میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر بھارتی اخبارات اور کشمیری رہنمائوںکا ردعمل

نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر بھارتی اخبارات اور کشمیری رہنمائوںکا ردعمل

ویب ڈیسک
منگل, ۱ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام اورپاکستان کے نام پرقائم کیے گئے ملک میں صادق اورامین نہ رہنے والے شخص کوحکومت کاحق نہیں
پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل ہوگی‘پاک بھارت رشتوں کو خطرہ لاحق ہوگا‘ہندوستان ٹائمز
اس معاملے میں درپردہ فوج کاہاتھ ہے جوکبھی بھی کھل کرسامنے نہیں آئی ‘انڈین ایکسپریس کاتجزیہ
نوازشریف کی سیاست میں واپسی ناممکن ‘عمران خان زیادہ طاقت کے ساتھ ابھریں گے ‘انقلاب
شہلا حیات نقوی
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دئے جانے کی خبر کو بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام اور اخبارات نے نمایاں اہمیت دی اور بھارت کے تقریباً تمام بڑے اخباروں نے پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے ناہل قرار دیے جانے اور نواز شریف کے مستعفی ہونے پر اداریے اور تجزیاتی مضامین شائع کیے ہیں۔کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ دی ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان مسلم لیگ نون کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں جبکہ ایک سال کے بعد وہاں انتخابات ہونے والے ہیں، نواز شریف کی بے دخلی سے یقینی طور پر سیاسی مباحثہ تیز ہو جائے گا۔ اخبار کے مطابق پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اس واقعہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ تاہم اس سے وہاں کی جمہوریت جو پہلے سے ہی نازک ہے، اور کمزور ہوجائے گی۔ روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے نے نواز شریف کے اختیارات کمزور کر دیے ہیں جس سے فوج کو مدد ملے گی اور طاقت کا توازن فوجی جنرلوں کی طرف جھک جائے گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ سیاسی منظرنامہ سے نواز شریف کے ہٹ جانے کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل ہوگی اور اس سے یقینی طور پر پاک بھارت رشتوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ تاہم اخبار نے اس خیال پر شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس صورت حال کا انتخابی فائدہ عمران خان کی پارٹی کو ہوگا۔
روزنامہ ڈی این اے لکھتا ہے کہ بھارت کے لیے حکمت عملی بہت سادہ سی ہے کہ اس بات کا انتظار کیا جائے کہ نواز شریف کا جانشین کسے بنایا جاتا ہے۔ اخبار کے خیال میں پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل کو ہی دوام حاصل ہے سیاسی استحکام کو نہیں اور پاکستان کے عوام کو اسی صورت حال کے ساتھ جینا ہے۔
روزنامہ انڈیا ایکسپریس لکھتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر اصرار کر سکتے ہیں کہ عدلیہ شریف خاندان کی طرف سے اپنے دفاع کو مسترد کرنے میں حق بجانب ہے۔ مگر دوسرے لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نااہل قرار دینا عدالت کا نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اخبار کے مطابق ان قیاس آرائیوں کے باوجود کہ اس معاملے میں درپردہ فوج کا ہاتھ ہے، فوج کبھی بھی کھل کر سامنے نہیں آئی۔
ہندی روزنامہ نوبھارت ٹائمز اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے فوج کے اقتدار پر قابض ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ کہہ کر اس امکان کو مسترد کرتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے نواز شریف کے اچھے رشتے ہیں۔ اخبار مشورہ دیتا ہے کہ بھارت کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بقول اس کے سیاسی غیر یقینی کا فائدہ اٹھا کر بھارت مخالف طاقتیں پہلے سے زیادہ سرگرم ہو سکتی ہیں۔روزنامہ دینک ہندوستان پاکستان کی عدلیہ کی ستائش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پاکستان میں بھلے ہی جمہوریت کو طویل عمر نہ ملتی ہو اور فوج من مانی کرتی ہو لیکن عدلیہ سرگرم اور آزاد ہے۔ اخبار نے بھارت میں ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر اظہار افسوس کیا جن کے نام پاناما پیپرزمیں آئے تھے۔
کثیر الاشاعت اردو روزنامہ انقلاب کے مطابق اب سرگرم سیاست میں نواز شریف کی واپسی تقریباً ناممکن ہے۔ اس نے دیگر شعبوں میں بدعنوانی کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر سوال اٹھایا ہے۔روزنامہ راشٹریہ سہارا نے پیش گوئی کی ہے کہ نواز شریف کی جماعت کو اب پہلے جیسی عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور عمران خان زیادہ طاقتور انداز میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے پانچ رْکنی بینچ کی طرف سے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو متفقہ طور پر نااہل قرار دیئے جانے اور پھر اْن کے عہدے سے الگ ہوجانے پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں مِلا جْلا ردِ عمل ہوا ہے۔عدالتی فیصلے کی خبر ذرائع ابلاغ کے ذریعے شورش زدہ علاقے میں پہنچتے ہی کئی لوگوں نے سوشل میڈیا کا رخ کرکے اپنے خیالات، تاثرات اور آراء کا کھل کر اظہار کرنا شروع کیا۔ بیشتر نے پاکستان کی عدلیہ کی تعریف کی اور کہا کہ یہ آزاد اور بے باک ہے اور عہدوں، طاقت اور رسائی کی پرواہ کئے بغیر ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے دلیرانہ فیصلے سْناتی آئی ہے۔بعض نے ان کا تقابل بھارت کی عدلیہ سے کرنے کو کوشش کی اور شکایتی انداز میں کہا کی بھارت میں عدالتوں نے بارہا حکومتوں کے دباؤ میں آکر مقدمات پر فیصلے سْنائے ہیں۔ کئی ایک نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی بعض اہم شخصیات کے نام بھی پانامہ دستاویزات میں آئے تھے، لیکن حکومت اور عدلیہ نے اسے نظرانداز کر دیا، یہاں تک کہ ان میں سے کم سے کم دو کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔چند ایک کی یہ رائے تھی کہ نواز شریف نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا اور ایک ایسے ملک میں جسے، ان کے بقول، اسلام اور مسلمانوں کے نام پر قائم کیا گیا ہو ایسے شخص کو وزیرِ اعظم بنے رہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔اگرچہ بھارت نواز کشمیری جماعتوں اور لیڈروں کی طرف سے پاکستان سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے اور نواز شریف کی معزولی پر تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تاہم استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیر کے مسئلے پر کوئی منفی یا مثبت اثر نہیں پڑے گا۔کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ: "یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم ہمیشہ چاہتے ہیں پاکستان میں سیاسی استحکام قائم رہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کون نئی حکومت بناتا ہے۔ لیکن، جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے اس پر پاکستان کا ایک اصولی مؤقف ہے اور یہ ملک کی متواتر قومی پالیسی کا حصہ ہے”۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی بھی کم و بیش یہی رائے تھی۔ کشمیر سینٹرل یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ پروفیسر شیخ شوکت حسین نے کہا کہ: "پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہاں کے ادارے مضبوط نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کی وہاں کے قومی ادارے بالخصوص عدلیہ خاصی مضبوط اور مستحکم ہے”۔ انہوں نے مزید کہا: "پاکستان کی کشمیر، چین اور نیو کلیائی امور پرناقابلِ تحریف پالیسیاں رہی ہیں۔ ان میں حکومتوں کی تبدیلی سے کوئی اثر پڑا ہے اور نہ پڑے گا”۔تاہم، فیس بْک استعمال کرنے والے ایک کشمیری نے لکھا: "نواز شریف کی کابینہ میں ایسے11 وزیر شامل تھے جو کشمیری نژاد ہیں جیسے خود نواز شریف اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار۔ اس لئے عدالتی فیصلہ کشمیریوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں”۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں