اعلی شخصیات کی تحقیقات میں مداخلت، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹرلا سپریم کورٹ طلب
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے اعلی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مداخلت کے کیس میں ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لا کو طلب کرلیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اعلی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مداخلت کے کیس میں 27 مئی کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے، عدالت نے ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد بیرون ملک جانے والوں کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق گزشتہ تاریخوں سے کیا گیا، دیکھنا ہوگا ترمیم سے مستفید وزرا نے کابینہ اجلاس سے خود کو الگ کیا تھا یا نہیں۔عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب)سے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجوہات طلب کرلی ہیں، عدالت نے کہا کہ نیب بتائے 174 ملزمان کے نام کس بنیاد پر ای سی ایل میں ڈالے گئے تھے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامہ میں کہا کہ ایف آئی اے نے صرف ایک ہائی پروفائل کیس کا ریکارڈ محفوظ ہونے سے آگاہ کیا ہے، جبکہ دیگر کیسز کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لا کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ایف آئی اے تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ محفوظ بنانے سے متعلق آگاہ کرے۔خیال رہے کہ تحقیقاتی اداروں میں حکومت کی مبینہ مداخلت پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور معاملہ پر پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، ازخود نوٹس کی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ رولز کے مطابق کرپشن، دہشتگردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر ملک سے باہر نہیں جا سکتے لیکن کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟ کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کہ کیا ایک سو بیس دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ ، جس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ ایک سو بیس دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔