سینیٹ انتخابات آئین کے تحت اور خفیہ ہی ہونگے ، سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ یا خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات قانون کی بجائے آئین کے تحت ہوں گے ،سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعرات 25فروری کو آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جاسکتے ، سینیٹ انتخابات قانون کے بجائے آئین کے تحت ہوں گے ، سپریم کورٹ کی جانب سے رائے ایک چار کی نسبت سے دی گئی، جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے رائے کا اظہار الگ سے تحریری طور پر کریں گے ۔سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کیلئے تمام اقدامات کر سکتا ہے ، انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کیلئے تمام ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے ، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرے ، تمام ایگزیکیٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن سے تعاون کی پابند ہیں۔عدالت نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تابع ہیں، الیکشن کمیشن 218 تین کے تحت کرپشن روکنے کے تمام اقدامات کرے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ سیکریسی کبھی بھی مطلق نہیں ہوسکتی، ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے ۔گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل پاکستان اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عظمیٰ نے رائے محفوظ کی تھی۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے ، کیا وجہ ہے کہ انتخابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی؟ انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے صدارتی ریفرنس 23 دسمبر 2020 ء کو سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بینچ نے 4 جنوری کو اس کی پہلی سماعت کی تھی۔صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 20 سماعتیں ہوئیں، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان کی صوبائی حکومتوں سمیت اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے اوپن بیلٹ کی حمایت کی جبکہ سندھ حکومت نے اوپن بیلٹ کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے مخالفت کی۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے ، اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی، خفیہ ووٹنگ کے سبب سینیٹ الیکشن کے بعد شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، خفیہ بیلیٹنگ سے ارکان کی خرید و فروخت کیلئے منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے ۔ریفرنس میں آئین میں ترمیم کیے بغیرخفیہ بیلٹ سے متعلق شق میں ترمیم پررائے مانگی گئی ہے ، صدارتی ریفرنس میں رائے مانگی گئی ہے کہ آئین میں سینیٹ انتخابات کا واضح طریقہ موجود نہیں۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 226 کی تشریح کرے ،سپریم کورٹ رائے دے کہ کیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوسکتے ہیں۔