اسلام نے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا
شیئر کریں
آج مئی کا پہلا دن ہے،آج مزدوروں کا دن ہے۔دنیا بھر میں ’ہر سال یکم مئی ’یوم مزدور‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اس کی ابتدا 1886 سے امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوئی۔ اس دن بہت سے ممالک میں شکاگو میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے نام پرقومی سطح پر چھٹی ہوتی ہے۔ سیمینار اور جلسے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ لیکن غریب یا متوسط ممالک میں اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خود مزدور طبقہ ہی،اس دن کی اہمیت اور اپنے حقوق سے لاعلم ہے۔ وہ اس دن بھی روز مرّہ کی طرح صبح ہوتے ہی اپنے گھر سے مزدوری کیلئے نکل جاتا ہے اور شام گئے تھکا ماندہ گھر لوٹتا ہے کیونکہ وہ اگر چھٹی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ دراصل شکاگو میں پہلی بار 1886میں مزدوروں نے باضابطہ طور پر کام کے اوقات کو 8 گھنٹے کرنے اور ہفتہ میں ایک دن تعطیل کئے جانے کے مطالبات کیے تھے۔ مطالبات منظور نہ ہونے پر مزدوروں نے پہلی بار بطور احتجاج ہڑتال اور مظاہرہ کیا جس پرمزدوروں کودبانے اور خوفزدہ کرنے کیلئے پولیس نے نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی اورجس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک اور زخمی ہو گئے۔اس ہولناک اور دلخراش واقعے کے بعد 1889 ء میں پیرس میں عالمی جنرل اسمبلی کی دوسری میٹنگ میں ایک قرارداد منظور کی گئی کہ اس سانحہ کی تاریخ یعنی یکم مئی کو عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پر منایا جائے۔ اس قرارداد کے منظور کئے جانے کے بعد دنیابھر کے 80 ممالک نے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طورپر ”یوم مئی“ یا”یوم مزدور“کے موقع پر قومی تعطیل کا بھی اعلان کر دیا۔ اس طرح ”یوم مزدور“ معرض وجود میں آیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مزدوروں کے حقوق اور ان کی بہتر طرز زندگی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں مزدوروں کے حالات دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ برطانیہ،امریکہ،کینیڈا،فرانس اور جرمنی میں مزدوروں کے حقوق اور بہتر طرز زندگی کے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔روز مرہ زندگی میں عام مزدورجس طرح اپنی کار میں کام پر آتے ہیں وہ انداز ہمارے ملک میں بہت پڑھے لکھے اور اعلی عہدوں پر متمکن دیانتدار لوگوں کو بھی میسر نہیں۔ علاوہ ازیں مزدوروں کیلئے ان کے کام کے دوران سارے حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں۔ انھیں کبھی کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ان کے علاج معالجہ کی بھی بہت بہتر سہولتیں فراہم کرنا قانونی طورپر آجر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ یومیہ یا کنٹریکٹ ملازم کہہ کر اس ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتا،مزدوروں کو طبی امداد کی فراہمی یا تاخیر پر آجر کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑٹا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے برعکس تیسری دنیا خصوصا ایشیا و افریقہ کے اکثر ممالک میں ہر روز جس حالت زار میں مزدور اپنے گھروں سے مزدوری کرنے جاتے ہیں، وہ بہت ہی ابتر اور قابل رحم ہے۔ بعض اوقات دن کے 12بجے تک مزدوری کے اڈے پر انتظار کر کر کے مزدور اداس آنکھوں کے ساتھ مایوس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان میں سفید ریش بزرگ اور کم عمر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ”یوم مزدور“کے موقع پر ایسے تمام ممالک جہاں مزدوروں کی حالت حیوانوں سے بھی بدتر ہے، وہاں ان کی اور ان کے بال بچوں کی بہتر طرز زندگی کیلئے بہت سنجیدگی سے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن عمل در آمد بالکل نہیں ہوتا۔بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ ہیں، مستقبل کے معمار اورمستقبل کی امید ہیں۔بچے کائنات کا حسن ہیں لیکن آج ان معصوم بچوں کے ناتواں کاندھوں پر مزدوری کا بوجھ ہے، آج ان کے نازک بدن پر لباس نہیں، پاؤں میں جوتا نہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ظالم اور لالچی آجر مزدور کے خون پسینے سے اپنی تجوری تو بھرتے رہتے ہیں لیکن مزدوروں کو اتنی اجرت دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلاسکیں اور گھرکا خرچ پورا کرنے کیلئے انھیں اپنے کمسن بچوں کو مزدوری پر لگانے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال ”یوم مئی“ یوم محنت اور یوم مزدور“ کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ اس دن مزدور یونینز جلسوں‘ جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ مزدور لیڈر تقاریر کرتے ہیں اور مزدوروں کی انجمنیں رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں۔ وزیر محنت اور دیگر حکومتی ارکان کے بیانات و تصاویر اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے، اینٹوں کے بھٹے اور قالین بانی کے مراکز ظلم کی آماجگاہ ہیں، جہاں پربچے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے اور ان کا قرض ادا کرنے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ہزاروں بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، چہرے پر بھوک اور پیاس کی شدت لیے بڑی بڑی گاڑیوں کے پیچھے غبارے لیے، گجرے اٹھائے، چھوٹی موٹی چیزیں لیے بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں، ٹریفک کے بے پناہ رش اور ہجوم کے بیچوں بیچ چار پیسے کمانے کے لیئے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے پھرتے ہیں۔ بقول کسے بھوک، افلاس کی عفریتوں کو دیکھتے ہیں، ڈر جاتے ہیں کتنے قاسم، کتنے ٹیپو، بچپن میں ہی مر جاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بہت سے نونہالوں کے سروں پر تو چھت ہی نہیں ہے، آج پاکستان کے لاکھوں بچے اپنے غریب خاندانوں کے ساتھ سڑکوں پر اور جھگیوں میں رہتے ہیں، ارباب اختیار اور حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ انہیں محض باتوں سے نہ بہلایا جائے بلکہ خدارا کچھ کر کے دکھایا جائے۔ آج غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر جتنے مزدور پیشہ گھرانے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خود کشیاں ہو رہی ہیں اور عورتیں بچوں سمیت نہروں میں چھلانگیں لگا کر زندگی کے مصائب سے چھٹکارہ پا رہی ہیں۔ یقیناًاس کے ذمہ دار ارباب اختیار،حکمران اشرافیہ اور معاشرے کے صاحب ثروت لوگ ہیں۔ ہماری قوم میں صلاحیت موجود ہے۔ ہر طرح کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔ ضرورت دیانتدار،فعال قیادت اور دانشمندانہ معاشی پالیسیوں کی ہے۔ ”نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی“ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور نام بھی بڑا دلکش اور خوبصورت ہے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف عبادات کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ بیماروں، یتیموں، ہمسایوں، مسافروں، طالب علموں بلکہ جانوروں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم دیتا ہے۔یوم یکم مئی دراصل ایسی قوتوں کے خلاف نفرت کے جذبات کے اظہار کا موقع ہے جنہوں نے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کی انسانیت ساز تعلیمات سے منہ موڑ کر مزدوروں پر ظلم کیا اور کر رہے ہیں۔ یوم مئی موقع ہے ان طاقتوں کے خلاف نفرت کے جذبات کے اظہار کا جنہوں نے مزدوروں کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کرنے کے اصول کو پامال کیا اور جو آج بھی ایسے سنہری اصولوں کی پامالی کر رہے ہیں۔ حضورؐ نے زندگی میں صرف مزدور کے ہاتھ کو بوسہ دیاہے۔ یکم مئی یوم مزدور کے سلسلے میں نبی کریم ؐکا فرمان قابل توجہ ہے کہ ”الکاسب حبیب اللہ“ (محنت سے کمانے والا اللہ کادوست ہوتا ہے)۔ اسلام نے مزدور کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا
بلکہ مزدور کو اعزاز واکرام سے بھی نوازا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا”مزدور کا حق (مزدوری) پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کردو“۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالتے ہی فرمایا میری تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ کے برابرہو۔عرض کیا گیا کہ ”گزارہ نہیں ہوگا“فرمایا”اگر میرا گزارہ نہیں ہوگا تو مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہے پھر مزدور کی تنخواہ زیادہ کردو“۔کیاہمارے حکمراں اور مل مالکان اس کی پیروی کرنے کی کوشش کریں گے؟
٭٭٭