نامکمل پارلیمنٹ کی قانون سازی
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہے مگراپنی ناکامی تسلیم کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ ایسے حالات میں جب بنگلہ دیش دنیا کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل سٹی کا افتتاح کر رہا ہے اور بھارت میں آئی فون اور سام سنگ جیسی کمپنیاں اپنی مصنوعات تیار کرنے لگی ہیں جس کی آٹو انڈسٹری نے جاپان تک کو پیچھے چھوڑ دیا اوروہ معاشی وتجارتی حوالے سے برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کوبھی مات دینے لگاہے جس کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر چھ سوارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں لیکن پاکستان کی حالت یہ ہے کہ درآمدات اور قرضوں کی اقساط اداکرنے کے لیے زرِ مبادلہ نہیں ،اسی پتلی مالی حالت کی بناپر آئی ایم ایف کی طرف سے مزید ایک ارب بیس کروڑڈالر کی قسط دینے سے قبل شرائط پیش کی جارہی ہیں۔لوگ آٹے کے حصول کے لیے جاں بحق ہورہے ہیں جو ملک میں بڑھتی غربت کی طرف اشارہ ہے مگر حکمرانوں کی کوشش ہے کہ کوئی ایسا طریقہ ہاتھ لگ جائے جس کے ذریعے اقتدار میں رہ سکیں۔ وہ اقتدار کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پارلیمنٹ نامکمل ہے۔ اسی لیے نہ صرف قانون سازی پر سوال اُٹھنے لگے ہیں بلکہ عوامی حلقوں سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ نامکمل پارلیمنٹ کی طرف سے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرتین رُکنی خصوصی بینچ کی طرف سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے سیاستدانوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور نامکمل پارلیمنٹ کاذکرکرتے ہوئے اُس کی طرف سے ہونے والی قانون سازی پر سوال اُٹھائے کیونکہ ایک ایسی قومی اسمبلی جس کی نصف سے کچھ کم تعداد ایوان سے باہر ہے اپوزیشن کی عدم موجودگی میں ہونے والی قانون سازی کو عوامی رائے کے مطابق نہیں کہہ سکتے۔
حکومت نے مسلسل ایسی قانون سازی کی ہے جس سے احتساب جیسا عمل توبے جان بن گیا،اب انتخابی عمل سے فرارکے لیے کوشاں ہے ۔یہی عمل سیاسی انتشاربڑھانے کا موجب ہے۔ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوے روز کے اندر انتخاب کرانا لازم ہے لیکن حکومت پنجاب اور کے پی کے میں انتخاب نہیںکراناچاہتی ۔اِس حوالے سے قومی اسمبلی سے مستعفی پی ٹی آئی نے عدالتِ عظمیٰ میں عرضی دائر کررکھی ہے لیکن حکومت فیصلے کی نوبت آنے میں رکاوٹ ہے۔ اب تو ازخودنوٹس کے متعلق عدالت کے اندرسے ہی سوالا ت اٹھوا دیے ہیں ممکن ہے یہ سوالات درست ہوں لیکن سوالات کی ٹائمنگ پر ملک کے اکثریتی طبقات خفاہیں اور قانونی شُد بُد رکھنے والے بھی تنقید کررہے ہیں۔ سب کاکہنا ہے کہ سوالات کے پسِ پردہ حکومتی ہاتھ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے حکومتی موقف کے مطابق اختلافی نوٹ پر خوشی دکھانا نیز پی ٹی آئی دور میں خلاف دائر ریفرنس واپس لینے کا اعلان خود وزیرِ اعظم شہباز شریف کی طرف سے کرنا ہے۔ نامکمل پارلیمنٹ کے زریعے اقتدار میں آنے والے سربراہِ حکومت کے ایسے اقدامات سے شکوک و شبہات اور یہ تاثرپیداہورہا ہے کہ یہ سارا عمل چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی کی سزا ختم کرانے کے لیے اپیل کا حق دلانے کے لیے اختیارکیا گیاہے۔
آرٹیکل 184 کی دفعہ تین کے تحت باضابطہ ایک پٹیشن کے بارے میں قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اور جج کے ساتھ فیصلہ دیا جس کا پی ٹی آئی کی پٹیشن سے کوئی تعلق نہیں لیکن حکومتی چالوں سے ظاہر ہے کہ اُسے ہر صورت الیکشن کا التوا چاہیے یادرہے 1997 میں موجودہ حکمران جماعت کے دورمیں عدالتِ عظمیٰ پر حملہ بھی ہوا ۔حملے کی خاص بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے قانونی مسائل پیداکرنے کی بناپر چیف جسٹس سجادعلی شاہ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اِس کے لیے رفیق تارڑخاص مشن لیکر کوئٹہ گئے اور ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہواکہ ایک ہائیکورٹ کی طرف سے عدمِ اعتماد پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سبکدوش کردیاگیا۔اِس کارِخیر میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی پیش پیش رہے۔ وہ عدالت پرحملہ آوروں کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کرتے رہے جس کے متعلق چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سوانح عمری میں مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اِداروں میں شکست وریخت اور سیاسی محاذآرائی سے ملک میں خلفشار بڑھنے کا اندیشہ ہے جس کا جتنا جلد احساس کر لیا جائے بہتر ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ چیف جسٹس کے پاس اکیلے ازخودنوٹس اور بینچ بنانے کا اختیار غلط ہے جوخاصامضحکہ خیز ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے عدمِ اعتمادِ کی تحریک مسترد کرنے کا نوٹس لیکرجب رات کو سماعت شروع کی تو پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے واشگاف الفاظ میں بڑھ چڑھ کرتائید کی اور اِس عمل کو عین قانون و آئین کے مطابق قرار دیا کیونکہ بینچ بنانا چیف جسٹس کا انتظامی اختیارہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ اگرعدالتِ عظمیٰ نوٹس نہ لیتی تو اب تک اسمبلیاں توڑکرملک میں عام انتخابات کرائے جا چکے ہوتے مگر یہی حکومت اب چیف جسٹس کے ازخودنوٹس پر معترض اور خلافِ آئین قرا ر دے رہی ہے۔ یہ دہرا معیار ہے گزشتہ 23 برس کے دوران چودہ چیف جسٹسز نے 204ازخود نوٹس لیے 79 ازخود نوٹس لینے کی بناپرافتخار چوہدری پہلے نمبر پرجبکہ47 کے ساتھ ثاقب نثارکادوسرا نمبر ہے۔ واحد آصف سعید کھوسہ ہیں جنھوں نے ایک بار بھی ازخود نوٹس نہیں لیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے نواز شریف نے اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ کیااور بحالی کا وعدہ لیکر لانگ مارچ ختم کیاجو بات حق میں ہو اُس پر خوشی اور جوبات خلاف ہو اُسے حکومت کی طرف سے آئین کے متصادم قرار دینا ملک و قوم کی خدمت نہیں ۔
اِس وقت پارلیمنٹ نامکمل ہے اور آئینی ترامیم کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہے جس سے حکومت محروم ہے مگر مسلسل ایسی ترامیم میں مصروف ہے جس کا اُسے کوئی حق نہیں۔ آئین میں اِداروں کی تشکیل اور اختیارات کے متعلق وضاحت ہے آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے قواعد و ضوابط خود بنائے اسی لیے قومی اسمبلی کی طرف سے قواعد وضوابط میں تبدیلی کا معاملہ بدنیتی کہہ سکتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے سپریم کورٹ کے اختیارات پر راتوں رات نقب لگایا جارہا ہو۔ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے چیف جسٹس نے پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی سربراہ کو طلب کر کے معاہدہ کراناچاہامگر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے حوالے سے دونوں فریقوں سے انڈرٹیکنگ طلب کی بات چلی توصرف پی ٹی آئی نے رضا مندی ظاہر کی۔ حکومت نے یہ کہہ کر یقین دہانی کرانے سے انکار کردیاکہ ایک کاغذ پر یقین دہانی سے سیاسی درجہ حرات میں کمی نہیں ہو سکتی حالانکہ وزیرِ اعظم اپنے برادرِ اکبر کے حوالے سے ماضی میں ایسی ہی یقین دہانی عدالت کو کراچکے ہیں ۔اب ایسا کرنے سے انکار کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ ایسا کوئی قدم اُٹھانے پر تیار نہیں جس سے انتخاب کی طرف جانے کی راہ ہموارہوتی ہو،نامکمل پارلیمنٹ کے سہارے معرضِ وجود میں آنے والی حکومت اگرقومی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہے تو اقتدار سے چمٹے رہنے کاکوئی جواز نہیں رہتا۔بہتر ہے کہ ازسرنو عوامی اعتماد حاصل کرلے تاکہ ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے اہم اورمشکل فیصلے کر سکے۔
٭٭٭