میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا۔۔۔؟؟

کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا۔۔۔؟؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

علی عمران جونیئر
دوستو،کالج لائف میں ایک فلم دیکھی تھی، جس میں ایک کردار کا ایک ڈائیلاگ آج تک دماغ میں گھومتا ہے، سمجھ سمجھ کے سمجھو، سمجھ سمجھ کے سمجھنا بھی ایک سمجھ ہے، سمجھ سمجھ کے جو نہ سمجھے، میری سمجھ میں وہ ناسمجھ ہے۔۔۔واقعی ہماری سمجھ میں آج بھی کچھ باتیں نہیں آتیں، میری طرح آپ لوگوں کو بھی کچھ باتیں سمجھ نہیں آتی ہونگیں، تو آئیے کچھ ایسی باتیں آپ سے کرتے ہیں جس کیلئے اکثر اپنے دوستوں سے کہتے ہیں، کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا۔۔ جب بھی اپنے دوستوں سے سوال کرتا ہوں کہ محبت شادی سے پہلے کرنی چاہئے یا بعد میں؟ تو وہ کہتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ محبت شادی سے پہلے کی جائے یا بعد میں، بس بیوی کو پتہ نہیں چلنا چاہئے۔۔ہمارے ایک دوست زن مرید ٹائپ شوہر ثابت ہوئے ہیں، ایک بار گھر پہنچے تو بیگم نے کہا۔۔ شکر ہے آپ خیریت سے گھر آگئے۔۔دوست نے پوچھا، کیوں کیا ہوا ؟۔۔ بیگم صاحبہ فرمانے لگیں ،مسجد سے اعلان ہو رہا تھا ایک زن مرید گٹر میں گر گیا، مجھے آپ کی فکر ہو گئی ۔۔ہمارے دوست نے معصومیت سے کہا، اعلان تو میں نے بھی سنا تھا، مولوی صاحب زن مرید نہیں زین فرید کہہ رہے تھے۔۔
ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ چین اور جاپان میں انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں پھر وہ اتنے ترقی یافتہ کیوں ہیں؟ فرانس میں تو انگریزی بولنے والے کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے پھر وہاں دن دگنی رات چوگنی ترقی کیوں ہورہی ہے؟۔۔ کہتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل نہ ہوئے تو پھر اصل انقلاب آئے گا،جس کا نشانہ سب سے پہلے انقلاب لانے والے ہی بنیں گے، کیونکہ انقلابوں کی تاریخ یہی کہتی ہے اور تاریخ ہمیشہ ایک ہی نتیجہ دیتی ہے ،اسی لئے ابن خلدون نے تاریخ کو سائنس کہا ہے ۔۔سائنس کی زبان میں سیل کو خلیہ کہتے ہیں لیکن ہر شوہر کو اس کی بیوی سیل کا مطلب کچھ اور کیوں بتاتی ہے۔۔سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ ۔۔ انسان شاید اپنا لباس، حلیہ، اسٹائل، زبان اور رہن سہن حتیٰ کہ کبھی کبھار اپنے خیالات اور سوچ تک نئی جگہ یا حالات میں بدل لیتا ہے مگر ۔۔ذائقہ کبھی نہیں بدلتا۔۔ انسانی زبان جو ذائقے چکھتے چکھتے جوان ہوتی ہے، وہ دوسرے ذائقے صرف تبدیلی کے لئے کھاتی ہے مگر اپناتی نہیں۔۔
ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ دنیا کی کوئی عورت یا باورچی کسی کی ماں سے بہتر کھانا کیوں نہیں بنا سکتی۔۔۔کاش کوئی یہ بھی سمجھادے کہ جب سے موبائل فون آیا ہے ، یہ امام ضامن، خط وغیرہ قصہ پارینہ کیوں بن گئے؟ ۔۔اکثر زچہ خانوں میں یہ کیوں لکھا ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کا داخلہ ممنوع ہے۔۔ مسجد میں پانی پینے کے گلاس پر لکھا ہوتا ہے باہر لے جانا منع ہے، لوکی فیر باز نہیں آندے۔۔واش رومز کی اندرونی دیواروں پر تو اس قدر چاند ماری کی گئی ہوتی ہے کہ لوٹے سے سر پیٹنے کو دل کرتا ہے، آخر کوئی تْک ہے ان جملوں کی کہ، دیر تک بیٹھنا منع ہے، سوچنا منع ہے۔۔بچپن میں ماں ہمیشہ کہا کرتی تھی، بیٹا دل لگا کے پڑھا کرو، ماں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی تھی کہ دل لگانے کے بعد کبھی کوئی پڑھ سکا ہے کیا؟۔۔ جو لوگ انگریزی پڑھتے، لکھتے اور بولتے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محبت کرنا کسی گڑھے میں گرنے جیسا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر انگریزی میں محبت کرنے کے لئے ”Falling in Love” کی اصطلاح کیوں استعمال کی جاتی ہے؟ حیرت تو اس بات پرہوتی ہے کہ پورا ہفتہ الارم سے بھی آنکھ نہیں کھلتی اور اتوار کو ایسے آنکھ کھلتی ہے جیسے علی الصبح اخبار بیچنے جانا ہو۔۔ہمیں ان لوگوں کی سمجھ بھی نہیں آتی جو صرف ماں کی دعا ہی لکھتے ہیں، باپ کیا بددعائیں دیتا ہے؟
وہ کون سے باس ہیں جن کے لاکھوں روپے کے موبائل کام نہیں کرتے اور ان کا ایک ملازم اڑھائی ہزار کا ایک چینی موبائل ان کے سامنے لا پھینکتا ہے تو باس ملازم کی عقل و دانش کا قائل ہو جاتا ہے اور اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دے ڈالتا ہے ؟۔۔کون ہیں وہ لوگ جو دلہنوں کی مانند زرق برق رنگا رنگ شیروانیوں میں ملبوس ہو کر لوگوں سے قرآن سے متعلق سوال پوچھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یار تْکا ہی لگا دو؟۔۔کہاں ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کو سفید براق لباس پہنا کر باہر بھیجتی ہیں اور چند لمحوں بعد وہ سر سے پیر تک کیچڑ میں لتھڑے واپس لوٹتے ہیں اور خوشی سے نہال مائیں انہیں اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہیں کیونکہ داغ تواچھے ہوتے ہیں ؟ پھر وہ مائیں کپڑوں کی دھلائی کرنا شروع کردیتی ہیں جب کہ ہمارے زمانے میں تو ایسا کرنے پر پہلے ہماری دھلائی ہوتی تھی پھر کپڑوں کی۔۔یہ بات بھی کبھی سمجھ نہیں آسکی کہ نظر کمزور ہونے کی صورت میں لوگ عینک بخوشی لگا لیتے ہیں لیکن کم سنائی دیتا ہو تو کان میں آلہ سماعت لگاتے ہوئے شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟۔۔یہ کڑوا سچ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بے روزگار ہونا اتنا مشکل کام ہے کہ اتنے لوگ کام کرکے نہیں مرتے جتنے بے روزگاری سے مرتے ہیں۔۔سیانے کہتے ہیں” سوچی پیا تے بندہ گیا” مگر انسان جتنا مرضی طاقتور ہو جائے وہ ” اچھے” خیال اور سوچ کو نہیں روک سکتا ۔۔ریسرچ سے ثابت ہوا ہے جو لوگ کڑی دھوپ میں بھی سگریٹ کی دکان تک جا تے ہیں وہ کبھی سگریٹ نہیں چھوڑیں گے۔۔ہمیں اس بات کی بھی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کہ زندگی اگر چار دن کی ہے تو ٹیسٹ میچ کیوں پانچ دن کا ہوتا ہے۔۔جب سے ہوش سنبھالا ہے۔۔ پاکستان کی بیٹنگ، جمہوریت اور معیشت کو ہمیشہ خطرے میں ہی کیوں پایا ہے؟۔۔ ہم نے کبھی شاعر فرا ز کو سر نہیں کہا، پھرقومی کرکٹر کو سرفراز کیوں کہاجاتا ہے؟؟
زندگی چار دن کی ہے پر یاد آیا۔۔ہماری زندگیوں میں چار کی چارہ گری بہت ہے۔۔ جیسے کہ۔۔ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔۔ چار کتابیں کیا پڑھ لیں خود کو گورنر سمجھتے ہیں ۔۔چار پیسے کماؤگے تو پتا چلے گا۔۔ آخری ہماری بھی چار لوگوں میں عزت ہے۔۔ چار لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے۔۔۔ چار دن کی آئی بہو اور ایسے تیور۔۔ وہ آئی اور چار باتیں سنا کر چلی گئی۔۔چار قدم کا فاصلہ تو ہے تم سے کیا چار قدم بھی نہیں چلا جاتا۔۔ چار دن کی زندگی ہے ہنس کے گذار لو۔۔آپ کے آنے سے تو محفل کو چار چاند لگ گئے۔۔ رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔ میں نے دیکھا تین لاکھ روپے کا لباس پہنے رمضان ٹرانسمیشن کے دوران افطار سے قبل ایک نعت خواں بڑے والہانہ انداز میں نعت شریف پیش کررہا تھا۔۔ مدینے کو جائیں یہ جی چاہتا ہے۔۔ حالانکہ دو لاکھ روپے خرچ کرکے بمعہ فیملی عمرہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔کراچی میں شدید سڑی ہوئی گرمی میں کیا پانی کی ٹینکی میں اے سی لگ سکتا ہے؟؟ سورج کی جون جولائی کی چھٹیاں کیوں نہیں ہوتیں؟؟اپنی مختصر سی زندگی میں دو لوگوں سے ملنے کی شدید خواہش ہے، ایک وہ جو نئی سڑک بنتے ہی اس پر جمپ بنادیتا ہے، دوسرا وہ شخص جو اس جمپ میں سے موٹرسائیکل کے نکلنے کا راستہ بھی بناتا ہے۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔ ۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں