہماری نظر میں اس کا واحد علاج اس کے خود بخود صحیح ہوجانے کا انتظارہے جس کا عرصہ کم و بیش آٹھ سے دس دن پر محیط ہوتا ہے۔
شہرقائد میں آج کل گلابی آنکھ کی وبا یعنی آشوب چشم تیزی سے سندھ کے دیگرشہروں کو متاثرکرتی ہوئی آجکل پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ سیکڑوں افراد غیرمعیاری انجکشن لگواکراپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں چند روزمیں متاثرین کی تعداد 3 لاکھ انناسی ہزارسے تجاوزکرچکی ہے متعدد افراد کو آپریشن کے بعد بینائی میں بہتری آنے کی امید ہے ، وزارت صحت پنجاب نے فوری طور پر اس انجکشن پر پابندی لگادی ہے۔ صوبے کے کچھ اضلاع میں گیارہ ڈرگ انسپکٹرمعطل ہیں ناقص انجکشن کے استعمال کوعدالت بھی چیلنج کیا جاچکا ہے۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ، نگراں وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے جمعرات 27 ستمبر سے نجی اور سرکاری اسکولوں میں تعطیلات کا اعلان کررکھا ہے ۔نگراں وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کہتے ہیں آشوب چشم کی وبا کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور مارکیٹ سے آنکھوں کے انجکشن اٹھا لیے گئے ہیں جبکہ جعلی انجکشن فراہم کرنے والوں کے خلاف ڈرگ ایکٹ کی دفعات کے تحت بغیر لائسنس ادویات کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف بھی کئی مقدمات بنائے جاچکے ہیں، ظالم لوگ ایک ایک انجکشن پرایک ایک لاکھ روپے کما رہے تھے یہ واقعہ لاہوراوربابا بلھے شاہ کے شہر قصور،بہاء الدین زکریا کی نگری ملتان اورصادق آباد سمیت صوبے بھرمیں تیزی سے پھیلتا جارہا ہے ، ڈریپ نے انجکشن کا بیچ فوری ختم کردیا ہے ۔ڈرگ کنٹرول اتھارٹی راولپنڈی نے ایواٹسن انجکشن کی خریداری پر پابندی کرعائد کرکے اس حوالے سے فارمیسیزاورمیڈیکل اسٹورزکو ایک مراسلہ بھی جاری کیا ہے ، آنکھوں کے اسپتالوں میں قائم فارمیسیز پرایواٹسن انجکشن کی فروخت پر پابندی،ادویات بنانے والی کمپنیوں کو بھی ایواٹسن انجکشن کی ترسیل فوری روکنے کا احکامات اپنی جگہ مگر سوال یہ کہ ڈرگ انسپکٹروں نے یہ انجکشن کیوں فروخت ہونے دیا؟ سارا معاملہ پرائیویٹ اسپتالوں میں ہو رہا ہے تو ہیلتھ کیئرکمیشن کہاں آنکھ موندے سوتا رہا؟ملک میں مبینہ طورپرجعلی ادویات کا کاروبارعام ہے ایک گولی سے لے کر سیرپ تک صرف لیبل ہٹاکردھڑلے سے فروخت ہورہا ہے ،سرکاری اسپتالوں کی ادویات گیٹ کے سامنے ہی موجود اسٹورزپرفروخت ہورہی ہیں اوراس کے پیچھے ایک منظم مافیا سرگرم ہے ،غیر معیاری اور زائد المیعاد ادویات مارکیٹ میں فروخت ہونے کی شکایات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن مافیا کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے نہ ان اسٹورزسے یہ جعلی ادویات ضبط ہوتی ہیں اور نہ ہی ان فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی کے لیے موثراقدامات کیے جاتے ہیں، آشوب چشم میں استعمال ہونے والا ناقص انجکشن حکومت کیلئے صرف ٹیسٹ کیس ہی نہیں انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی ایک منظم اورگھناونی سازش ہے۔ یہ کھیل کھیلنے والے ہمیں ایک آنکھ نہیں بھا رہے ؟ ہماری آنکھ بھی ان دنوں جب پہلی بارپھڑکی تھی توہم سمجھے آنکھ کا پھڑ پھڑانا شاید اشرافیہ کے کالے دھن کے خلاف آپریشن کی وجہ ہے ؟ پھرسوچا کہیں کالے دھن کو سفید کرنے کے چکر میں ہمارے گھرکے کسی خفیہ خانے میں چھپایا ہوا مال نہ نکل آئے یا پھرکسی بینک کاکوئی بے نامی اکاونٹ ہمارے نام سے ظاہر ہوجائے ؟ پھرہم سمجھے شاید ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مارے ہمارا رونے کو دل کررہا ہے ؟یہ میں آپ کو کسی بوتل والے جن کی کوئی کہانی نہیں سنارہا کہ جسے رگڑا اورخزانے کا ڈھیر لگ گیا؟ ایسا آج بھی ہورہا ہے بس اس میں کوہ قاف کی کہانیوں کی سنسنی کے بجائے اب جدت آچکی ہے ۔
چند روز پہلے کی بات ہے نواب شاہ میں انورعلی مزدور نامی شخص 32 ایکڑ زمین کا مالک نکل آیا،خبرگرم تھی کہ غریب مزدور۔انو کے نام پر بینک سے کروڑوں کا قرض بھی لیا جا چکا ہے ، مسکین مزدوریہ سب سن کرچکرا گیا وہ ڈیکوریشن کی ایک دکان پرمزدوری کرتا ہے اورمالی پریشانی سے تنک آکر قرض کیلئے بینک گیا تھا عملے نے اس سے پہلے پچھلاقرض اتارنے کا تقاضا کردیا اوربولے انو تم تو پہلے ہی بینک ڈیفالٹر ہوچکے ہو؟ تم نے جو 32 ایکڑ اراضی کے عوض کروڑوں روپے کا قرض لے رکھا ہے پہلے اسے تو واپس کردو؟ اس دو نمبر معاملے کی انکوائری اب ایک نمبرطریقے سے کی جاری ہے۔ اس سارے منظر نامے سے ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ آشوب چشم کی بیماری ملکی اشرافیہ نے کرپشن کے خلاف آپریشن سے بچنے کے لیے نہ پھیلائی ہو؟ یہ گلابی آنکھ کسی پرستان سے نہیں آئی؟ ہمیں تو یہ آشوب چشم کا شورآپریشن تھمنے کا بہانہ لگتا ہے تاکہ یہ شرفا اپنا سارا کالا دھن اور یہ اربوں روپے کے ڈالر کہیں ٹھکانے لگا سکیں اورچاروں اوربند آنکھوں کے سامنے اپنی ساری ہیرا پھیری کو ہرآنکھ سے بچاکر ادھر،ادھرکردیں تاکہ پھرسے یہ سارے شرفا؟ سفیدپوشوں کی خدمت کے لیے الیکشن کے میدان میں اتر جائیں؟ شاید یہی وجہ کہ اس کھیل کھیل میں آشوب چشم کی بیماری کے ساتھ ایک اورچیز بھی بڑی تیزی سے وائرل ہورہی ہے جسے 80 فیصد آنکھ بند کرکے ہی دیکھا جاسکتا ہے اورمجھے یقین ہے کہ اب تک یہ چمتکار کم وبیش 80 فیصد لوگ دیکھ چکے ہوں گے ؟