عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور اسرائیلی درندگی
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
جنوبی افریقہ کی طرف سے غزہ کی پٹی پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کے خلاف ہنگامی اقدامات کے لیے عالمی عدالت ِانصاف میں دائرکی جانے والی درخواست پرجمعہ کے روزفیصلہ سناد یا گیاہے۔ سترہ رُکنی عدالت نے حکم دیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات یقینی بنانے کے ساتھ ایک ماہ کے اندر عدالت کو رپورٹ بھی پیش کی جائے ۔جارح فوج کو مزید پابندکیا گیا ہے کہ نسل کشی کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے آرٹیکل 2کے مطابق فلسطینیوں کے قتل ،شدید جسمانی یا ذہنی نقصان ،ایذارسانی ،اُن کی مکمل یا جزوی جسمانی تباہی ،جان بوجھ کر اُن کے معمولاتِ زندگی پر اثر انداز ہونے نیز ایسے اقدامات جس سے فلسطینی آبادی کی شرح پیدائش رُک جائے جیسی کوششیں ختم کی جائیں اگر عالمی عدالتِ کے فیصلے پرعملدرآمد ہوجائے تو اسرائیلی مظالم میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے مگر ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیل عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے نسل کشی کا سلسلہ ختم کرنے پر آمادہ ہے بلکہ ہنوز صیہونی افواج وحشت و درندگی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اب بھی نہ صرف فضائی حملے جاری ہیں بلکہ ہسپتالوں کا بھی محاصرہ کیاجاچکا ہے جس کی وجہ سے زخمیوں کے آپریشن منسوخ کیے جا چکے ہیں ۔اِس سے غزہ کی پٹی پرفلسطینیوں کی حیات کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ عالمی عدالت ِ انصاف کے فیصلے میں جوسب سے بڑا سقم نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو حملے روکنے کا حکم نہیں دیاگیا ۔ اسی لیے دیدہ دلیری سے نرم فیصلہ بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں،بلکہ درندگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
غزہ میں اسرائیلی درندگی دیکھتے ہوئے بھی ستاون سے زائد مسلم ممالک خاموش ہیں۔ جنوبی افریقہ نے دلیری کا مظاہرہ کیا اور عالمی عدالت ِ انصاف میں درخواست دائر کردی۔ اِس پربھی ابتدا میں اسرائیل اعتراضات کرتے ہوئے عدالت ِانصاف کے سماعت کے دائرہ کارکو ہی چیلنج کردیا مگر عدالت نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے سماعت جاری رکھی اور جارح اسرائیل کوچند احتیاط کرنے کا پابند کردیاہے۔ ابھی عدالت نے نسل کشی کے الزامات کے حوالے سے فیصلہ سنانا ہے جس پر کافی وقت لگ سکتا ہے کیونکہ تحقیقات ہونی اور شواہد جمع کرنے ہیں جنھیں مد ِنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر عدالت کا اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش ظاہرکرنا اوریہ قرار دینا کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اُن میں سے بعض نسل کشی کنونشن کی تعریف کے مطابق ہیں۔ جارح صیہونی ریاست کے خلاف عالمی عدالت میں مضبوط مقدمے کی بنیا د بن سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف پاس کی جانے والی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی طرح عالمی عدالت ِ انصاف کے فیصلے کو بھی اہمیت دینے اور عمل کرنے کا کوئی اِرادہ نہیں رکھتا کیونکہ نہ صرف غزہ کی آبادی پر حملے جاری ہیں بلکہ ا سکولوں ،ہسپتالوں ،یواین او اورذرائع ابلاغ کے دفاتراور مہاجرکیمپوںپر بھی بلادریغ بم برسائے جارہے ہیںجس سے حماس کاخاتمہ تو شاید نہ ہومگر بوسنیاکے شہر سریبرینیکاکی طرح غزہ سے انسانی آبادی ختم ہونے کا امکان بڑھنے لگا ہے ۔سات اکتوبر سے اب تک حملوں میں تیس ہزارسے زائد معصوم اور بے گناہ فلسطینی نہ صرف جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیںبلکہ زخمی اور معذور ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ کتنے افراد ملبے تلے دب کر جاںبحق ہوئے اور کتنے ابھی تک زخموں سے چورتڑپ رہے ہیں ۔ درست اعداد و شمار کاعلم ہی نہیں کیونکہ فضائی حملوں میں وقفہ ہی نہیں آنے دیاجا رہا۔ رواں برس فلسطین میں طلبا و طالبات کے امتحانات کا انعقاد بھی نہیں ہو سکا کیونکہ امتحان دینے کے لیے کوئی زندہ ہی نہیں بچا۔یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے ؟پانی اور خوراک کی قلت سے الگ انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ بیماروں اور زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات تک حاصل نہیں۔ لیکن مہذب کہلوانے کی دعویدار عالمی طاقتیں بدستور اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کامنظرنامہ اپنی مرضی کے مطابق رکھنا چاہتی ہیں جس کے لیے ایک ناقابلِ شکست اسرائیل ضروری ہے مگر ضرورت اِس امرکی ہے کہ مسلم امہ کی تو کوئی مجبوری نہیں اُسے تو متحد ہوکر مظلوم فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ صیہونی افواج کی درندگی کا سلسلہ ختم ہو ۔
سات اکتوبر2023کی صبح حماس نے اسرائیل پر حملہ سعودیہ و اسرائیل کو تعلقات قائم کرنے سے روکنے کی نیت سے کیاتھا مگر حملے کی حماقت کرتے ہوئے بھلا دیا گیا کہ جنگ کا آغازکرنا سہل مگر جنگ کا خاتمہ کرنا مشکل ہی نہیں کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے ۔آج غزہ میں یہی ہورہا ہے۔ ساراعلاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ غزہ کی تمام آبادی کو بے گھر کرانے کے باوجود اسرائیل و سعودیہ کودور نہیں کیا جاسکا۔ وہ اب بھی باہمی تعلقات قائم کرنے پر متفق ہیں ۔اسی لیے حماس کے حملے کو حماقت کہتاہوںکیونکہ نہ تو حملے کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ پوری آبادی کو بے گھر کرانے کے ساتھ ہزاروں اموات و لاکھوں زخمی کرانے جیسے الگ صدمات کادروازہ کھول دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ فلسطین اسرائیل دشمن ہے مگر جتنی دشمنی حماس نے کی ہے وہ بھی اسرائیل سے کم نہیں۔ حماس کے پشتیبان ایران کی تو یہ حالت ہے کہ وہ مذمتی بیانات جاری کرنے کے سواکچھ نہیں کر رہا ۔اب تواسرائیل کو محفوظ بنانے کی آڑ میں صیہونی افواج لبنان ،عراق ،شام اور اُردن کو بھی نشانہ بنانے لگی ہیں جس سے بدامنی فروغ پانے کا خدشہ ہے۔
اسرائیلی حملوں کے جواب میں حوثی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل کو سامان کی ترسیل کرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں جس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ حوثیوں کے ٹھکانوں پر درجنوں حملے کر چکے ہیں جن میں کافی مالی وجانی نقصان ہو چکاہے۔ یوں ایک اورمحاذپر لڑائی کا آغاز ہوچکاہے ،اِس کی بھی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اُس کی حماقت نے فلسطین کو وحشت و درندگی کی نذر کیا اب یمن بھی تباہی کی زد میں ہے لیکن بھاری نقصان کے باوجوداب بھی حماس قیادت بڑھک بازی میں مصروف ہے ۔
جنوبی افریقہ کی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر قانون کی پاسداری کے لیے فیصلہ کُن برتری سے تعبیر کرتے ہوئے عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے کو فلسطینی عوام کے لیے حصولِ انصاف کا اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا اہم فیصلہ ہے جومظلوم فلسطینیوں کو مصائب ومزید نقصان سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مگراسرائیل کی طرف سے ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے جس سے ظاہر ہوکہ وہ جنونیت اور وحشت چھوڑ کر امن پسندانہ اقدامات پر رضا مندہے مسلم ممالک کی طرف سے بھی اسرائیلی کارروائیاں بندکرانے کے لیے یکسوئی کا فقدان ہے۔ حالانکہ وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سفارتی اور تجاتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اگر موثر کردار ادا کریں تو نہ صرف عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن ہے بلکہ درندہ صفت صیہونی افواج کی جارحیت کا سلسلہ بھی فوری ختم ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ بے حسی کی شکارمسلم دنیا لاتعلق ہے ۔ اسی لیے اسرائیل کسی عالمی قانو ن یا فیصلے کو خاطر میں نہیں لا رہا اور غزہ کی پٹی پرآبادمعصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کو نسل کشی کا سامنا ہے کیونکہ غزہ میں جو ہورہا ہے وہ محض تماشائی کی طرح دیکھنے سے مسلم دنیا کی کمزوری اُجاگر ہورہی ہے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے مسلم امہ جب تک متحرک نہیں ہو گی نہ صرف فلسطینیوں کو نسل کشی کا سامنا رہے گا بلکہ عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے پر عمل ہونا بھی مشکل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔