ہم کب تک سیاسی جنگیں لڑتے رہیں گے !
شیئر کریں
یہ ہماری مشترکہ بدقسمتی ہے کہ ہم نہ صرف مسائل کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں بلکہ سیاسی انتشار اور خلفشار کے چنگل میں جکڑے ہوئے بھی ہیں اور یہ حقیقت اور سچ ہے کہ ہم نظریاتی راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ کسی دانشور شاعر نے یہ کہہ کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا کہ ’’اک ہنگامہ محشر ہو تو اس کو بھولوں، رہ رہ کے سوباتوں کا خیال آتا ہے‘‘ آج جب حالات کی ستم ظریفی پر ماتم کرنے کی غرض و غایت کے لیے قلم و قرطاس اٹھاتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ سے یکسوئی راہ فرار اختیار کر جاتی ہے جس کے نتیجہ میں موضوعات سے موضوع منتخب کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ مشکل ترین ہو جاتا ہے۔
بہرحال آج ہم نے جناب عمران خان کے ایک بیان کو ہی موضوع سخن بنایا ہے شاید کہ اتر جائے کسی کے دل میں ہماری بات۔ انہوں نے گزشتہ سے پیوستہ روز سکھر میں منعقد ہونے والے تحریک انصاف کے جلسہ عام میں سندھ کے عوام کو ایک پیغام دیا کہ وہ گاڈفادر کے منطقی انجام سے فارغ ہوئے ہیں اور اب سندھ کے لٹیروں، چوروں اور بدمعاشوں کے سردار آصف علی زرداری کا پیچھا کریں گے اور سندھ کی محبت وطن، شریف اور بے بس عوام کو آزاد کرائیں گے۔ ہمیں کیا ابھی توکسی کوبھی یہ اندازانہیں کہ وہ کب اس طرز سیاست سے باہر نکلیں گے اور قوم کو نیا پاکستان دیں گے لیکن ہمارا یہ اندیشہ غالب ہو رہا ہے کہ شاید عمران خان تاحیات اسی جنگ میں مصروف رہیں گے۔اوران کانیاپاکستان بنانے کاخواب صرف خواب ہی بن کررہ جائے گا۔
اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ مایوسی کفر ہے انسان کو نا امید اور مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہیے اسی لیے ہم حالات کے جنگل میں اذان دیتے آرہے ہیں۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہاکہ ہمارا ملک جن مقاصد کے تحت وجود میں آیا تھا وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے اور یہ بھی سچ ہے۔ سیاسی وڈیروں، لٹیروں اور جاگیرداروں نے ملک و قوم کو یرغمال بنا کر اس وطن عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا بازار گرم رکھا۔ا س معاملے میں جس کو بھی موقع ملا اس نے یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اس میدان میں نیک ، پارسا اور دیانتدار وہ رہا جس کو تلاش بسیار کے باوجود موقع میسر نہ آیا۔ پھر اگر ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کی مشقت میں ہم اور آپ سرگرداں ہو جائیں تو ہمارے دامن میں کچھ بھی نہیں آئے گا چونکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس قدر راستا کھوچکے ہیں کہ ہمیں واپسی کا راستا نہیں دکھائی دیتا۔ جبکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس قوم کے وقار اور ملک کے استحکام کے لیے سیاسی جنگوں کے بجائے اپنے نظریاتی کردار کا وہ مظاہرہ کریں جس سے ہمارا کھویا ہوا وقار بحال ہوسکے۔ اور قوم تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر آکر خوشحالی کی بہاریں دیکھ سکے۔
میاں نواز شریف کو تخت سے اُ تارنا بلاشبہ عمران خان کی سیاسی تاریخ کا نمایاں اور بلند پایہ باب ثابت ہوا۔لیکن اگر عمران خان اس معاملے میں ہی اُلجھے رہے تو اپنی سیاسی و نظریاتی زندگی کا قیمتی وقت ضائع کر نے کے سواکچھ نہ کرسکیں گے ۔اس بات کوذہن میں رکھنا چاہیے کہ نماز کاایک وقت ہوتا ہے اور بے وقت کی نماز ٹکروں میں بدل جاتی ہے۔ ہماری قوم ہوشمند اور بیدار ضرور ہے اس کو نہ صرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کو بھولا ہوا سبق بھی یاد دلانا انتہائی ضروری ہے کہ اللہ بھی اُسی قوم کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت خود بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔ ’’اور آج ہم شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ قوم اپنی حالت بدلنے کی محنت، کوشش اور سعی سے عاری ہوچکی ہے جس کا ثبوت تو ہمیں یہ مل رہا ہے کہ سیاسی سوداگروں نے اپنے سیاسی جمعہ بازار میں پوری قوم کو تبدیل کر رکھا ہے۔ آج اگر کوئی دولت ، طاقت اور بدمعاشی کی بنیاد پر سیاست کے لیے چل پڑا ہے تو یہ بھی قوم کی کمزوری اور غلطی ہے کہ وہ ساتھ چل پڑے گی اور ہماری صائب مشاورت پر سیاستدانوں نے غور و فکر اور تدبر کیا ہوتا تو آج نام نہاد قومی رہنما بن کر قومی وقار کی دھجیاں نہ بکھیر رہے ہوتے۔ ہم پھر صدائے حق دے رہے ہیں کہ خدا کے لیے قوم کو بیوقوف مت بنائو اور قوم کو بھی یہ دستک دے رہے ہیں کہ وہ ہوشمندی اور بیداری کا ثبوت دیں اور بیوقوف نہ بنیں چونکہ اللہ تعالیٰ صرف قوم کو ہی سپریم طاقت سے نوازتا ہے اور جب قوم اپنے ہوش کو جوش کے دریا میں ڈالتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے ہی حکمرانوں کو مسلط کر دیتا ہے۔
٭٭…٭٭