ڈبل انجن سرکار: خواتین پر مظالم کی بھرمار
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
ساگر ضلع کے برودیا نوناگیر گاؤں میں انجنا اہیروار نامی لڑکی کی چلتی ایمبولینس سے گر کر مشتبہ حالات میں موت ہو گئی۔ کیا کسی نے چلتی ایمبولنس سے گر کر بھی کسی کی موت کا واقعہ سنا ہے ؟ نہیں سنا ہوگا اس لیے کہ ایمبولنس سے aگر مریض کے رشتے دار گر کر مرنے لگیں تو مریضوں اور لاشوں کا کیا ہوگا؟ لیکن اگر ایمبولنس کا رنگ زعفرانی اور اس میں ڈبل انجن لگا ہو تو یہ ہوسکتا ہے ۔ انجنا اہیروار کی موت کے لیے زعفرانی اقتدار ذمہ دار ہے ۔ اس ظلم پر انصاف پسند لوگ صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں مگر مرکزکی ‘ ہم دو اور ہمارے دو ‘ والی حکومت خاموش ہے ۔ اس لیے کہ گرنے والی کا نام انجنا اوم کشیپ نہیں بلکہ انجنا اہیروار ہے ۔ دلت سماج کی بیٹی کو ظالموں اور قاتلوں کو بچانے کی خاطر مار دیاگیا ۔ اس سے قبل ہاتھرس میں پولیس والے اہل خانہ کی غیر موجودگی میں دلت بیٹی کو مٹی کا تیل چھڑک کر نذرِ آتش کردیا تھا ۔ یوپی کی طرح زعفرانی رنگ کی ڈبل انجن سرکار ایم پی میں بھی وہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے ٹھاکر یوگی یا پسماندہ یادو ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔انجنا اہیروارکو ایمبولنس سے گراکر ظلم و جبر کی فائل کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس درد انگیز کہانی کی ابتدا نوماہ پہلے ہوئی جب بھارت کی جئے ماتا کانعرہ لگانے والوں نے انجنا کے ساتھ چھیڑخانی کی ۔ اس کا بھائی نتن اہیروار اپنی بہن کی عزت کے لیے زعفرانیوں سے بھڑ گیا تو غیرتمند نوجوان کو قتل کر دیا گیا ۔ ماں اپنے بیٹے کو بچانے کی خاطر آگے آئی تو اسے سرِ عام برہنہ کردیا گیا ۔ اپنی بھتیجی کے لیے انصاف مانگنے والے چچا کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بالآخر مظلوم دوشیزہ کے ایمبولنس سے گر کر مرجانے کی خبر اڑا دی گئی ۔اس پورے معاملے میں زعفرانی ڈبل انجن سرکار کا وفادار انتظامیہ ظالموں اور قاتلوں کے ساتھ کھڑا ر ہا۔ پہلے قتل کے بعدتین ملزمین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا تو یہ تین قتل نہیں ہوتے لیکن چونکہ اس زیادتی کے اندر برسرِ اقتدار بی جے پی کے لیڈرملوث تھے اس لیے بھید بھاو کیا گیا ۔
زعفرانی درندوں نے دلت لڑکی کی جنسی ہراسانی کے بعد خاموش رہنے کی دھمکی دی۔ بہادرلڑکی نے زیادتی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تو روکا گیا لیکن چونکہ ویڈیو ذرائع ابلاغ میں پھیل چکی تھی اس لیے مجبوراً شکایت درج کی گئی۔ انتظامیہ نے اوباش نوجوانوں کی نکیل کسنے کے بجائے بی جے پی سے تعلق کے سبب نرمی برتی اور دلت خاندان پر سمجھوتہ کے لیے دباؤ ڈالنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس کے باوجود خود دار اہل خانہ کے سمجھوتہ پر راضی نہیں ہوا تو صدیوں سے دلتوں پر مظالم توڑنے والوں کے لیے انصاف کی جنگ کو بغاوت سمجھا ۔ اس کو کچلنے کی خاطر لڑکی کے بھائی نتن کو کھلے عام قتل کر دیا گیا تاکہ دیگر لوگوں کو خوفزدہ کیا جائے اوران کے مظالم پرکوئی زبان کھولنے کی جرأت نہ کرے ۔ اپنے لختِ جگر کو بچانے کے لیے وہ آگے آنے والی ماں پر ظالموں کا دل نہیں پگھلا بلکہ انہوں نے بزرگ خاتون کو سرِ عام برہنہ کر دیا۔ اس غیور خاندان نے پھر بھی ہار نہیں مانی اور انصاف کی لڑائی جاری رکھی۔ تین روز قبل لڑکی کے چچا کوزعفرانی دبنگوں نے قتل کردیا کیونکہ ان کے دل سے قانون کا ڈر نکل چکا ہے ۔ انہیں یقین دلا دیا گیا ہے کہ ٤ جون کو چار سو پار ہوجانے کے بعد منو سمرتی نافذ ہوجانے پر ایسے ظالموں کو سزا کے بجائے انعام و اکرام سے نوازہ جائے گا ۔
انجنا اہیروار کو جب اپنے چچا کے موت کی خبر ملی تو وہ ان کی لاش لینے کے لیے اسپتال گئی لیکن وہ خود اپنے انجام سے انجان تھی۔ وہ بیچاری اپنے چچا کی لاش کے ساتھ لوٹ رہی تھی کہ راستے میں ایمبولینس سے گر کر اس کی موت کا اعلان ہوگیا۔ اس طرح نوماہ کے اندرمظلوم دوشیزہ سمیت ایک ہی خاندان کے تین لوگ موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے ۔ اس عرصہ میں وزیر اعظم نے کئی بار مدھیہ پردیش کا دورہ کیا مگر ایک بار بھی انہوں نے مظلوموں کی ہمدردی میں کچھ نہیں کہا بلکہ دلتوں کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی خاطر سنت روی داس مندر کا افتتاح فرمادیا۔ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے اس وقت ایکس پر لکھا تھا ، ‘مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع میں ایک دلت نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا۔ غنڈوں نے اس کی ماں کو بھی نہیں بخشا۔ ساگر میں سنت روی داس مندر بنوانے کا ڈرامہ کرنے والے وزیر اعظم کے مدھیہ پردیش میں مسلسل دورے ہو رہے ہیں مگر وہ دلت اور قبائلی ظلم اور ناانصافی پروہ چوں تک نہیں کرتے ‘۔
مذکورہ بالا سانحہ سے صرف ایک ماہ قبل بی جے پی رہنما پرویش شکلا نے مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع میں ایک قبائلی دشمت راوت کے اوپر پیشاب کرکے اس کی ویڈیو پھیلانے کی جرأت کردی تھی۔ اس کے بعد انتخابی نقصان کے خوف سے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اسے اپنے گھر بلا کر اس کے پیر دھوئے تھے ۔ اس واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کانگریس کے دلت صدر ملک ارجن کھڑگے نے ایکس پر لکھا تھا ‘مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ صرف کیمرے کے سامنے غریبوں کے پاؤں دھو کر اپنا جرم چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی نے مدھیہ پردیش کو دلت مظالم کی تجربہ گاہ بنا دیا ہے ۔ بی جے پی کی حکومت والی مدھیہ پردیش میں دلتوں کے خلاف جرائم کی شرح سب سے اونچی یعنی قومی اوسط سے بھی تین گنا زیادہ ہے ”۔
بی جے پی والے اس طرح کی نوٹنکی کرکے پسماندہ طبقات پر ڈورے ڈالتے ہیں حالانکہ مذکورہ بالا واقعہ کے صرف ایک ماہ بعد ہی ساگر میں جس ظلم و ستم کی شروعات ہوئی وہ اب اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ اس دوران بی جے پی نے زبردست اکثریت کے ساتھ صوبائی انتخاب جیت لیا۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ فی الحال ملک کا عام آدمی اس طرح کے مظالم پر آگ بگولا نہیں ہوتا اور بڑی آسانی سے زعفرانیوں کے جھانسے میں آجاتا ہے ۔ اس وقت کانگریس کے سینئر رہنما دگ وجے سنگھ نے بھی اس معاملے پر بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے غریب لوگوں پر بی جے پی کے مظالم بڑھ رہے ہیں۔ سنت روی داس مہاراج کا مندر بنانے سے ان غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہیں ان کے حقوق دینا ہوں گے ۔ انجنا اور اس کے چچا کا قتل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دلت سماج اب بھی اپنے جائز حقوق سے محروم ہے ۔
مدھیہ پردیش کے ساگرضلع میں وقوع پذیرہونے والی اس ظلم و جبرکی داستان پر راہل گاندھی نے کہا کہ دلت خاندان کے ساتھ بی جے پی لیڈروں نے جو کیا ہے وہ سوچ کر ہی دل درد سے بھر جاتا ہے ۔ نریندر مودی نے قانون کی حکمرانی ختم کردی ہے ۔ راہل گاندھی نے مزید لکھا
کہ یہ شرم کی بات ہے کہ بی جے پی کی حکومتوں میں سرکار متاثرہ خواتین کے بجائے مجرموں کے ساتھ کھڑی ملتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات ہر اس شخص کی ہمت توڑ دیتے ہیں جس کے پاس انصاف کے حصول کے لیے قانون کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے یقین دلایاکہ وہ ایک ایسا نظام بنائیں گے جہاں کمزور ترین آدمی بھی ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھا سکے گا۔ انہوں نے دولت اور طاقت پر انصاف کے انحصارکو ختم کرنے کا عہدکیا۔ اس معاملے میں کانگریس پارٹی نے پی ایم مودی سے پوچھا کہ آپ تک یہ خبر پہنچی؟ آپ کے جنگل راج میں سرعام قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، بیٹیوں کا استحصال ہو رہا ہے اور سمجھوتہ نہ کرنے پر آپ کی پارٹی کے لوگ قتل کروا رہے ہیں۔ آپ نے ملک کو بیٹیوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے اور ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی آپ درندوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، یہ ملک جانتا ہے ۔
ملک کے اندر دلت خواتین کے اوپر ہونے والے مظالم میں پچھلے دس سالوں کے اندر خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ ان پر سنگھ پریوار صدائے احتجاج بلند نہیں کرتا ۔ ‘بہت ہوا ناری پر اتیاچار’کا نعرہ لگانے والوں کو اس موضوع پر فلم بنانے کی توفیق نہیں ہوتی بلکہ ان مظالم کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے کبھی ‘دی کشمیر فائلس’ تو کبھی ‘دی کیرلا اسٹوری’ یا’بہترّ حوریں’ جیسی فتنہ پرور فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ مذکورہ بالا فلموں کا مقصد مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرکے اپنے عیوب کی پردہ پوشی ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہم دو ہمارے بارہ نامی نئی فلم بنائی ہے ۔ اس فلم کا مقصد مسلم آبادی کے بڑھنے کا بیجا خوف دلانا اور مسلم سماج میں خواتین پر مظالم دِ کھا کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے لیکن جب ان خیالی واقعات سے سماج کے تلخ حقائق ٹکراتے ہیں تو وہ شیشہ ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتا ہے ۔ جس دن ‘ہم بارہ’ کا ٹیزرمنظر عام پر آیا اسی دن ساگر کے مظالم کی درد بھری داستان میڈیا پر چھاگئی اور اس نے ریلیز ہونے سے پہلے ہی ‘ہم بارہ’ کی ہوااکھاڑدی ۔ یہ قدرت کا انصاف ہے ۔