میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی، بین الاقوامی قانون کی پامالی

اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی، بین الاقوامی قانون کی پامالی

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں استعمال کے لیے ہتھیاروں یا گولہ بارود کی فراہمی بین الاقوامی انسانی قانون کی پامالی کے مترادف ہو سکتی ہے اور اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔ماہرین نے تمام ممالک پر یہ یقینی بنانے کے لیے زور دیا ہے کہ مسلح جنگ کے فریقین 1949 کے جنیوا کنونشن اور مروج بین الاقوامی قانون کا احترام کریں۔اسرائیل کو ایسے اسلحے کی فراہمی کی بھی ممانعت ہے جسے مہیا کرنے والے ممالک قانون کی خلاف ورزی کا ارادہ نہ رکھتے ہوں یا انہیں اس بات کا ادراک نہ ہو کہ اسے شہریوں کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل دوران جنگ بین الاقوامی قانون کی پاسداری میں تواتر سے ناکام رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں 29,313 فلسطینی ہلاک اور 69,333 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسلحے کی تجارت سے متعلق معاہدے کے ریاستی فریقین پر یہ اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسا اسلحہ برآمد کرنے کی اجازت نہ دیں جس کے بارے میں انہیں علم ہو کہ اسے بین الاقوامی جرائم کے ارتکاب میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک اسلحے کی برآمد کے حوالے سے یونین کے قانون پر عملدرآمد کے بھی پابند ہیں۔
ماہرین نے نیدرلینڈز میں 12 فروری 2024 کو دیے گئے ایک عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ایف۔35 لڑاکا طیاروں کے پرزوں کی برآمد روک دے۔ عدالت کے مطابق، واضح خدشہ موجود ہے کہ یہ پرزے بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین پامالیوں میں استعمال ہوں گے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب اسرائیل نے دوران جنگ انسانی قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ ریاض میں منعقدہ غیرمعمولی عرب اسلامی سربراہ اجلاس کے شرکا کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں عالمی برادری کی توجہ غزہ کی اجڑی ہوئی حالت کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قابض افواج کو ہتھیاروں اور گولہ باردو کی فراہمی فوری طورپرروکی جائے۔ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر حملوں میں بھاری اسلحہ استعمال کیا ہے۔اعلامیے میں واضح طور پر اسرائیل کو فلسطینی عوام کے حقوق کے خلاف کی جانے والی جارحیت کے نتیجے میں تنازع کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں کو وحشیانہ انداز سے نشانہ بنانے کے حوالے سے فوری طور پر فیصلہ کن کردار ادا کرے تاکہ اس جارحیت کا سد باب کیا جاسکے۔سربراہ اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں فلسطین کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ تمام مسلم ممالک ہر طرح سے اپنے برادر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے جنگی جرائم اور وحشیانہ قتل عام قرار دیا گیا۔غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے شہریوں کے جبری انخلا کے عمل کو رد کرتے ہوئے اسے ہر طرح سے ناقابل قبول قرار دیا گیا۔کانفرنس کے شرکا نے فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے اوران کے تمام حقوق خاص طور پر حق خود ارادیت کے لیے جد وجدہ میں ساتھ رہنے پر زور دیتے ہوئے 4 جون 1967 کی سرحدوں کو بحال کرنے کا مطابلہ کیا گیا جس کا درالحکومت ‘بیت المقدس’ ہوگا۔
مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنے یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے خطے میں مستقل بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ اس تنازع کو حل کیا جائے اور اہل فلسطین کو ان کا حق دیا جائے۔ نسل کشی کے خلاف 1948 کا کنونشن فریقین سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو کسی ملک میں اس جرم کی روک تھام کے لیے اپنی رسائی میں ہر ذریعے سے کام لیں گے۔ موجودہ حالات میں ان شرائط کے تحت اسرائیل کو اسلحے کی برآمد پر پابندی ہونی چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت حماس اور دیگر مسلح گروہوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ ان گروہوں نے 7 اکتوبر کو بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین پامالیوں کا ارتکاب کیا جن میں لوگوں کو یرغمال بنانا اور اسرائیل پر اندھا دھند راکٹ باری شامل ہے۔ماہرین نے بیلجیم، اٹلی، سپین، نیدرلینڈز اور جاپان کی کمپنی اٹوچو کارپوریشن کی جانب سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ حالیہ عرصہ میں یورپی یونین نے بھی اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ ماہرین نے دیگر ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی برآمد، اس کے اجازت ناموں اور اسے مہیا کی جانے والی عسکری امداد کو فوری طور پر روک دیں۔ 7 اکتوبر کے بعد امریکہ اور جرمنی اسرائیل کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والے ملک ہیں۔ دیگر میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ ماہرین نے قرار دیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کا نفاذ ازخود نہیں ہوتا۔ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اسلحے کی ایسی فراہمی سے گریز کریں جو بین الاقوامی جرم کے مترادف ہو۔ انہیں غزہ میں متواتر انسانی تباہی کو فوری طور پر روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں