انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت کی ریاست اترپردیش کے میرٹھ کے لِسادری گیٹ پولیس اسٹیشن کے علاقے میں ایک مسلم خاندان کے 5 افراد کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ مرنے والوں میں شوہر بیوی اور تین کمسن بچیاں شامل ہیں۔ یہ افسوسناک واقعہ سہیل گارڈن میں پیش آیا جہاں قتل کے بعد نعشیں بوریوں میں باندھ کر کے بستر کے اندر چھپادی گئی تھیں۔ قتل کی اس اندوہناک واردات کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، مقتولین میں شوہر معین، بیوی اسماء ، اور ان کی تین بیٹیاں، اقصیٰ (8)، عزیزہ (4) اور ادیبہ (1) شامل ہیں۔مقتول معین مستری کا کام کرتا تھا۔ اس واردات کا علم اس وقت ہوا جب معین کا بھائی سلیم، اپنی بیوی کے ساتھ پہنچا، دروازہ اندر سے بند تھا، دروازہ توڑا گیا تو لاشیں برآمد ہوئیں۔
پولیس کے مطابق قتل میں پتھر کاٹنے والی مشین کو استعمال کیا گیا ہے، مرنے والوں کے سروں پر گہری چوٹوں کے نشانات موجود ہیں، قتل کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہوسکی ہیں اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی مزید تفصیلات کا علم ہوسکے گا۔پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے رہے ہیں اور محلے کے دیگر افراد سے بھی پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے، پڑوسیوں کے مطابق، کسی نے بھی متاثرہ خاندان کو نہ گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی گھر کے اندر کسی کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔پولیس نے کرائم برانچ، فورینسک ٹیم، اور ڈاگ اسکواڈ کی مدد سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، جبکہ گھر کے آس پاس کے سی سی ٹی وی کیمروں کو بھی چیک کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں اقلیتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں۔اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے سری نگر میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کی گھر سے لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔حکام کے مطابق یہ دل دہلا دینے والا واقعہ سری نگر میں پیش آیا جہاں دم گھٹنے سے میاں بیوی اور ان کے تین بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔ سری نگر میں کرائے کے مکان میں رہنے والے ایک خاندان کے پانچ افراد دم گھٹنے سے بے ہوش ہونے کے بعد شام دیر گئے جان کی بازی ہار گئے۔ ڈاکٹروں نے پانچوں افراد کی موت کی تصدیق کردی۔ بدقسمت خاندان کرائے کے مکان میں زندگی بسر کررہا تھا اور اصل میں وہ بارہمولہ کے رہائشی تھے، دریں اثنا، ان کی شناخت کی تصدیق نہ ہوسکی، جبکہ اس حوالے سے مزید تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو منظم تشدداور امتیازی سلوک کا سامنا ہے بھارت میں اقلیتیں یوم مذہب منانے کے بجائے مودی حکومت کی ہندوتوا پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے منظم تشدداورامتیازی سلوک کا شکار ہیں۔معاشی اور سماجی پسماندگی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں میں خطرناک حد تک اضافے کے باعث بھارت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامناہے۔ ہندوتوا رہنما کھلے عام اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے ہیں جبکہ بی جے پی حکومت انتہا پسندوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
بھارت بھر میں ہجومی تشدد، جبری تبدیلی مذہب، مذہبی مقامات کی تباہی اور نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اقلیتوں کو نفسیاتی، جسمانی اور معاشی ظلم و ستم برداشت کرنا پڑتاہے کیونکہ ہندو قوم پرست بیانیے کا مقصد ان کی ثقافتی اور مذہبی شناخت کو مٹانا ہے۔مودی کے انتہاپسند ایجنڈے کے تحت مذہبی آزادی کے حوالے سے بھارت کے بگڑتے ہوئے ریکارڈ نے اسے یوم مذہب منانے کے لیے غیر موزوں بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی رہنما انسانی حقوق کی ان بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری کارروائی اور بھارت کو مذہبی اقلیتوں پر جاری حملوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے تحت مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر پسماندہ طبقوں پر مسلسل ظلم و ستم بھارت کے جمہوری اقدار اور زمینی حقائق کے درمیان کھلے تضاد کو واضح کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی عدم رواداری سے نہ صرف بھارت کے سماجی تانے بانے کو خطرہ ہے بلکہ مذہبی آزادیبھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع ہمیر پور میں پولیس نے ایک دلت خاندان کے گھر پر عرس منانے اور دعائیہ پروگرام منعقد کرنے پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کے الزام میں پانچ مسلمانوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
ضلع کے علاقے موداہا میں دلت خاندان کی خاتون ارمیلا اور اس کے شوہر اجیت ورما نے مبینہ طور پر ملزمین کے کہنے پر اپنے گھر کے اندر ایک مزار کی تعمیر کرائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ارمیلا کی بیماریاں ٹھیک ہو جائیں گی اور اس کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔جب یہ دلت خاندان 10جنوری کی رات اپنے گھر کے اندر عرس کا اہتمام کر رہا تھا، توہندوتوا تنظیم بجرنگ دل کے اراکین نے اس پروگرام میں خلل ڈالا اور اس کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی۔ ہندو اراکین نے الزام لگایا کہ مسلمان اس دلت خاندان کو اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
پولیس نے جن پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے ان کی شناخت55سالہ نورالدین ،ان کے32سالہ بھتیجے معراج حسن ،42سالہ خلیف ،46سالہ عرفان اور 52سالہ محمد حنیف کے طور پر کی گئی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔تاہم مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ارمیلا نے ان پانچوں افراد کے خلاف کوئی منفی بیان نہیں دیا لیکن ایف آئی آر ان کے نام پرکی گئی شکایت پر ہی درج کی گئی ہے۔ ہمیر پور میں پولیس اسٹیشن کے باہر اجیت ورما اور ارمیلا نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اور انسانی حقوق کے لیے عالمی چیلنج بھی ہے۔