شمالی وزیرستان پر ایک اور ڈرون حملہ
شیئر کریں
امریکا نے ایک دفعہ پھرشمالی وزیرستان میں پاک افغان سرحدکے قریب سرحدی قصبے زوائے پر ڈرون حملہ کرکے پہاڑ پر بنے ایک مکان کو نشانہ بنایا۔ امریکا کے اس ڈرون حملے کے بعد ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ یہ مکان طالبان کا ہیڈ کوارٹر تھا،دعوے کے مطابق ڈرون سے2 میزائل فائر کیے گئے جس سے آگ لگ گئی۔ حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے 7دہشت گردوں سمیت 10 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔ دعوے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ مرنے والوں میں تحریک طالبان کا ایک سینئر کمانڈر عبدالرحمن اور3 مزدور شامل ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رواں سال جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پاکستان کی سرزمین پر دوسرا امریکی ڈرون حملہ ہے۔ ماضی کی نسبت ڈرون حملوں میں اگرچہ خاصی کمی آ گئی ہے لیکن یہ کارروائیاںپہلے کی طرح آج بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی ڈرون حملے پاکستان کے قومی وقار اور ملکی سلامتی اور خود مختاری کیخلاف ہیں۔ پاکستانی حکومت اور پارلیمنٹ ان کی مخالفت کر چکی ہے اور عوامی حلقوں سے بھی ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اب جبکہ ہماری سیکورٹی فورسز آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز آپریشن میں مصروف ہیں، جس سے اب تک نمایاں کامیابیاں بھی ہوچکی ہیں اس لیے ہماری سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں۔حکومت پاکستان کو امریکا پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ اب ڈرون حملوں کا سلسلہ فی الفور اور مستقل طور پر بند کردینا ہی امریکا کے مفاد میں ہے اور امریکی حکومت کو اب پاکستان کے اندر طالبان کے ٹھکانوں کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی فوج افغانستان کے اندر موجود طالبان اور داعش کے ٹھکانے ختم کرنے پر توجہ دے۔
طالبان اور داعش افغانستان میںجو تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ گروپ باہم بھی دست و گریباں ہیں۔ طالبان اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے اقتدار واپس حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ داعش افغانستان میں مقبوضات کے لیے سرگرم ہے۔ شام میں داعش اور امریکا ایک مقصد کے لیے غیر اعلانیہ اتحاد کیے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں امریکا داعش کو نشانہ بنا رہا ہے۔ افغان حکومت داعش اور طالبان کے خلاف برسر پیکار ہے۔ سرزمین افغانستاں میں کوئی سہ مکھی لڑ رہا ہے ،کوئی چو مکھی۔ اپنی اپنی جگہ امریکا، افغان انتظامیہ، طالبان اور داعش کامیابی کے دعوے کرتے ہیں۔ یہاں کون کامیاب ہے کون نہیں، اس سے قطع نظر تباہی افغانستان اور افغانوں کی ہو رہی ہے، پچاس لاکھ سے زائد افغان، پناہ گزینوں کے طور پر پاکستان ایران اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ افغان انتظامیہ کا کنٹرول سکڑتے سکڑتے کابل تک محدود ہو رہا ہے، طالبان کی کامیابی کا دعویٰ اس صورت میں وزن رکھ سکتا ہے جب یہ اپنا کھویا ہوا اقتدار پا لیں جس کا امریکی فوج کی موجودگی میں امکان نہیں اور امریکا مستقبل قریب میں افغانستان سے مکمل انخلا کا ارادہ نہیں رکھتا۔ البتہ داعش کا بہت دُور آ کر قدم جما لینا اگرچہ اس کی کامیابی کی دلیل نہیں مگر یہ افغانستان انتظامیہ، امریکی فوج اور ان دونوں کی انٹیلی جنس کی ناکامی کا اظہار ضرور ہے۔
طالبان اور داعش اتنے بڑے آپریشن، خودکش دھماکے اور حملے کسی غیر ملکی قوت کی پشت پناہی کے بغیر قطعی نہیں کر سکتے۔ ان دونوں کی پشت پناہی کوئی اور ملک بھی کر رہا ہو گالیکن بھارت کا کردار مسلمہ اور مصدقہ ہے۔ وہ طالبان کو طاقتور کر رہا ہے، اس کا مقصد افغانستان کو غیر مستحکم کرنا اور افغان انتظامیہ کو زک پہنچانا شاید نہ ہو۔ وہ طالبان کے پاکستان مخالف عناصر کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ افغان طالبان کے ایک گروہ کے ساتھ پاکستان سے فرار ہونیوالے دہشتگردوں کے رابطے ہیں جو ان کو پناہ دیتا ہے۔ افغان طالبان کا افغانستان کے ہاتھوں استعمال ہونیوالا گروہ افغان انتظامیہ کے خلاف بھی بھارتی امداد و اسلحہ بروئے عمل لاتا ہے۔
بھارت میں داعش کو قدم جمانے میں بھی بھارت ہی معاون ہے۔ جس کا ثبوت تازہ ترین رپورٹ اور ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل ننگر ہار میں امریکا کے سب سے بڑے نان نیو کلیئر بم حملے میں ”را“ کے 15 ایجنٹوں اور فوجی ٹرینرز کی ہلاکت سے ملتا ہے۔
بھارت پاکستان میں خون خرابے کو اپنا مقصد اور مشن سمجھتا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف داعش اور طالبان کو استعمال کر رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مفرور مولوی فضل اللہ جیسے دہشتگردوں کی بھی ”را“ اور این ڈی ایس پرورش کرتی ہیں۔ افغان انتظامیہ بہت سے معاملات میں بھارت کی محتاج ہے۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا خاندان دہلی میں مقیم ہے۔ بھارت امداد کے نام پر افغان حکمرانوں پر مہربان رہتا ہے۔ ان کے اپنے اہل و عیال اور خاندان محفوظ ہیں، بادی النظر میں انہیں ملکی مفاد اور اپنے شہریوں کی حفاظت سے غرض نہیں ہے۔
افغان انتظامیہ پاکستان پر افغانستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ بارڈر پار دہشتگردوں کی پناہ گاہوں اور وہاں سے اپنے ملک میں داخل ہونے کا واویلا کیا جاتا ہے۔ پاکستان افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے ناقابل تردید ثبوت امریکا اور اقوام متحدہ کے سامنے رکھ چکا ہے۔ یہ محض الزامات نہیں ہیں، پاکستان نے سرحد پار دہشتگردی روکنے کے لیے بارڈر مینجمنٹ شروع کی جس پر افغانستان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، طور خم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر کے دوران گولہ باری کر کے ایک میجر سمیت 18 اہلکاروں، سویلین کو شہید اور زخمی کر دیا۔ سرحد پار آنے جانے پر دستاویزات پیش کرنے کی بھی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔پاکستان پوری سرحد کو دیوار یا باڑ سے سیل کرنا چاہتا ہے اسے بھی افغان انتظامیہ بھارت کے ایما پر ناقابل برداشت قرار دے رہی ہے۔ پاک افغان سرحد سیل کر دی جاتی ہے تو بھارت کے لیے پاکستان میں کھل کر مداخلت اور دہشتگردی کے راستے بند ہو جائیں گے۔ افغان انتظامیہ کے اس الزام کا بھی خاتمہ ہو جائے گا کہ پاکستان سے دہشتگرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیں مگر چونکہ ان کی نیت میں فتور ہے اور وہ بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں اس لیے بارڈر مینجمنٹ کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ممالک کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔ افغان انتظامیہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی و قومی مفادات کے بارے میں سوچے، ہٹ دھرمی چھوڑ دے، حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بھارت کا اپنے ملک سے عمل دخل ختم کر دے تو دونوں برادر اسلامی ملک امن کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
افغان حکمرانوں کے تلخ رویوں کے باوجود پاکستان کا رویہ ہمیشہ مثبت، ہمدردانہ اور معاونت پر مبنی رہا ہے۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کسی بھی ملک سے بڑھ کر تعاون کر سکتا ہے۔ افغان فوج میں دہشتگرد کس طرح آسانی سے شامل ہو جاتے ہیں کہ 4 جنگجو ایک ماہ آرمی کور میں موجود رہے۔ اب بھی شاید کچھ وہاں موجود ہوں۔ پاکستان فوجی اور انٹیلی جنس مہارت میں ایک مقام رکھتا ہے۔ افغان اہلکاروں کی تربیت میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ کام بھارت کر رہا ہے تو اس کے اپنے مقاصد بھی اس کے پیش نظر ہوتے ہیں جو افغانستان کے مفادات کی حمایت سے زیادہ مخالفت میں ہیں۔
امریکا کو اس صورتحال کاسنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور پاکستان کے اندر طالبان کے ٹھکانوں کاکھوج لگانے کی کوششیں کرنے کے بجائے خود افغانستان میں طالبان اور داعش کے ساتھ ہی ان کو تربیت کی سہولت اور اسلحہ اور فنڈز فراہم کرنے والے ملک بھارت کی سرگرمیوں کاسختی سے نوٹس لینا چاہیے،جب تک امریکا افغانستان میں طالبان کے مضبوط ٹھکانوں کو ختم نہیں کرتا اوران کو فنڈز فراہم کرنے والے عناصر کی سختی سے بیخ کنی نہیں کرتا افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔