میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قائد کی آمد اورانتخابی بیانیہ

قائد کی آمد اورانتخابی بیانیہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

وطن ِ عزیر کے سیاسی سمندرمیں جواربھاٹے کی کیفیت وقفے وقفے سے جنم لیتی رہتی ہے ۔مگر ایسا پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے کہ کئی انتہائی اہم سیاستدان انتخابی عمل کا التوا چاہتے ہیں جو خاصا حیران کُن ہے۔ کیونکہ انتخابی عمل سے ہی جماعتوں کی مقبولیت کاپتہ چلتاہے، فی الوقت انتخابی اکھاڑے سے فرار کے خوف کوعدم مقبولیت کانام ہی دے سکتے ہیں ۔دراصل جو مقبول لیڈرشپ ہے اُسے ہر صورت انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے مقدمات بنائے جارہے ہیںاور جو غیر مقبول چہرے ہیں انھیں زبردستی مقبول بنایاجارہا ہے۔ ایسی کاوشیں ابھی تک بارآورثابت ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں، نہ صرف گرفتار سیاسی رہنما ئوں کی مقبولیت برقرار ہے بلکہ ہرگزرتے دن اضافہ ہورہا ہے۔ اِس میں دیگر اہم وجوہات کے علاوہ پی ڈی ایم حکومت کی سولہ ماہ کی ناقص کارکردگی کابھی ہاتھ ہے۔ حکومت حاصل کرنے کے شوق میں بدنامیوں اور نفرتوں کے ایسے پہاڑ بنا ئے گئے جس کی وجہ سے اب عوامی سیاست کرنا محال ہے۔ اسی لیے عام انتخابات سے قبل ایسی یقین دہانیاں حاصل کرنے کے ساتھ ایسے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے جن سے عوام کسی اور جماعت کی طرف جانے میں خسارہ محسوس کریں مگر ایسا ماحول نواز شریف کی آمد اور مناسب انتخابی بیانیے کے ساتھ سیاسی اکھاڑے میں اُترنے سے ممکن ہے ۔اُن کے بغیر کسی اور چہرے سے یہ مقصدحاصل ہونامشکل ہے۔ وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا وطن واپسی پر قانون کے مطابق کارروائی کا عندیہ دینان لیگ کے کسی طورمناسب نہیں۔ رانا ثنا اللہ اور مریم اورنگزیب کی لفظی گولہ باری کے نتیجے میں وزیرداخلہ نے بیان سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا جوا ز پیش کرتے ہوئے وقتی طورپر پسپائی اختیار کر لی ہے لیکن نیب مقدمات کی بحالی سے حالات مکمل طورپر سازگار نہیں رہے۔ قبل ازیں ایک امریکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو کے دوران وزیراعظم انوار الحق کاکڑکہہ چکے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور جیل کاٹنے والے اِس جماعت کے سینکڑوں کارکنوں کے بغیر بھی ملک میں شفاف انتخابات ممکن ہیں تاکہ لوگوں کو یقین آجائے کہ ایک بار پھر پنجاب اورمرکز ن لیگ کے حوالے کرنے کامنصوبہ بن چکا ہے۔ شاید ایسا اندازہ لگاکر ہی پی پی نے تنقید کی روش اپنا ئی ہے۔ مگر عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کا مقصد نواز شریف کو میدان میں اُتارے بغیرآسانی سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
یہ حقیقت شک وشبہ سے بالاترہے کہ نوازشریف کے بغیر ن لیگ کا انتخابی عمل میں شریک ہوکر کامیابی سے ہمکنا ر ہونامشکل ہے۔ کیونکہ فکری تضادات کی حامل جماعتوں کے سہارے سولہ ماہ کے اقتدار نے اِس جماعت کی چولیں ہلا نے کے ساتھ لیڈرشپ کی اہلیت وصلاحیت کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ حالانکہ دس ارب کی تشہیری مُہم سے ذرائع ابلاغ کی ہمدردیاں حاصل رہیں پھربھی شہبازا سپیڈ اچھاتاثر قائم نہیں کر سکی۔ اب اگر قائد کی آمدنہیں ہوتی اور مناسب انتخابی بیانیہ بھی نہیں اپنایا جاتا تو کامیابی کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ اس میں شائبہ نہیں کہ قائد کی واپسی کے حوالے سے نہ صرف شریف خاندان بلکہ ن لیگ بھی کسی قسم کا رسک لینے پر تیار نہیں۔ اکیس اکتوبر کو وطن واپسی کے اعلان کے باوجود ابھی تک ن لیگی صفوں میں مکمل یکسوئی نہیں ۔وطن کے اندر اور وطن سے باہر کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے کی کوششوں سے جارحانہ سیاسی بنانیے کی نفی ہوتی ہے۔ وزیرداخلہ کے غیر متوقع بیان سے جماعت میں موجود ہراس کی کیفیت مزید واضح ہوئی۔ مقبولیت کے تمام تر دعوئوں کے باوجود وطن واپسی سے قبل نواز شریف مشرقِ وسطیٰ کے تین ایسے ممالک سعودیہ ،متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے کے آرزومند ہیں جن کے پاکستان سے نہ صرف قریبی تعلقات ہیں بلکہ یہ ممالک مالی معاونت کی بناپر ملک کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ بظاہر اِن دوروں کا مقصدملکی اِداروں کو کسی قسم کی کارروائی سے باز رہنے کی ہدایات دلانا ہے۔ ایسا تاثر عوامی مقبولیت کے لیے مُضر ثابت ہو سکتاہے۔ اگر جارحانہ سیاست کرنی ہے تو خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جرأت مندانہ بیانیہ اپنانا ہوگا ۔
پنجاب میں طویل ترین عرصہ اقتدار میں رہنے کا اعزاز رکھنے والا شریف خاندان اِس وقت ایسے دوراہے پر ہے جس کے ایک طرف کامیابی اور دوسری طرف ناکامی ہے۔ وطن واپسی میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کی ذمہ داری شہباز شریف کو سونپی گئی ہے جودیگر رہنمائوں سے زیادہ مقتدرہ کے چہیتے ہیں۔ اپنے حامیوں کو منظم اور فعال کرنے کے مقتدرہ کو مقبولیت کا یقین دلانے جیسے محاذوں پر بیک وقت کام جاری ہے تاکہ احتساب کے نام پر ہونے والی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے مگر تمام تر کوششوں کے نتائج اسی وقت بہتر ہو سکتے ہیں جب عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ ائیرپورٹ پر استقبال کے بجائے اچانک مینارِ پاکستان پر جلسہ کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ عوام کو اکٹھا کرکے ایک ایسا بڑاپاور شوکرلیاجائے جس سے مقبول ترین ہونے کا یقین دلایا جا سکے۔ پنجاب حکومت نے قائد کے تحفظ کے لیے پولیس وغیرہ تیاریوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔ ایسے اقدامات کئی ایک مقدمات کے باوجود اِس جماعت پر نوازشات کواجاگرکرتے ہیں ۔اِ س کے باوجودفہمیدہ حلقوں کو یقین ہے کہ تمام جماعتوں کو انتخابی عمل میں شرکت کے یکساں مواقع ملتے ہیں تو بظاہر جیت کو یقینی بنانے کے لیے حاصل کردہ ووٹوں پرہی تکیہ کرناسودمند ثابت نہیں ہو سکتابلکہ پرویز مشرف دور میں پی پی سے پیٹریاٹ تلاش کرنے کی طرح پی ٹی آئی سے بھی اقتدار کے دلداہ ایسے لوگ ڈھونڈنے ہوں گے جو اقدار کی بجائے اقتداراور مفاد کی سیاست پر یقین رکھتے ہوں یاپھر پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ ملک کی سیاسی فضا کے پیشِ نظر آج بھی بلا ہی جیت کا نشان ہے ۔
عسکری و عدالتی شخصیات کے محاسبے کا عندیہ ثابت کرتا ہے کہ نواز شریف اب بھی جارحانہ سیاست پریقین رکھتے ہیں مگر کیا یہ بیانیہ عوامی حلقوں میں پزیرائی حاصل کرپائے گا ؟بظاہر حالات سے ایسے کسی خیال کی نفی ہوتی ہے اگریہ تصورکرلیں کہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کارروائیوں کا جنرل باجوہ حصہ تھے۔ اِس تناظرمیں مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کے لیے ن لیگ کے تمام ممبران کو پارلیمنٹ پہنچنے کی ہدایت ناقابلِ فہم ہے۔ عمران خان اور اُن کے رفقابھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت رخصت کرانے میں باجوہ کاکلیدی کردار ہے جس کا پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی برملا اعتراف کرتی ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا آسان ہے کہ جنرل باجوہ کے حوالے سے ن لیگ اور پی ٹی آئی یکساں خیال رکھتی ہیںمگر پرویز مشرف کی طرح محاسبے کا خیال اب بھی حقیقت بنتا نظر نہیں آتا۔ اِن حالات میں کسی نوعیت کی تادیبی کارروائی کا عندیہ محض انتخابی بیانیہ ہو سکتاہے جس سے عوامی ہمدردیاں حاصل نہیں ہو سکتیںبلکہ ن لیگ کو انتخابی کامیابی کے لیے کچھ نیا اورعوام کے لیے جاذبِ نظر ایسابیانیہ لیکرانتخابی میدان میں اُترناہوگا جس سے عوام آسودگی محسوس کریں۔ اِس کے لیے جارحانہ سیاست سے زیادہ معیشت اور مہنگائی کو انتخابی ایشو بنانے سے بہتر نتائج مل سکتے ہیں جس طرح 2013میں میمو گیٹ اسکینڈل اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے ملک سے توانائی کی قلت دورکرنے کو انتخابی موضوع بنایا گیاکیونکہ کچھ بھی ہو موجودہ مہنگائی اورمعاشی تباہی کا ذمہ دارعوام ن لیگی قیادت کو تصور کرتے ہیں جس سے بریت ثابت کرنے کے ساتھ ایسا انتخابی بیانیہ سودمند ہوسکتا ہے جو نہ صرف عوام کے لیے پُرکشش ہو بلکہ احتساب اور آئین کی پاسداری کااحساس دلائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں