میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا نوازشریف کی سیاست اور ملک میں واپسی کی راہ ہموار ہو گئی؟

کیا نوازشریف کی سیاست اور ملک میں واپسی کی راہ ہموار ہو گئی؟

جرات ڈیسک
هفته, ۱ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭قائم مقام پاکستانی صدر نے اس قانون پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت سیاستدانوں کو نا اہل کرنے کی مدت کو محدود کر دیا گیا ہے
٭نئے قانون پر مسلم لیگ ن کو اطمینان ہے لیکن اب بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق بعض معاملات زیر غور ہیں، پرویز رشید
٭قانون کا اطلاق الیکشن ایکٹ تک تو ہوسکتا ہے۔ لیکن نااہلی کے آرٹیکل 62میں ترمیم کیے بغیر اس کا فائدہ نواز شریف کو نہیں ہو گا، وکیل تحریک انصاف

                                                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا نوازشریف کی سیاست اور ملک میں واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو آج تواتر کے ساتھ پوچھا جارہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قائم مقام پاکستانی صدر نے اس قانون پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت سیاستدانوں کو نا اہل کرنے کی مدت کو محدود کر دیا گیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ محمد نواز شریف تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انہیں 2017ء میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت وزارت عظمیٰ سے الگ کر دیا گیا تھا۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے سات برس جیل کی سزا کے علاوہ انہیں سیاست سے تا عمر نا اہل قرار دے دیا تھا۔ تاہم 2019ء میں طبی بنیادوں پر ضمانت ہو جانے کے بعد انہیں بیرون ملک علاج کرانے کی اجازت مل گئی تھی مگر نواز شریف اس کے بعد سے اب تک وطن واپس نہیں لوٹے اور لندن ہی میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ کے معاملات بھی پس پردہ چلا رہے ہیں۔ نواز شریف کے بھائی محمد شہباز شریف اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں۔
اس ترمیمی بل پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے مطابق ملکی عدالتیں ارکان پارلیمان کو زیادہ سے زیادہ پانچ برس تک کے لیے نا اہل قرار دے سکتی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادی نواز شریف کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اور یہ قانون اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔آئندہ انتخابات میں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کی سربراہی کریں گے۔ ان کی واپسی سیاسی طور پر اس جماعت کے لیے مددگار ثابت ہو گی مگر یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا وہ خود بھی بطور امیدوار میدان میں اتریں گے۔ نواز شریف کو تاہم ابھی تک ان مقدمات کا سامنا ہے، جن کے تحت انہیں جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔پاکستان میں یہ عام بات ہے کہ جیسے ہی کسی سیاسی جماعت کی حکومت اقتدار میں آتی ہے، تو اس کے ارکان کے خلاف قانونی مقدمات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔دوسری جانب سینیر لیگی رہنما پرویز رشید کا کہنا ہے کہ نااہلی کی مدت میں تبدیلی کے قانون پر مسلم لیگ ن کو اطمینان ہے لیکن ان کے بقول اب بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق بعض معاملات زیر غور ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 62 میں ترمیم کے بغیر نواز شریف کو نااہلی سے متعلق حالیہ قانون سازی کا فائدہ نہیں ہو گا۔قائم مقام صدر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے مدت نااہلی کو پانچ سال کرنے سے متعلق بل کی منظوری کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی ختم تصور کی جا رہی ہے۔تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کیا سابق وزیراعظم کو وطن واپسی پر قانون کا سامنا کرنا ہو گا یا نہیں۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین دونوں عدالتوں سے سزا کے بعد نااہلی کے پانچ سال پہلے ہی پورے کر چکے ہیں۔اس قانون کے تحت الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نیا شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکے گا۔ایک طرف نواز شریف کی واپسی سے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں تو دوسری جانب ان کی واپسی پر قانون کا سامنا کرنے سے متعلق ماہرین قانون کی رائے بھی منقسم نظر آ رہی ہے۔ پرویز رشید کے مطابق میاں نواز شریف کی نااہلی سے متعلق بل تبدیل ہو چکا ہے۔ اس بارے میں پارٹی میں اطمینان پایا جاتا ہے اور ہم پارلیمنٹ کی جانب سے اس قانون سازی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی واپسی کا سوال ہے تو اس بارے میں ابھی مشاورت جاری ہے۔ جب ان کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ فائنل ہوجائے گی تو نواز شریف کی ہدایت پر کوئی پارٹی رہنما یا وہ خود میڈیا کے سامنے تاریخ کا اعلان کریں گے۔پرویز رشید کے بقول‘جب تک میاں صاحب خود شیڈول طے کر کے میڈیا اور عوام کے سامنے اعلان کا حکم نہیں دیں گے کسی بھی پارٹی رہنما کی طرف یہ اپنے طور پر اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی واپسی کے لیے پاکستانی عوام اور ہمارے کارکن بے تاب ہیں۔پرویز رشید کا کہنا ہے کہ‘اس بات کا اندازہ نواز شریف صاحب کو بھی ہے مگر کچھ معاملات ابھی ہیں جن پر غور ہو رہا ہے اس کے بعد واپسی کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ ان کی واپسی پر بھر پور استقبال کی تیاریاں کی جائیں گی۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل اظہر صدیق کے بقول:‘ایک بات تو واضح ہے کہ جہاں تک نواز شریف کی نااہلیت اور سزاؤں سے معافی کا معاملہ ہے یہ خواب اچھا ہے۔ کیونکہ اگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر دیں گے تو یہ اس کا اطلاق الیکشن ایکٹ تک تو ہوسکتا ہے۔ لیکن نااہلی کے آرٹیکل 62میں ترمیم کیے بغیر اس کا فائدہ نواز شریف کو نہیں ہو گا۔ان کے مطابق‘نواز شریف کی تاحیات نااہلی سپریم کورٹ نے 62ون ایف کے تحت کی ہے۔ لیکن نیب کے دو کیسوں میں انہیں سزا ہوئی ہے ایک میں 10سال اور دوسرے میں سات سال سزا ہے۔’
اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ‘نیب قانون کے سیکشن 15کے تحت یہ جو نااہلی ہے یہ 10 سال کے لیے برقرار رہے گی۔ اس سزا کو ختم کرانے کے لیے عدالت میں اپیل کی سماعت ہو گی اگر یہ بری ہوجائیں گے تو پھر اس میں فائدہ ہوجائے گا۔ لیکن ان کی نااہلی کئی اور کیسوں میں بھی ہے لہذا اس نئے قانون کا نواز شریف کو زیادہ فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ان کے مطابق‘اس لیے جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو انہیں جیل جانا ہو گا حکومت ان کے گھر کو سب جیل قرار نہیں دے سکے گی کیونکہ وہ سزا یافتہ ہیں تو سزا یافتہ کو جیل جانا ضروری ہوتا ہے۔مسلم لیگ ن کی جانب سے کیسوں کی پیروی کرنے والے قانون دان میاں داؤد نے کہا کہ‘الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے نواز شریف کو عدالت نے جو تاحیات نااہل قرار دیا تھا وہ پانچ سال میں تبدیل ہونے کے بعد نااہلی ختم ہوچکی ہے۔ لیکن جو انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ملز کیس میں
احتساب عدالت سے قید کی سزائیں سنائی گئی ان میں بریت لازمی ہے۔اس حوالے سے ان کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے سے دائر ہو چکی ہے۔میاں داؤد کا کہنا ہے کہ‘نواز شریف کو پاکستان واپسی پر اپیل کے لیے حفاظتی ضمانت لے کر عدالت پیش ہونا ہو گا۔ قانون کے مطابق انہیں اپنی اپیل کی سماعت کے دوران عدالت جانا پڑے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں