میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا
اللہ تعالی نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا
حضرت حسین رضی اللہ عنہ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے‘ ان کے شعروںمیں تقوی کادرس ملتا ہے
مفتی محمد وقاص رفیعؔ
نام و نسب
آپ کا نام نامی اسم گرامی حسین، کنیت ابو عبد اللہ، لقب ’’سیدا شباب اہل الجنہ‘‘ (جنت کے نوجوانوں کے سردار) والد کا نام علی ؓدادا کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہؓ ہے ۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: ’’حسین ؓبن علیؓ بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان…الخ‘‘ (البدایہ والنہایہ:۷/۳۳۲)
ولادت باسعادت
امام حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپؓ مؤرخہ ۵/شعبان المعظم ۴ ؁ہجری میں پیدا ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۲۹) اور دوسری روایت حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ آپؓ ۶ ؁ھ کے پانچ (۵) ماہ اور پندرہ (۱۵) یوم بعد پیدا ہوئے، لیکن ان دونوں روایات میں پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہؓ)اور اسی کو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری) ولادت کے بعد آپؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شہد چٹایا، اُن کے دہن مبارک کو اپنی زبان مبارک سے تر فرمایا، اُن کو دعائیں دیں اور ’’حسین‘‘ نام رکھا۔ (المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ: ص۳۵۸)
ایک نیک خواب
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی مشہور صحابیہ حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے حمل کے زمانہ میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں ڈالا گیا ہے، یہ خواب دیکھ کر حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا چونک کر رہ گئیں، لیکن صبح کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’تم نے بہت مبارک خواب دیکھا ہے، اور اس کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ: ’’ان شاء اللہ! (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔‘‘ چنانچہ اِس خواب کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا تولد ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے عین مطابق آپؓ کو حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش کے لئے دیا گیا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حلیہ مبارک
امام ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ : ’’سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ: ۶/۱۵۰) چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی روایت ہے کہ: ’’امام حسن رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نصف اعلیٰ میں سر سے لے کر سینہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ مشابہ تھا ، اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نصف اسفل میں سینہ سے لے کر پاؤں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ مشابہ تھا۔(جامع ترمذی)
فضائل و مناقب
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘(کنز العمال: ۶/ ۲۲۳) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ: ’’ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدر (سینہ ) مبارک پر چڑھ کر کھیل رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟۔ ‘‘ (آپؐ نے ) فرمایا: کیوں نہیں ٗ یہ دونوں دُنیا میں میرے پھول ہیں۔‘‘ اور حارث (حضرت) علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ’’حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔‘‘ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی تو اُن کی والدہ (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) سے فرمایا کہ: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اِن کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے؟۔‘‘(معجم طبرانی)
محاسن و کمالات
امام حسین رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ظاہری کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا۔ چنانچہ ارباب تاریخ و سیر نے لکھا ہے کہ آپؓ بڑے عبادت گزارتھے، نماز، روزہ اور حج کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپؓ نے بیس (۲۰) حج پیادہ پا (پیدل سفر کرکے) کیے تھے۔ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳)عاجزی ، انکساری اور فروتنی آپؓ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں سے گزر رہے تھے، غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے اُن کو سلام کیا، اُن لوگوں نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے شہزادے ! تشریف لایئے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمایئے! ‘‘ آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے۔ اِس موقع پر آپؓ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ (سورۃ النحل: ۲۳) امام حسین رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کی روٹی کے ٹکڑوں پر شرکت فرماچکے اور فارغ ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: ’’بھائیو! آپ نے مجھے دعوت دی ، میں نے قبول کیا، اب آپ سب میری دعوت قبول کیجئے! اُن لوگوں نے بھی دعوت قبول کی، اور آپ ؓکے مکان پر آئے، جب سب آکر بیٹھے تو آپؓ نے فرمایا: ’’رباب! لانا جو بھی بچا ہوا محفوظ رکھا ہے۔‘‘ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳، ۲۱۴)
شرف صحابیت
امام حسین رضی اللہ عنہ پیدائش کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری لمحہ حیات تک خاص محبوب اولاد اور شرفِ صحبت سے مشرف رہے، جس کی مدت حافظ ابن کثیر ؒ کی تصریح کے مطابق کم و بیش پانچ سال بنتی ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۱۵۰) لیکن اِس کے باوجود اُن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے باوجود اپنی اس کم سنی کے کئی احادیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہِ راست سن کر بیان فرمائی ہیں۔(البدایہ والنہایہ: ۸/۲۵۷) مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمایئے! : (سنن ابن ماجہ: ۱/۱۱۶، مسند امام احمد، تہذیب التہذیب: ۲/۳۴۵،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۱/۱۴۵)
شعر و شاعری
حضرت حسین رضی اللہ عنہ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ آپؓ کے اشعار آج کل کے عام شعراء کے اشعار کی طرح عشق و محبت ،موج ومستی اور دُنیوی لذت و سرور وغیرہ جیسی فانی لذتوں سے نہیںبلکہ نیک و صالح اور متقی و پرہیز گار فنا فی اللہ شعراء کی طرح خشیت و للہیت، تقویٰ و طہارت، زہد و عبادت، علو ہمت، ترک دُنیا اور فکرآخرت جیسے گراں قدر مواعظ و نصائح سے مملو ہیں ۔چنانچہ بطورِ نمونہ کے آپؓ کے بعض اشعار کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے ، اگرچہ اِس کا حقیقی مزہ عربی زبان ہی میں پڑھنے سے نصیب ہوتا ہے : (۱)اگر یہ بات صحیح ہے کہ دُنیا کی نعمتیں ایک نفیس چیز شمار کی جاتی ہیںتو دارِ آخرت میں جو ثواب ملے گا وہ بہت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے۔ (۲)اور چوں کہ یہ تمام بدن انسانوں کے فناہی کے لئے بنائے گئے ہیںاس لئے انسان کا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے فنا ہو جانا سب سے افضل ہے ۔ (۳) اور چوں کہ تمام روزیاں اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمادی ہیں اس لئے روزی کمانے کے سلسلے میں ہلکی پھلکی کوشش کرنا انسان کے لئے بہت ہی زیادہ مناسب ہے۔
بیعت یزید پلید
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید پلید نے اپنے لئے لوگوں سے بیعت لینے کا انتظام شروع کیا اور اپنے قرب و جوار کے تمام علاقوں میں لوگوں کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ تمام علاقوں کے تقریباًسبھی لوگوں نے یزید کی بیعت قبول کرلی اور اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلی، سوائے چند حضرات (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ حضرت حسین بن علیؓ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) کے کہ اُنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
چنانچہ جب یزید اور اُس کے عمال کی طرف سے بیعت طلب کرنے میں سختی ہوئی تو امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے، اُدھر اہل کوفہ نے آپؓ کی طرف ڈیڑھ سو کے قریب خطوط لکھ کر ،قسمیں کھاکر اور طرح طرح کی ہمدردی و خیر خواہی کے دعوے کرکے آپؓ کو کوفہ بلالیا ، اورآپؓ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف چل دیئے۔
کوفہ کی طرف روانگی
کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلہ کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھوڑ سوار ہیں ۔ اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذ ِ جنگ بنالیا ۔
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لئے آکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا ، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حر بن یزید سے فرمایا: ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر بن یزیدنے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘
یوم عاشوراء (دس محرم)
چنانچہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد یزیدی لشکر لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ ؓنے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
لڑائی شروع ہوگئی اور گھمسان کا رن پڑنے لگا، امام حسین رضی اللہ عنہ چوں کہ کئی دنوں سے پیاسے تھے، دُشمنوں نے آپؓ کا پانی بند کر رکھا تھا، اس لئے جب آپؓ کی پیاس حد کو پہنچ گئی تو وہ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپؓ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ ؓکے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ:
اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف آگے بڑھا ، اس وقت آپؓ پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو اُس نے آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسین رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ! مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا اور آپؓ کا سر بدن سے جدا کر دیا ۔
بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر تینتیس ( ۳۳) زخم نیزوں کے ، چونتیس (۳۴) زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔رضی اللہ عنہم وارضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں