میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کی نئی افغان پالیسی

امریکا کی نئی افغان پالیسی

ویب ڈیسک
منگل, ۱ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکا کے صدر ڈونلڈٹرمپ کی انتظامیہ نے جس نئی افغان پالیسی کااعلان کیا ہے اس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف قربانیوں اور افغانستان کی حکومت اور افغانستان میں موجود امریکی فوج کو تحفظ دینے کیلئے پیہم کوششوں کے تناظر میں وہ نہایت تشویشناک ہے۔اس لئے اس کی بھی کامیابی کا کوئی امکان کم ہی نظر نہیں آتا۔ اس پالیسی کی تشکیل اور اس کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت میں جو لوگ شامل رہے ہیں وہ سب کے سب افغانستان میں فرائض کی انجام دہی کے دوران ناکام ثابت ہوچکے ہیں یعنی وزیر دفاع جنرل میٹس ، داخلی سلامتی کے امور کے وزیر جنرل جان کیلی ، قومی سلامتی کیلئے صدر کے مشیر ڈاکٹر مک ماسٹر اور سابق مشیر جنرل مائیکل فلن کے علاوہ داماد اول جیرڈ کشنر اور صدر کے مشیر خصوصی اسٹیو بینن۔ داماد اول تو ابھی نوجوان ہیں اور زیادہ تر ان کی شہرت کاروباری امور کو نمٹانے کے حوالے سے ہے اس لئے ان کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا لیکن اسٹیو بینن کو سب جانتے ہیں وہ متعصب صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں خصوصی طور پر اسلام کے خلاف تعصب کے اظہار میں وہ کبھی نہیں چوکے۔ ظاہر ہے ان کے دل کی تپش ان کے دماغ کو تو ضرور متاثر کرے گی اور دماغ کی گرماہٹ ایک غیر جانبدرانہ پالیسی کیسے ترتیب دے سکتی تھی؟۔
امریکا کی نئی افغان پالیسی کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ افغانستان میں جہاں کبھی سوا لاکھ کے قریب امریکی افواج تعینات تھیں اب کرائے کے فوجیوں کو استعمال کیا جائے گا کیونکہ ماضی میں جب کبھی امریکی سپاہیوں کی لاشیں امریکا پہنچتی تھیں تو پسماندگان کے ہاتھ حکام کے گریبانوں تک پہنچ جاتے تھے اور ان کے احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔اس تجویزپر عمل کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ کو دہرا فائدہ ہوگا کیونکہ کرائے کے فوجیوں کی فراہمی کا ٹھیکہدینے کی صورت میںصدرکو اپنے ان حامیوں کو اور اپنوں کو نوازنے کا موقع ملے گا۔ خصوصی طور پر وہ لوگ جنھوں نے انتخابات میں بھاری چندے دئے تھے۔ وہ تو توقع کررہے ہیں کہ انھیں کوئی نہ کوئی بڑا ٹھیکہ تو ملے گا ہی۔ کرائے کے فوجی فراہم کرنیکیلئے جن دو اداروں کے نام سامنے آرہے ہیں ان میں سے دونوں ہی صدر کی انتخابی مہم میں بھاری چندہ دے چکے ہیں ان میں سے ایک کا نام ہے ڈائن کارپوریشن اور دوسری مشہور زمانہ بلیک واٹر ہے جس کا موجودہ نام اکیڈمی ہے۔2007 میں بلیک واٹر کی بربریت اور وحشت امریکی عدالت میں ثابت ہوچکی ہے جس کے ساتھ ہی اس ادارے کو اپنا نام تبدیل کرنے پر مجبور ہوناپڑا تھا۔امریکی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران اس کمپنی کے اہلکار عراق میں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے ذمہ دار قرار پائے تھے۔ یہ واقعہ نصر اسکوائر قتل عام کے نام سے جانا جاتا ہے ، بلیک واٹر یا اکیڈمی طویل عرصے تک پاکستان اور افغانستان میں بھی سرگرم عمل رہی ہے۔بلیک واٹر نے امریکا میں کئی ذیلی ادارے بھی قائم کررکھے ہیں۔
اطلاعات یہ ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے امریکا کی نئی پالیسی کے تحت افغا ن آپریشن کے لئے پوٹھو ہاار کے علاقے سے سابق فوجیوں اور پولیس کے سپاہیوں کو بھرتی کیا جائے گا جبکہ بھارت سے پیشہ ور گورکھا اور افریقہ اور مشرق بعید سے بھی کرائے کے فوجی بھرتی کئے جائیں گے۔ اس طرح کرائے کے ان فوجیوں کے نام پر پیسہ بھی خوب بنے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان میں تعینات سوا لاکھ نیٹو افواج وہاں امن قائم نہ کرسکیں تو یہ کرائے کے فوجی کیا کمال کر دیکھا ئیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ افغانستان وہ جگہ ہے جہاں کبھی کسی کوفتح حاصل نہ ہوسکی۔ انگریز یہاںآئے تو اپنی جان بچا کر فرار ہوئے ۔ روسی یہاں آئے تو واپسی پر اپنا ملک تباہ کربیٹھے اور گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے امریکی افواج بھی اس افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں اور ان کی کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ تاہم اسی تناظر میں امریکا کی نئی افغان پالیسی کے حوالے سے ایک اور نئی بات بھی سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ نئے امریکی صدر جو کہ ایک تاجر اور کاروباری شخصیت ہیں ہر معاملے کو کاروبارہ نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں اور ان کے سامنے یہ رپورٹ بھی موجود ہے کہ امریکا گزشتہ پندرہ برس کے دوران افغانستان پر120 ارب ڈالر سے زائد خرچ کرچکا ہے اور اس دوران سیکڑوںامریکی فوجیوں کی جان بھیگئی جن کے اہل خانہ کو ہرجانے کیشکل میں لاکھوں ڈالر اور ان کے ورثا کو زندگی بھر پنشن کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے ،ان بھاری اخراجات کے باوجود آج بھی افغانستان میں جو حکومت قائم ہے وہ امریکا کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، اورآج بھی نصف سے زائد افغانستان پر طالبان کا عملی تسلط قائم ہے اس لئے اب نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں موجود بیش بہا معدنی دولت کو تلاش کرنے کے لئے دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں کو ٹھیکے دئے جائیں گے تاکہ ان کی آمد نی سے یہ کمپنیاں بھی منافع کمائیں اور افغان حکومت کے کاروبار کو چلانے کیلئے امریکا کو بیش بہا اخراجات بھی نہ کرنا پڑیں۔ اس خیال کے تحت توقع ہے کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے ثمرات ظاہر ہے افغان عوام کو بھی ملیں گے۔اس حوالے سے صدر ٹرمپ کے ایک قریبی دوست ان کو مشورہ دے چکے ہیں کہ معدنیا ت کی کانوں کے تحفظ کے لئے وہ خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اب اگر قدرتی وسائل سے مالامال افغانستان سے معدنیات نکالنے کا کام شروع کیا گیا تو اس کی ترسیل تو پاکستان کے راستے ہی ممکن ہوگی۔ اس لئے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کونظر انداز کرنے کی امریکی پالیسی زیادہ دنوں نہیں چل سکے گی اور امریکی رہنمائوں کو بالآخر پاکستان کے پاس ہی واپس آنا پڑے گا۔اس لئے امریکی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے مضمرات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور محض بھارت کے مشورے پرپاکستان کو دیوار سے لگانے کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کو اس کی ان قربانیوں کو صلہ دینے پر بھی غور کرنا چاہئے۔
امید کی جاتی ہے کہ امریکی حکام سائے کے پیچھے بھاگنے کے بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنانے اور ان کو عملی جامہ پہنچانے کی کوشش کریں گے اور پاکستان جسیے بے لوث اور مخلص اتحادیوں کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دینے والے ناکام حکام کے مشوروں کے تمام پہلوئوں کاجائزہ لئے بغیر اسے اپنی پالیسی کاحصہ بنانے سے گریز کیاجائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں