میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روس اور یوکرین جنگ کے اثرات

روس اور یوکرین جنگ کے اثرات

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود
کیا 2024ء یوکرین جنگ میں تیزی اور شدت کا سال ہوگا یا اس کا کوئی حل نکلے گا یا پھر اس جنگ میں سخت تعطل کا سال رہے گا؟ یہ وہ سب سوالات ہیں جو ایک ایسے وقت میں ذہن میں آئے ہیں ،جب روس اور یوکرین میں جاری جنگ کو اگلے ماہ یعنی فروری میں دو سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ مہینوں سے جاری تھکا دینے والی لڑائی اور دونوں جانب تباہ کن نقصانات کے بعد کیا اس بات کی کوئی آثار ہیںکہ روسی صدر پیوٹن اس جنگ میں اُکتا چکے ہیں۔ روسی صدر کے سال نو کے موقع پر خطاب سے ہمیں یہ واضح اندازہ ہوتا ہے کہ پیوٹن اس جنگ کو لے کر کہاں کھڑے ہیں اور وہ اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور وہ 2024 میں روس کو کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں؟انہوں نے اس خطاب میں دراصل کیا کہا اس کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں ان کی تقریرکے دوران تصاویر نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے ، کیونکہ پیچھے سخت چہروں والے مرد اور عورتیں یونیفارم میںکھڑے تھے۔ یہ 2024کا روس ہے ، جو یہ کہتا ہے کہ یہ ایک جنگ زدہ ملک ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ان ممالک کے لیے مستقبل قریب خوفناک دکھائی دے رہا ہے جو دونوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے روسی اور یوکرائنی گندم کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں۔ دنیا کے دو اہم گندم پیدا کرنے والے ممالک ایک مکمل جنگ میں آمنے سامنے کھڑے ہیں ۔ روس دنیا کا نمبر ون گندم کا برآمد کنندہ ہے اور چین اور بھارت کے بعد یوکرین دنیا بھر میں گندم کے پانچ بڑے برآمد کنندگان میں شامل ہے۔ گندم کی کٹائی جولائی میں شروع ہوتی ہے اور رواں سال پیداوار بہت زیادہ ہونے کی توقع ہے لیکن یوکرین میں طویل جنگ اس ملک میں فصلوں کی کٹائی اور عالمی منڈیوں میں اس کی سپلائی کو متاثرکر سکتی ہے۔لندن یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کی سیاست کے لیکچرار نے بتایا ہے کہ روس کے بینکنگ سسٹم پر عالمی پابندیوں اور یوکرین پرماسکو کے حملے کے بدلے میں بین الاقوامی بینکوں کی منصوبہ بند بے دخلی سے ملک کی برآمدات کو نقصان پہنچنے کی توقع ہے۔ اگرچہ ترکی مقامی طور پر استعمال ہونے والی گندم کا تقریبا نصف پیداوار کرتا ہے لیکن یہ درآمدات پر تیزی سے انحصار کرتا جا رہا ہے جس میں 85 فیصد روس اور یوکرین سے آتے ہیں ۔بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ناکافی سپلائی نے پہلے ہی مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے معاشی طور پر پس ماندہ ممالک کو متاثر کیا ہے جو اپنی گندم کا بڑا حصہ روس اور یوکرین سے خریدتے ہیں جس سے وہ بحران کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ یوکرین ان میں سے زیادہ تر ممالک کواناج کی ایک بڑی مقدار فراہم کرتا ہے اور ان میں سے بہت ساری جنگیں پہلے ہی چھری کے دہانے پر ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی ابوظہبی میں مشرق وسطیٰ کی سیاست کے پروفیسر مونیکا مارکس نے بتایا کہ کم سے کم چھوٹی چیز جو روٹی کی قیمتوں کو مزید پریشان کرتی ہے واقعی بہت زیادہ ہنگامہ آرائی کو جنم دے سکتی ہے۔ مصر اپنی گندم کی 85 فیصد درآمدات کی لیے روس اور یوکرین پر انحصار کرتا ہے۔ تیونس اپنی گندم کی 50 سے 60 فیصد درآمدات کے لیے یوکرین پر انحصار کرتا ہے۔ مارش نے کہا کہ تیونس پہلے ہی اقتصادی طور پر دیوار کے خلاف کھڑا ہے۔ تیونس میں بہت لوگ لبنان کے منظر نامے کے امکانات کے بارے میں بات کرتے ہیں اور وہ پاگل نہیں ہیں۔ انہوں نے ان رپورٹوں کا حوالہ دیا کہ تیونس کی حکومت پہلے ہی گندم کی درآمد کے لیے ادائیگی کرنے سے قاصر رہی ہے اور کہا کہ پاستہ اور کراکسی جیسی اناج کی مصنوعات کے بڑے پیمانے پر قلت ہے جو تیونس کی خوراک کا اہم حصہ ہے ۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ یمن اور سوڈان کے علاوہ مصر تیونس اور لبنان بھی قیمتوں میں اضافے اور مانگ میں اضافے سے بہت پریشان ہیں جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شدت اختیار کر رہی ہے ۔ان کی زرخیز زمینوں سے گندم کی درآمد ات میں ممکنہ کمی شمالی افریقہ کے کنارے سے نیونٹ تک کمزور ممالک میں محسوس کی جائے گی۔ مارش نے کہا کہ اگرچہ مراکش گندم کی درآمد پر اپنے پڑوسیوں پر اتنا انحصار نہیں کر رہا ہے لیکن وہ اس وقت 30 سالوں سے بدترین خوشحالی کا سامنا کر رہا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جو آخر کار حکومت کو اناج کی درآمد اور سبسڈی بڑھانے پر مجبور کر دے گا۔ دنیا کے اس حصے میں ایک سیاسی طور پر طے شدہ شے کے طور پر روٹی کے کردار کو دیکھتے ہیں ہوئے گندم کی سپلائی پر مزید دباؤ اور بڑھتی ہوئی قیمتیں بغاوت کو جنم دے سکتی ہیں۔ روٹی مصر اور تیونس میں 1970اور 1980کی دہائیوں میں عوامی بغاوتوں کی ایک وجہ اور علامت رہی ہے ۔ مصری انقلاب سے پہلے یوروشیا میں ایک بڑی خوشحالی اور روٹی کی قیمتوں میں اسی طرح اضافہ ہوا تھا ۔ اس وقت امریکہ میں بھی ڈبل روٹی اور گندم سے بننے والی چیزوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر روس اور یوکرین میں جنگ کی شدت بڑھتی ہے اور مزید پھیلتی ہے تو اس کے اثرات عالمی سطح پر گھر گھر میں محسوس کیے جائیں گے۔ 2019 میں روس اور یوکرین نے دنیا کو 25.2 فیصد برآمد کی 2019 میں مصر ترکی اور بنگلہ دیش نے روس کی نصف سے زیادہ گندم خریدی ۔ مصر دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے ۔ یہ اپنی 100 ملین سے زیادہ آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے سالانہ چار بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ واضح نظر آرہا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ دنیا بھر کے ممالک پر معاشی طور پر گہرے منفی اثرات چھوڑے گی۔ جبکہ ایٹمی جنگ کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد بڑی طاقتوں نے اپنی من مانی کی اجارہ داری کی۔ بالخصوص ایک خاص ایجنڈے کے تحت مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ۔تصور کریں صرف دو جنگوں میں جو عراق اور افغانستان پر مسلط کی گئی تھی عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 500 ہزار مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔جن ممالک میں امریکہ اس وقت دہشت گردی سے لڑ رہا تھا ،ان میں سے کم از کم ناقابل یقین حد تک مہلک رہے ہیں عراق افغانستان اور پاکستان۔ المیہ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں اور ترقی پزیر ممالک کو اپنی روٹی فکر کی فکر پڑی ہے جبکہ عراق کو کھنڈرات میں بدلنے والے ممالک جن کا وعدہ تھا کہ عراق کو تعمیر کرنے کی ذمہ داری ان کی ہے اسے نظر کر دیا۔ ایسے بہت سے وعدے ان ترقی یافتہ ممالک نے جنگ مسلط کرنے سے پہلے کیے اور نظر انداز کر گئے، ان میں افغانستان بھی شامل ہے۔ افغانستان کے فنڈز کو منجمد کرنے والے ممالک آج خود مشکلات کی لپیٹ میں ا رہے ہیں۔ ممالک کی ناک کے نیچے جو انسانی حقوق کے دعویٰ دار بنتے ہیں افغانستان میں ،ان کی جنگی پالیسیوں کی وجہ سے بھوک وا فلاس منڈلا رہی ہے۔ جن بڑی طاقتوں نے افغانستان کو اس نہج پر پہنچایا آج کہاں ہے ؟ انسانی ہمدردی کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھوک بڑھتا ہوا بحران گزشتہ 20 سال کی جنگ سے زیادہ افغانیوں کی جان لے سکتا ہے۔ لوگ اپنے اعضا ء بیچ رہے ہیں۔لوگ اپنے بچے بیچ رہے ہیں۔ وہ مایوس ہیں۔ وہ بھوکے ہیں اور صورتحال سنگین ہے۔ تقریبا دوتہائی آبادی تقریبا 23 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ایک سائل کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔ ورلڈ فوڈکا کہنا ہے کہ نو ملین افغان قید سے صرف ایک قدم پر ہیں یہ صرف غیر معمولی ہے جس رفتار اور حد تک صورتحال نے ملک میں ہر ایک کو متاثر کیا ہے ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ افغانستان میں بھوک کا نیا چہرہ ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد واشنگٹن نے ملک میں ڈالر کی ترسیل روک دی جس سے نقدی کا بحران پیدا ہوا جس سے انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اور عام افغان متاثر ہوئے ۔واشنگٹن نے طالبان کو اس حد تک رسائی سے روکنے کے لیے موجود تقریبا 9.5 بلین ڈالرز کے افغانستان کے غیر ملکی ذخائر کو بھی منجمد کر دیا ہے۔ آج افغانستان میں جو بحران پیدا ہے اور جس طرح افغان عوام موت کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں اس کی ذمہ داری ان بڑی طاقتوں پر جاتی ہے جو گزشتہ کئی برسوں تک طالبان کے ساتھ بے بنیاد جنگ میں ملوث رہے اور افغانستان کو تباہ حال چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں فرار ہو گئے اور دوحا میں طالبان کے ساتھ کیے معاہدے کو کچرے کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ یہی صورتحال عراق کے ساتھ کی گئی ۔ روس نے یوکرین پر چڑھائی کی تو ان بڑی طاقتوں کو انسانی حقوق کا احساس ہوا اور اب وہ روس کو اس کا سبق پڑھا رہے ہیں جنہوں نے خود ایک فیصد بھی اس پر عمل نہیں کیا۔ اب گھڑی کی سوئی اُلٹی چلنا شروع ہو گئی ہے۔ اب روس کے اقدامات سے ان ممالک میں گندم کا بحران سر اٹھا رہا ہے اور مہنگائی نے آسمان کو چھونا شروع کر دیا ہے۔ اگر روس اپنی پالیسی پر قائم رہا تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ترقی یافتہ ممالک بھی روٹی کو ترسیں گے۔ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ۔بڑی طاقتوںنے عراق اور افغانستان کو نظر انداز کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے اور اب افغان عوام اور عراق عوام کی آہیں اور بددعائیں انہیں اب ایسے بحران میں دھکیل سکتی ہیں جس میں عراقی اور افغانی پھنس چکے ہیں کیونکہ گھڑی کی سوئی اُلٹی چلنی شروع ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں