میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مزدوروں کا عالمی دن

مزدوروں کا عالمی دن

ویب ڈیسک
پیر, ۱ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

آج ہی کی بات ہے میں صبح اپنے اسکول کے زمانے کے ایک دوست سے ملنے گیا، وہ نیو کراچی کی ایک پسماندہ بستی میں پرچون کی دوکان چلاتے ہیں، وہ اپنی دوکان میں موجود تھے۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مہینے تو مندے کی انتہا ہو گئی، میں دکان پر بیٹھا مکھیاں مارتا رہا ۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ تمہارا کام تو ضروریات سے تعلق رکھتا ہے دال ، چاول ، تیل اور پرچون کے آئیٹمز تو روز کی ضرورتیں ہیں ان میں مندے کا کیا سوال ؟ میرے دوست نے بتایا کہ چکن گونیا بخار کی وبا ایسی پھیلی ہے کہ ہر گھر میں دو دو، تین تین لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔ غریب لوگ ہیں، ڈاکٹروں کی فیسوں اور دواﺅں میں پیسے خرچ کرنے پر مجبور ہیں اسی لیے روز مرہ چیزوں کی خریداری کی استعداد نہیں رہی ۔ یہ زمینی حقائق ہیں جو سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں لیکن کسی بھی سطح پر اس صورتحال کا نوٹس نہیں لیا جا رہا ۔ ہر شخص دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہا ہے۔ خود ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ لاکھوں گھرانے کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ معمولی تنخواہ کے عوض دس سے بارہ گھنٹے ملازمت کو دیتے ہیں ۔ ان کی محنت کا معاوضہ انہیں اتنا نہیں ملتا کہ ہ اپنی ضروریات بھی پوری کر سکیں ۔ مکان کا کرایہ ، روز مرہ کی دال روٹی ، یوٹیلیٹی بلز بمشکل پورے ہوتے ہیں ۔ تعلیم اور صحت کے اخراجات پورے کرنا قرض لیے بغیر ممکن نہیں ہوتا ۔ یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ مزدوروں کا حقیقی درد دل میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس دن رسمی بیانات ، رسمی سیمینارز اور رسمی تقاریب کے سوا مزدوروں کے حق میں اور کچھ نہیں کیا جاتا ۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والے سرمایہ داروں سے چندے لے کر تقریبات منعقد کرپاتے ہیں ۔
وطن عزیز میں ظاہر ہے صرف مزدوروں کے حقوق کا مسئلہ نہیں جو معاشرے اخلاقی اعتبار سے تباہ حال ہوں وہاں کسی بھی طبقے کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے ۔ مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین کی دھجیاں جس طرح پاکستان میں اُڑائی جا رہی ہیں شاید ہی کسی اور ملک میں اُڑائی جا رہی ہوں ۔ مزدووں کو نہ معاوضہ ٹھیک دیا جا رہا ہے اور نہ ان کی نوکری پکی کی جا رہی ہے ، اکثر مالکان نے کاموں کو ٹھیکے پر دے دیا ہے ،ٹھیکدار ضرورت کے تحت چند مہینوں کے لیے بھرتی کرتے ہیں اور جب ضرورت پوری ہوتی ہے تو انہیں فوراً فارغ کردیتے ہیں ۔ مالکان کی اس عیاری پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے کہ :
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
مزدوروں کی ہائے اور بد دعاﺅں کا ٹارگٹ اب سخت گیر ٹھیکدار رہتا ہے ، ساری پھٹیکیں بھی ٹھیکدار کے کھاتے میں ہوتی ہیں اور مالکان کا کام بھی سستے میں نکل جاتا ہے ۔ یہ تو بڑی فیکٹریوں اور کمپنیوں کا حال ہے جبکہ چھوٹے موٹے کارخانے دار تو ملازموںکا خون بھی نچوڑتے ہیں ان کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور اتنی تنخواہ بھی نہیں دیتے جتنی کہ حکومت نے کم از کم طے کی ہوئی ہے ۔ چائلڈ لیبر کا بھی چھوٹے کارخانوں میں بہت بڑا ایشو ہے ، قانون اور قانون کے محافظ سرمایہ دار کے گھر کی لونڈی ہیں کسی بد ترین ظلم پر بھی مزدور کو قوانین فائدہ نہیں دیتے کیونکہ قوانین کو ایکٹیویٹ کرنے کی چابی مزدور کے پاس نہیں ہوتی ۔ نہ مزدور وکیلوں کی فیس ادا کر سکتا ہے اور نہ عدالتی اہلکاروں کی مٹھی گرم کر سکتا ہے عدالت کو خریدنا تو بہت دور کی بات ہے جبکہ سرمایہ دار نہ صرف عدالت پر اثر انداز ہو کر اپنے حق میں قوانین کی تشریحات کر کے فیصلے کرا سکتا ہے بلکہ مزدور کے معمولی وکیل کو خرید کے اپنی جیب میں بھی ڈال سکتا ہے ۔
لمبی داڑھیوں اور ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنے والے سرمایہ دار جو تبلیغی جماعت میں چلے لگا کر اور مزارات پر درجنوں دیگوں کی خیرات کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہتے ہیں وہ بھی مزدوروں کے حقوق سلب کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے وہ اپنے شریعہ ایڈوائزر کے ذریعے اپنی تمام غیر انسانی اور ظالمانہ پالیسیوں کو شرعی جواز فراہم کر لیتے ہیں ، رمضان المبارک میں مساجد ، مدارس اور فلاحی اداروں کو کروڑوں روپے کی زکوٰة دینے والے اپنے ڈرائیور ، چوکیدار اور گھریلو ملازمین کو اتنی مناسب تنخواہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے جس سے اس کی ضروریات آسانی سے پوری ہو سکیں ، مزدوروں کے ہاں مزدور ہی جنم لے رہے ہیں۔ تعلیم سے محروم یا تعلیم میں پیچھے رہنے والے معیار زندگی کی دوڑ میں کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
دین اسلام مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کس قدر حساسیت دکھاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ جب اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو آپ نے اپنی امت کو اس موقع پر دو چیزوں کی جانب متوجہ کیا آپ ﷺ فر ما رہے تھے :
الصلوة الصلوة وما ملکت ایمانکم
نماز، نماز (کی فکر کرو ) اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔عرب کے مخصوص کلچر میں غلام ہی خدمت کا کام کیا کرتے تھے۔ رحمت اللعالمین ﷺ کو اپنی وفات کے وقت بھی اس کمزور طبقے کی فکر تھی جس کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دلاتے رہے ۔ یکم مئی کو ہر سال کی طرح رسمی سرگرمیاں اس سال بھی انجام دی جا رہی ہیں۔ وہ لوگ بھی مزدوروں کے حقوق پر لیکچر دے رہے ہوں گے جن کے ملازمین اپنے بچوں کی اسکول فیسوں اور یوٹیلیٹی بلز یا اپنی بچی کی شادی کے لیے سخت پریشان ہونگے اس پریشانی نے ان کی رات کی نیندیں بے چین کر رکھی ہونگی۔ بد قسمتی تو یہ ہے کہ اپنے ان مزدوروں کو جنہیں چودہ ، پندرہ ہزار تنخواہ دیتے ہیں، زکوٰة کا مستحق بھی نہیں سمجھتے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں