نظریاتی کارکن
شیئر کریں
لگبھگ 30 برس پہلے جب گیارہ برس کے وقفے کے بعد ملک میں سیاسی جماعتوں کی اعلانیہ سرگرمیاں بحال ہوئیں اور 1988 کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں باہم مدمقابل ہوئیں تو ملک کے بیدار حلقوں کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ ملک میں 2 بڑے سیاسی گروہ ہیں جنہیں محبان بھٹو یا حریفان جو اتحادیوں کو ملاکر برسر اقتدار آنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں دو جماعتی نظام کو چیلنج کرنے کی پہلی خواہش ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے سامنے آئی اور اس کے عملی اظہار کے لیے جنرل حمید گل اور ان کے دیگر ہم خیال، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1988 میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا۔
ان اصحاب نے محض 5 برس بعد 1993 میں قاضی حسین احمد کو پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے میدان میں اتارا، یہ تجربہ اس وقت تو بری طرح ناکام ہوا مگر ذہنوں میں یہ خیال چھوڑگیا کہ تیسری سیاسی قوت عوام کے ایسے طبقے کو ضرور متوجہ کرسکتی ہے جو دونوں جماعتوں سے بیزار ہو، دو جماعتی نظام سے عوام یا مقتدر اداروں کی بیزاری کی وجوہات جدا جدا بھی ہیں او رطویل بھی، ان کا ذکر موضوع سے مطابقت رکھتا ہے نہ فی الحال اس کی افادیت ہے۔
ٹھیک چار برس بعد 1997 کے انتخابات میں نومولود سیاسی جماعت تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت کے طور پر اتری، انتخابی نتائج تو اسلامک فرنٹ سے بھی خراب ہی تھے مگر ان انتخابات میں تحریک انصاف نے یہ کمال کیا کہ سیاسی کارکنوں اور نوجوان قیادت کی ایک کھیپ جمع کرلی جو پاکستان اسلامک فرنٹ نہیں کرسکا تھا، کیونکہ اس کے ساتھ وہی لوگ آئے تھے جو پہلے سے جماعت اسلامی کے حامی تھے، تحریک انصاف نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے سے مایوس افراد میں بھی امید کی نئی جوت جگادی، وہ تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوگئے اس نئی کھیپ میں سے بھی اکثر اس وقت مایوس ہونے لگے جب نواز شریف کا بھاری مینڈیٹ سب کو روندتا ہوا آگے بڑھنے لگا، 1999ءکی فوجی بغاوت کے بعد تحریک انصاف کو ایک امید پیدا ہوئی تھی مگر 2002 کے مایوس کُن انتخابی نتائج کے بعد تحریک انصاف میں پھر مایوسی کی لہر پھیل گئی، اس مشکل وقت میں بھی جو لوگ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، وہ وہی تھے، جو پہلے روز سے پارٹی کے ساتھ تھے اور شاید آخری دن تک کھڑے رہنے کا عزم رکھتے تھے اس دوران کراچی میں پارٹی کے لیے مشکل وقت بھی آیا اور شاید اس سے زیادہ کٹھن وقت پارٹی پر اس سے پہلے نہیں آیا تھا نہ اس کے بعد آیا، ایسے وقت میں جو لوگ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے در حقیقت اس قسم کے افراد تحریک انصاف ہی نہیں کسی بھی پارٹی کا سرمایہ ہوتے ہیں یا تو عمران خان صاحب کو 12 مئی کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف اتنا شدید موقف اختیار نہیں کرنا تھا کیونکہ ان کے پارٹی کے لوگ کراچی میں بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کے اکثریتی علاقوں میں رہتے تھے ایک بڑے سیاسی فائدے کے لیے یا اصولوں پر قائم رہنے کے لیے انہوں نے یہ موقف اختیار کر ہی لیا تھا تو پھر ان قربانی دینے والے کارکنوں یا رہنماﺅں کا جائز سیاسی مرتبہ بحال رکھنا تھا مگر تحریک انصاف کے سربراہ نے 30 اکتوبر 2011 کے بعد پارٹی کو جس ڈگر پر ڈالا اور اس کے بعد منتخب ہونے کی طاقت رکھنے والوں کے لیے پارٹی میں دروازے کھولے تو نظریاتی کارکن پیچھے ہوتے چلے گئے، نئے آنے والوں نے اپنی جگہ بنانے کے لیے جو سب سے پہلے کام کیا، وہ یہی تھا کہ چن چن کر پر نظریاتی کارکنوں کو پیچھے کرکے آگے آئے، 2013 میں پارٹی کے انتخابات تو سب کے سامنے ہیں خود عمران خان سمیت اعلیٰ قیادت نے دھاندلی کو تسلیم کیا کمیشن بنایا جس نے پارٹی انتخابات میں دھاندلی کا الزام 30 اکتوبر کے بعد پارٹی میں اور پھر آنے والے رہنماﺅں پر لگا، یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ہمارے پیش نظر تحریک انصاف کے ایک بنیادی رکن اور کراچی میں پارٹی کو مستحکم بنیاد پر کھڑا کرنے والے رہنما اشرف قریشی کا خط ہے جس میں انہوں نے خان صاحب کی جانب سے بری طرح نظر انداز کیے جانے پر اپنی پارٹی سرگرمیاں محدود کردیں۔ وہ مایوس ہوکر کسی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہوئے وگرنہ پیپلز پارٹی تو بے چین ہے کراچی میں ایسے لوگوں کو قبول کرنے کے لیے، اشرف کا جو شکوہ ہے وہ تو آپ خود پڑھ ہی لیں گے ان کا خط میں ذیل میں پیش خدمت کیا جارہا ہے مگر اشرف کے خط سے پہلے انتہائی ادب کے ساتھ عمران خان صاحب سے عرض کریں گے کہ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے ایک مرتبہ کامیابی کے دروازے کھل سکتے ہیں اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ناراض مگر نظریاتی لوگوں کو نظر انداز نہ کریں، تفصیل میں جانے کا مقام نہیں مگر 3 مارچ اور 22 اگست 2016 کے بعد 2015 کے بلدیاتی انتخابات سے بہتر نتائج کے امکانات پیدا ہوئے ہیں بس دانشمند مقامی قیادت کی ضرورت ہے، اب اشرف قریشی کا خط جو انہوں نے ہمیں بھیجا ہے۔
”جناب ابو محمد صاحب۔“ یہ سطور آپ کی خدمت میں نہایت دردمندی کے ساتھ پیش کررہا ہوں، تحریک انصاف کے سربراہ اور میرے رہنما عمران خان علی الاعلان مجھے پارٹی کا فاﺅنڈر ممبر یا اساسی رکن کہتے نہیں تھکتے تھے، جب پارٹی مشکل میں تھی انٹرا پارٹی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو چھپانا تھا، 2013 کا الیکشن لڑنا تھا کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے ضروری تھے اور عارف علوی نے جو الیکشن سسٹم بنوایا تھا وہ صرف دھاندلی ہی کراسکتا تھا لہٰذا عمران خان صاحب کے حکم پر سب چُپ یعنی خاموش ہوگئے اور 2 نومبر کا الیکشن ہوگیا اور پھر وہ ہی ہوا جس کا اندیشہ اور ڈر تھا، وہ الیکشن جس کا پہلے ہی دن سے عمران خان کو علم تھا کہ غلط ہیں، اس کو غلط ثابت کرنے میں 2 سال لگ گئے اور دھرنے میں خان صاحب نے اسٹیج پر چڑھ کر اعلان کیا کہ ہمارے الیکشن میں دھاندلی ہوئی، جسٹس وجیہ الدین اور ملک یوسف گبول نے فیصلہ دے دیا ہے اور اب ہم نئے الیکشن کرائیں گے اور پھر اس بات کو بھی 14 ماہ گزر گئے، بلدیاتی انتخابات بھی ہوگئے اور پارٹی پورے ملک میں ہار بھی گئی، عمران خان کے من پسند آرگنائزرز نے تحریک انصاف کو تباہ کردیا نہ صرف کراچی اور سندھ سے اس کا نام و نشان مٹایا گیا بلکہ 2013ءمیں 9 لاکھ ووٹ لینے والی کراچی کی سب سے بڑی پارٹی کو ایک لاکھ ووٹ بھی نہ مل سکے اور جب آواز اٹھائی کہ برگر گروپ پارٹی کو تباہ کررہا ہے تو ہمیں کہا اشرف قریشی تخریب کار…. تو پھر انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے پچھلے سال تقریر کرتے ہوئے ناظم ایف حاجی کا بھی ذکر ہوا کہ ان کے وقت سے ایک تخریب کار تھا لڑتا رہتا تھا، پارٹی کا صدر بنایا تو خود سے لڑتا رہتا تھا۔
لیکن خان صاحب شاید بھول گئے کہ یہ لڑتا کیوں رہتا تھا؟ اور اشرف قریشی کو انہوں نے کون کون سے عہدوں پر رکھا اور اشرف قریشی کے عہدوں کے دوران پارٹی نے کیا ترقی کی؟ اور عمران خان کو کراچی میں کتنی پذیرائی ملی؟ اور خان صاحب ”عمران ٹائیگر“ نامی تنظیم کا قیام بھی میرے آئیڈیا پر عمل میں لائے اور اس کا چیف آرگنائزر بھی مجھے ہی بنایا پھر عمران کرکٹ اکیڈمی اور عمران خان ہیلپ لائن اشرف قریشی کے ہی آئیڈیا پر بنائی گئی اور مجھے صدارت بھی دی گئی جس کی کارکردگی سے پاکستان تحریک انصاف نے کراچی بھر میں بڑی شہرت پائی اور اس کامیابی اور پذیرائی کے چشم دید گواہ خود میرے قائد عمران خان تھے، لیکن برگر گروپ کو یہ کامیابی ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے سازشوں اور مخالفتوں کے کانٹے بونے شروع کردیئے انہوں نے معراج محمد خان کے ذریعے اس تنظیم کو ختم کرادیا ایک بڑی تنظیم جس نے کراچی میں تحریک انصاف کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور مزید کرنا تھا جو کہ عمران خان کو ان بزرگوں کے چنگل سے نکال کر ڈیفنس کے بنگلوں سے نکال کر، عوام کے درمیان لے کر آیا، عوامی مسائل حل کرنے کے لیے، ڈسپلن جس کے ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آئی لیکن صرف ان بزرگوں کو محفوظ کرنے کے لیے اس تنظیم کو ختم کردیا گیا اور مجھے پارٹی ڈسپلن کے نام پر چپ رہنے کے لیے کہا گیا تو عمران خان صاحب کے کہنے پر خاموش ہوگیا لیکن جب بھی پارٹی بڑھنے لگی یہ گروپ پارٹی کے عہدوں پر پارٹی فنڈز اور پارٹی کے الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم پر ہمیشہ قابض رہا تاکہ کسی بھی طرح چاہے الیکشن لڑ کر جیت جائیں اور صدارت حاصل کرلیں لہٰذا ان کی مرضی کے بغیر عمران خان بنائیں، اگر وہ ان کے آگے جھک جائے اور ان کے ساتھ ہر گندے کام میں شریک ہوجائے تو یہ اس کو کچھ عرصہ کے لیے چلاتے ہیں ورنہ اس پر کوئی نہ کوئی الزام لگاکر پارٹی اور عہدے سے فارغ کروادیتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭